وزیراعظم عمران خان کو ناکامی کا خدشہ کیوں؟

وزیر اعظم عمران خان نے 3 دسمبر کو سینئر صحافیوں کے پینل سے خصوصی گفتگو  کرتے ہوئے

وزیر اعظم عمران خان نے 3 دسمبر کو سینئر صحافیوں کے پینل سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے

نیوز ٹائم

وزیر اعظم عمران خان نے 3 دسمبر کو سینئر صحافیوں کے پینل سے خصوصی گفتگو میں ”قبل از وقت انتخابات” کی بات کیوں کی؟ یہ بڑا ہی اہم سوال ہے۔ وزیر اعظم پاکستان کے بقول وہ پی پی پی یا کسی دوسری جماعت سے اتحاد سے اس لیے کتراتے رہے  کیونکہ  برسراقتدار آنے کے بعد ایسے اتحادی انہیں اپنے سب سے بڑے مقصد یعنی ”کرپشن کے خاتمے اور احتساب” سے روگردانی پر مجبور کر سکتے تھے۔ آج کل چونکہ پی ٹی آئی حکومت کی 100 روزہ کارگردگی بھی موضوع بحث ہے،  70 سالہ مسائل بہرحال 100 روز میں حل ہونا ممکن نہیں اس لئے حکومت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پاکستان کے جس ”فرسودہ سیاسی نظام” سے لڑ کر اقتدار حاصل کیا ہے  اب وہی نظام اور اس کے پسِ پردہ یعنی ”روایتی سیاسی عناصر” انہیں ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اگر عمران خان حقیقی معنوں میں فتحیاب ہونا چاہتے ہیں تو سطحی اقدامات کے بجائے ”اصلاحات” پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔  اب تک عمران خان  کا زیادہ تر وقت گرتی ہوئی معیشت کو سبھالنے میں گزرا ہے مگر پی ٹی آئی قیادت کا ایک اور امتحان ابھی باقی ہے اور وہ  ”فرسودہ سیاسی نظام” اور اسٹیٹس کا خاتمہ ہے۔

اگر وزیر اعظم عمران خان پاکستان کو حقیقی معنوں میں بدلتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں فرسودہ نظام کو بتدریج اصلاحات کے ذریعے بدلنا ہو گا۔  لگتا ہے کہ عمران خان کو بھی ایک غیر محسوس  کشمکش کا احساس کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے اور یہ کشمکش ”نظام اور کپتان” کے تصادم کی شکل اختیار کر سکتی ہے،   جس کے دو ہی ممکنہ نتائج ہوں گے کہ یا تو یہ کہ نظام عمران خان کو کامیاب نہیں ہونے دے گا  یا پھر عمران خان اس فرسودہ نظام کو شکست  دیں گے۔ پہلی صورت میں عمران خان ہتھیار ڈالتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر سکتے ہیں۔  دوسری صورت میں یہ لازم ہو جاتا ہے کہ ایک وسیع پیمانے پر بتدریج اصلاحات کر کے فرسودہ  نظام کو بدل دیا جائے۔  وزیر اعظم عمران خان کو ہر شعبہ زندگی میں اصلاحات کا عمل شروع کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی حکومت ”لیگل  اتھارٹی” کے  قیام پر غور کر رہی  ہے جو کہ اچھی پیشرفت ہے مگر ناکافی ہے۔  یہ وہی پی ٹی آئی ہے جو انتخابات سے قبل انتخابی نظام میں خرابیوں کی نشاندہی کر چکی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ انتخابی اصلاحات کر لی جائیں۔

ملک میں انگریز دور حکومت کے ضابطہ دیوانی و فوجداری قوانین نافذ ہیں جن کو بدلنے کے لیے لیگل ریفارمز کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہمارا نظام عدل اتنا فرسودہ ہے کہ خود چیف جسٹس ثاقب نثار بھی اصلاح احوال کا مشورہ دے چکے ہیں۔ ہماری معیشت غیر اسلامی اور سودی نظام میں جکڑی ہوئی ہے  جس میں اصلاحات فقط اسلامی بینکاری نظام کو اپنا کر ہی ممکن ہیں۔ ہماری ”سول سروس” انگریزی دور حکومت کی طرح بدستور خود کو ”افسر شاہی” سمجھتی ہے۔ وہ پوچھنا تھا کہ سول سروس ریفارمز کب کرنے کا ارادہ ہے؟ ہمارا تھانہ کلچر بھی انگریز دور کی نشانیوں میں سے ایک ہے لہذا پولیس ریفارمز لائی جائیں۔ ہمارا تجارت اور ٹیکسیشن کا نظام انتہائی ناقص ہے جس میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہمارا نظام تعلیم  سرکاری، نجی اور مدرسہ تین متوازی سسٹمز میں بٹا ہوا ہے جن کے نصابی مقاصد میں بہت فرق ہے۔ ہمارا شعبہ صحت اصلاحات کا منتظر ہے۔ لہذا تعلیم اور صحت کے شعبے میں ترجیحی بنیادوں پر اصلاحات ہونی چاہیئں۔ ہمارا نظام حکومت  بدانتظامی کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ہماری پارلیمان ابھی تک غیر فعال ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کو  چاہیے کہ آئینِ پاکستان کی حقیقی روح کے مطابق انتظامیہ اور مقننہ کی اصل شکل بحال کرنے کے لیے حکومتی انتظامی ڈھانچے میں اصلاحات لائے۔ میں نے کافی سوچ و بچار کے ساتھ چیدہ چیدہ امور کی نشاندہی کی ہے کیونکہ ایک آرٹیکل میں نظام کے تمام نقائص کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔ یقیناً اصلاحات کا عمل شروع کرتے وقت پی ٹی آئی کو سینیٹ میں ایک مضبوط حزبِ اختلاف کا سامنا بھی کرنا ہے اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں کسی قسم کی اصلاحات کے حق میں نہیں جو کہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ یقیناً موجودہ فرسودہ نظام کو شکست دینا ہرگز آسان نہیں ہے، اگر عمران خان نظام کو شکست نہ دے پائے تو انہیں یقیناً نظام کے ہاتھوں شکست تسلیم کرتے ہوئے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر کے دستبردار ہونا پڑ سکتا ہے۔

No comments.

Leave a Reply