ایران کے خلاف امریکہ اپنی دوہری حکمت عملی پر سرگرم

امریکہ کی خارجہ پالیسی میں توانائی ہمیشہ سے ہی ایک اہم عنصر رہا ہے

امریکہ کی خارجہ پالیسی میں توانائی ہمیشہ سے ہی ایک اہم عنصر رہا ہے

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکہ کی خارجہ پالیسی میں توانائی ہمیشہ سے ہی ایک اہم عنصر رہا ہے۔ تیل اور گیس کے عالمی بازار میں جو کچھ بھی ہو رہا ہو امریکہ اس کے پیدا کرنے والے ممالک اور اس کے صارف ممالک کی خارجہ پالیسی کو براہ راست متاثر کرتا رہا ہے۔ لیکن تیل اور گیس کی پیداوار، فراہمی اور بازار تک پہنچانے کے متعلق کسی بھی تنازعے کی صورت میں نئی علاقائی اور بین الاقوامی تنظیمیں بھی وجود میں آئی ہیں۔ یہ تنظیمیں علاقائی اور عالمی تنازعات کو حل کرنے، تیل اور گیس کی پیداوار کے لیے متبادل ذرائع کے متعلق فیصلے کرتی ہیں۔ ایران کے خلاف دوسرے مرحلے کی پابندی، امریکہ کی سعودی عرب اور روس کے ساتھ مل کر اپنے اپنے تیل کی پیداوار میں اضافے سے ان کے مشترکہ مقاصد بخوبی ظاہر ہوتے ہیں۔

سابق صدر باراک اوباما انتظامیہ کے دوران پابندی:

امریکی صدر باراک اوباما کے دور حکومت میں ایران پر پابندی کا بنیادی مقصد ایرانی تیل کی برآمدات کو کم کرنا تھا اور ایران کے فروخت کردہ پٹرول کی قیمت کی ادائیگی پر بین الاقوامی مالی نظام کے ذریعے پابندی عائد کرنا تھا۔ پہلی بار اوباما انتظامیہ نے سوئفٹ (سوسائٹی فار ورلڈ وائڈ انٹربینک فانینشیئل ٹیلی کمیونیکیشن) کے ذریعے  ایران کے لین دین کے امکانات کو محدود کرنے کی کوشش کی۔اس کا اثر یہ ہوا کہ ایران کے لیے اپنے تیل کی قیمت کی وصولی مشکل ہوتی گئی۔

ایران کو اپنی معیشت کو فروغ دینے اور خطے میں اپنا سیاسی زور قائم رکھنے کے لیے تیل، گیس اور پیٹرو کیمیکل کی فروخت سے حاصل ہونے والے رقوم کی سخت ضرورت رہی ہے۔ اوباما دور حکومت میں عائد پابندی کے سبب نہ صرف ایران کے تیل کی برآمدات میں کمی واقع ہوئی بلکہ اس کے ایل این جی کے تمام پروجیکٹس کو بھی درمیان میں ہی روک دیا گیا اور ایران ایل این جی کے بازار میں اپنا ہدف حاصل نہیں کر پایا۔ ایران کا منصوبہ یورپ کو ایل این جی برآمد کر کے اس کے قدرتی گیس کے بازار میں اپنا قدم جمانا تھا  لیکن اس کی پائپ لائن کا منصوبہ ادھورا رہ گیا۔ ایران کا ایک منصوبہ یہ بھی تھا کہ خاص قسم کے بحری جہاز سے ایف ایل این جی (تیرتا ہوا سیال قدرتی گیس) حاصل کر کے ایل این جی کی پیداوار کرے مگر پابندی کے سبب دوسرے ممالک سے ضروری ٹیکنالوجی حاصل کرنے کا راستہ بھی مسدود ہو گیا۔

صدر ٹرمپ کا ایران کے ساتھ 6 ممالک کے ایٹمی معاہدے سے باہر نکلنے اور ایران کی توانائی کی صنعت پر نئی پابندیاں عائد کرنے کا سب سے بڑا مقصد اس کا توانائی کی برآمدات کے لیے سازگار ماحول بنانا اور امریکہ کی توانائی کی صنعت کو مضبوط کرنا اور اس کے لیے نئے بازار تلاش کرنا تھا۔ چنانچہ 2018 ء میں امریکہ نے روزانہ 30 لاکھ بیرل سے بھی زیادہ تیل اور گیس برآمد کیا۔ دوسری طرف جنوبی کوریا نے 60 فیصد سے زیادہ ایرانی تیل درآمد کیا۔ امریکہ اب جنوبی کوریا کو اپنے ایل این جی کی برآمدات میں اضافہ کر کے ایرانی تیل اور گیس کی برآمدات کی مقدار کو کم کرنا چاہتا ہے جس کے نتیجے میں ایران، مشرقی ایشیا میں اپنا ایک بڑا خریدار کھو سکتا ہے۔

ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایران کے ہلکے خام تیل کی کیمیائی خاصیت امریکی خام تیل کی کیمیائی خصوصیات سے مختلف ہے۔ اگر ایران کے خام تیل کی خصوصیت امریکہ کے خام تیل (شیل تیل) سے ملتی جلتی ہوتی تو امکان تھا  کہ امریکہ کا خام تیل عالمی بازار میں ایک حد تک ایران کے خام تیل کے مترادف ہو جاتا۔ امریکہ، ایران کے تیل کی برآمدات کو صفر تک پہنچانا چاہتا تھا  لیکن امریکہ کی طرف سے ایران کے 8 بڑے تیل درآمد کرنے والے ممالک کو دی جانے والی چھوٹ سے اب ایران کی برآمدات جاری رہ سکے گی۔ اور اس طرح ایران 2025 ء تک اپنی ترقی کے منصوبے کے حصول کے لیے روزانہ 5 کروڑ 7 لاکھ بیرل تیل کی پیداوار کر سکے گا  جو کہ مجموعی عالمی پیداوار کا 7 فیصد ہو گا۔ ایران کے تیل کی صنعت پر پابندیاں، ایران کے بڑے خریدار ممالک کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتی ہیں  اس کے ساتھ ہی توانائی کے بازار میں روس، ایران کے بڑے حریف کے طور پر سامنے آ سکتا ہے۔

ایرانی تیل کا ایک بڑا خریدار چین 2017 ء میں روزانہ ایران سے 7 لاکھ 80 ہزار بیرل تیل درآمد کرتا رہا ہے۔ چین کی ترقی پذیر معیشت کے لیے محفوظ ذرائع سے توانائی کی مسلسل فراہمی اور توانائی کے اہم اور متنوع ذرائع ہی چین کی قومی توانائی پالیسی کا مرکز رہے ہیں۔ ایران پر پابندی سے پہلے کئی چینی کمپنیاں، ایران کی توانائی کی صنعت میں بہت فعال تھیں۔ چین اپنی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے توانائی کی محفوظ فراہمی اور اپنی خارجہ پالیسی کے پیش نظر، ایران سے تیل کی خریداری جاری رکھنا چاہتا ہے۔ لیکن حالیہ صورت حال میں وہ ایسے ممالک سے تیل اور گیس کی درآمد کو ترجیح دینا چاہے گا جس کا امریکہ کے ساتھ بڑا تنازع اور کشیدگی نہ ہو۔چین کے بعد انڈیا، ایران کا دوسرا سب سے بڑا تیل کا خریدار ہے۔

رواں سال اپریل سے اگست کے درمیان انڈیا نے ایران سے 6 لاکھ 58 ہزار بیرل تیل روزانہ درآمد کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایران کے گیس اور تیل کے منصوبے میں بھی وہ شرکت چاہتا ہے۔ لیکن سعودی عرب کی انڈیا پر نظر ہے، اور وہ توانائی کے بازار میں فعال سفارت کاری کے بھروسے انڈیا کی خارجہ پالیسی کو متاثر کرنے کے لیے سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ انڈیا کے بازار میں ایران کے کردار کو کم کیا جا سکے۔ 2018 کے آغاز میں سعودی عرب کی ارامو کمپنی نے انڈیا کے ساحلی شہر رتناگیری میں تیل صاف کرنے والے کارخانے کے 50 فیصد حصص 44 ارب ڈالر میں خریدے۔  رتناگیری فیسیلیٹی میں روزانہ 6 کروڑ ٹن خام تیل کو صاف کرنے کی صلاحیت ہے۔ اس کے ساتھ انڈیا، امریکہ سے بھی تیل درآمد کر رہا ہے۔ اس نے جون میں امریکہ سے روزانہ تقریبا 2 لاکھ 28 ہزار بیرل تیل درآمد کیا۔

دریں اثنا امریکی وزیر تیل کا کہنا ہے کہ مستقبل میں امریکہ، انڈیا کے لیے اپنی تیل کی برآمدات میں اضافہ کرنے کا خواہاں ہے۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک نے ایل این جی کے لیے 20 سالہ معاہدے پر دستخط کیا ہے جس کے تحت امریکہ، انڈیا کو ایل این جی برآمد کرے گا۔ ایسی صورت میں ایران سے انڈیا میں تیل کی درآمد متاثر ہوتی نظر آتی ہے لیکن ایران نے انڈیا کو تیل کے لانے پر اخراجات میں کمی کے لالچ دیے ہیں۔ توانائی کی محفوظ فراہمی یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کا اہم جز رہا ہے۔  یورپی ممالک ایران سے روزانہ تقریبا 5 لاکھ بیرل تیل درآمد کرتے ہیں۔ اوباما انتظامیہ کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیوں سے پہلے ایران نے منصوبہ بنایا تھا کہ ایک مخصوص وقت کے اندر وہ اپنے یہاں ضروری بنیادی ڈھانچہ تیار کر کے یورپی یونین کو گیس برآمد کرے  لیکن توانائی کے گھریلو اخراجات میں اضافے اور تیل نکالے جانے کے شعبے میں ضروری سرمایہ کاری کی کمی کی وجہ سے ان کا منصوبہ پورا نہیں ہو سکا۔

ایران کے تیل اور گیس کے منصوبوں میں جو غیر ملکی کمپنیاں سرگرم تھیں وہ بھی امریکی پابندیوں کے بعد وہاں سے نکل آئیں۔ اس کے ساتھ یورپ میں اضافی گیس کی ضرورت بھی نہیں رہی اور گیس کی قیمتوں میں کمی جیسے عوامل کی وجہ سے ایران کا منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔ ایرانی رہنما علی اکبر ولایتی نے رواں سال جولائی میں اپنے روس کے سفر کے دوران ولادی میر پیوٹن کے حوالے سے کہا تھا کہ روس تیل اور گیس کے شعبے میں ایران کے ساتھ اپنے تعاون کو جاری رکھے گا اور اس کے ساتھ ہی ایران اس شعبے میں 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کرے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ روسی کمپنیاں ایسے علاقوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں جن علاقوں کی پیداوار روس کے ہدف بازاروں کے لیے خطرہ پیدا نہیں کرے گا۔ لیکن یہاں یورپی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں روسی ٹیکنالوجی کے معیار کا سوال بھی ہے۔

ایرانی تیل اور گیس کی برآمدات کا مستقبل:

شیل گیس کے انقلاب نے امریکہ کو توانائی درآمد کرنے والے ممالک سے قدرتی گیس اور ایل این جی برآمد کرنے والے ممالک میں تبدیل کر دیا۔ شیل گیس نہ صرف امریکہ کی معیشت میں تابناکی کا موجب ہوا بلکہ امریکی خارجہ پالیسی کے لیے ایک موثر ہتھیار ثابت ہوا۔ شیل تیل کی پیداوار میں اضافہ کی وجہ سے مستقبل میں پیٹرول برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کو چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایرانی معیشت کا تیل کی آمدن پر انحصار اور امریکہ کے سبب اس کے تیل کی برآمدات میں کمی کے سبب علاقائی سطح پر ایران کے اثر و رسوخ میں کمی آئی ہے اور اس کے سبب امریکی توانائی کی پالیسی کے لیے سازگار ماحول بنتا ہے۔

دوسری جانب ایران بغیر غیر ملکی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کے اپنے تیل کی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ نہیں کر سکتا ہے۔ ایران کے زر مبادلہ، غیر ملکی کرنسی کے ذخائر اور محصول میں کمی اس کی معیشت پر براہ راست اثر انداز ہوں گی۔ اگر ایران قدرتی گیس کے شعبے میں وافر پیداوار نہیں کر سکتا اور اپنے گھریلو کھپت کو کم نہیں کر پاتا  تو وہ اپنے سب سے بڑے بازار ترکی کو بھی کھو سکتا ہے کیونکہ ترکی توانائی کے ذرائع میں تنوع لاتے ہوئے امریکہ اور قطر سے ایل این جی کی خرید میں اضافہ کرنے لگا ہے۔ اگر ایران پر عائد پابندیاں اور امریکی توانائی کی برآمدات اس کی غیر ملکی پالیسی کے ہتھیار کے طور پر کامیاب ہو جائیں گے، تو مستقبل میں امریکہ یہی ہتھیار دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔

No comments.

Leave a Reply