سعودی عرب کو تنہا کرنے کی ناکام کوشش

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان

نیوز ٹائم

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حالیہ کامیاب غیر ملکی دورے سے Khaminiat ، Muslim Brotherhood  اور left wing کی سعودی عرب کو سیاسی طور پر تنہا کرنے کی مہم ناکام ہو گئی ہے۔ انھوں نے سعودی عرب کو تنہا کرنے کے لیے ایک سیاسی دیوار کھڑا کرنے کی کوشش کی تھی۔ Crown Prince Mohammed bin Salman نے گذشتہ چند روز کے دوران میں متحدہ عرب امارات، بحرین، تیونس، موریتانیہ، الجزائر اور ارجنٹینا کے دورے کیے ہیں۔ بیونس آئرس میں جی 20 سربراہ اجلاس میں ان کی موجودگی اہمیت کی حامل تھی۔

سعودی صحافی Jamal Khashoggi کے قتل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کے بعد سعودی عرب کے دشمنوں کا مقصد بڑا واضح ہو چکا ہے۔ اس مقصد کا تعلق کسی کو سزا دینے یا سچائی کو منظر عام پر لانے سے نہیں۔ اس کا خالصتا قانونی اور مجرمانہ پہلو سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ہر غیر جانبدار اور عقل شخص کی نظر میں Jamal Khashoggi کیس کو سعودی عرب کو Crown Prince Mohammed bin Salman کی قیادت اور King Salman bin Abdul Aziz کی سرپرستی میں سیاسی اور اقتصادی ترقی سے روکنے کے لیے ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔  اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ سعودی عرب کے خلاف مہم اور اس کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکی انتظامیہ سے دوستانہ تعلقات کو نقصان پہنچانے کے لیے کوشش Jamal Khashoggi کے قتل سے قبل ہی شروع ہو چکی تھی۔  امریکا کے بائیں بازو کے میڈیا یا مغربی میڈیا نے بالعموم Muslim Brotherhood  اور Khaminiat کی گپ بازی اور یا وہ گوئی کو ہمیشہ اہمیت دی ہے۔

بین الاقوامی اتحاد:

مغربی میڈیا نے یمن میں جنگ کے جواز کو مسخ کیا اور صرف سعودی عرب کے کردار کو نمایاں کرنے اور نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے  جبکہ قانونی حکومت کی عمل داری کی بحالی کے لیے برسرپیکار بین الاقوامی اتحاد کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے، صرف اور صرف سعودی عرب پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔  اس کو غریب، بے یارومددگار اور یمنی عوام کے خلاف ایک جارح کے طور پر پیش کیا ہے۔

امریکا میں واشنگٹن پوسٹ، نیو یارک ٹائمز، سی این این، برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اور دا گارجین ایسے نے بھی یہی بیانیہ پیش کیا ہے۔ ان کے علاوہ بعض یورپی میڈیا اداروں کی عربی زبان میں میڈیا سروس نے بھی یہی سعودی مخالف نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں فرانس 24 اور جرمنی کے ڈویچے ویلے چینلز خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ بالا میڈیا ادارے یمن کی صورت حال کی اس انداز میں تصویر کشی کر رہے ہیں کہ کسی ملیشیا کو ایران یا پاسداران انقلاب سے میزائل، تربیت اور ہتھیار نہیں مل رہے ہیں اور ان کے حق میں کوئی پروپیگنڈا بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔ ان کی میڈیا کوریج سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے شہروں پر کوئی میزائل داغے نہیں جا رہے ہیں اور نہ ان سے لوگ مر رہے ہیں۔ ان کی تصویر کشی سے یہ پتا چلتا ہے کہ حوثی گینگ کو مسترد کرنے والے یمنی عوام شروع سے موجود ہی نہیں ہیں۔یمن میں کوئی قانونی حکومت نہیں اور نہ یمنی صدر کے تحت حکومت حوثی باغیوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔

ان کے بیانیے سے تو لگتا ہے کہ حوثیوں کو مجرم ٹھہرانے سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بین الاقوامی قراردادوں کا کوئی وجود ہے اور نہ ان کے ذریعے یمن کی قانونی حکومت کی حمایت کی گئی ہے۔ بائیں بازو کا یہ میڈیا مذکورہ بالا حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے یمن کی ایک ایسی تصویر پیش کر رہا ہے جس سے یہ لگتا ہے کہ یہ صرف اور صرف Crown Prince Mohammed bin Salman کی قیادت میں ایک جارحیت ہے۔

سعودی عرب کا  Muslim Brotherhood اور انتہا پسند گروپوں کے خلاف جنگ میں قائدانہ کردار ہے جس کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ سعودی Crown Prince Mohammed bin Salman نے اس جنگ کو مملکت کی پالیسی میں سب سے مقدم قرار دے رکھا ہے۔ ان تمام چیزوں کے ساتھ سعودی عرب کے دلیرانہ معاشی اقدامات نے Muslim Brotherhood ،  left wing  اور Khaminiat کے تاریک سہ فریقی اتحاد کو سیخ پا کر دیا ہے۔ چنانچہ انھوں نے Jamal Khashoggi کے کیس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لیکن انھیں یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ سعودی عرب کو تنہائی کا شکار کرنے کے لیے وہ میڈیا کی اس مہم میں کامیاب ہو سکتے ہیں لیکن وہ اس میں ناکام رہے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply