آسیہ مسیح کیس کا سماجی تناظر

یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدہ جی ایس پی پلس میں پاکستان کی شمولیت کو کنفرم کرنے کا معاملہ آسیہ مسیح کی رہائی سے مشروط ہے

یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدہ جی ایس پی پلس میں پاکستان کی شمولیت کو کنفرم کرنے کا معاملہ آسیہ مسیح کی رہائی سے مشروط ہے

نیوز ٹائم

مفتی منیب الرحمان نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ آسیہ مسیح کیس میں عدالت کے فیصلہ پر نظرثانی کی اپیل کی جلد سماعت شروع کی جائے اور اس کے لیے فل بنچ قائم کیا جائے۔ مفتی صاحب کا یہ تقاضہ درست ہے اور ہماری گزارش بھی یہی ہے کہ عدالت کو اس پر سنجیدہ اور فوری توجہ دینی چاہیے جبکہ اس کے ساتھ چند دیگر متعلقہ امور کی طرف بھی دلانا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہمارے خیال میں یہ فیصلہ تین حوالوں سے توجہ طلب ہے۔ ایک یہ کہ مغربی ممالک بالخصوص یورپی یونین کا ایک عرصہ سے یہ تقاضا چلا آ رہا ہے کہ آسیہ مسیح کو رہا کیا جائے۔ یہ تقاضہ خفیہ دبائو کے طور پر نہیں بلکہ باضابطہ اور آن ریکارڈ مطالبات کی صورت میں چلا آ رہا ہے حتی کہ اس سال جنوری کے دوران یورپی یونین کے نمائندہ نے اسلام آباد آ کر حکومت پاکستان سے کہا  کہ یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدہ جی ایس پی پلس میں پاکستان کی شمولیت کو کنفرم کرنے کا معاملہ آسیہ مسیح کی رہائی سے مشروط ہے،  اور اس کے ساتھ انہوں نے پاکستان کی سپریم کورٹ کو مورد الزام ٹھہرایا کہ وہ جان بوجھ کر اس میں تاخیر کر رہی ہے۔  یورپی یونین کے نمائندہ کے دورہ اسلام آباد کی ایک انگریزی اخبار کی رپورٹ کے 22 جنوری 2018 ء کے شمارہ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اس مسئلہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ پاکستان بھر میں عوام نے اور خاص طور پر تمام مکاتب فکر کے علما کرام اور دینی کارکنوں نے اس فیصلہ پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے  اور اسے اپنے دینی جذبات کے ساتھ ساتھ قومی خودمختاری کے تقاضوں کے بھی منافی قرار دیا ہے۔ جبکہ اس کا تیسرا پہلو قانونی اور عدالتی ہے جسے عدالت نے اپنے فیصلہ کی بنیاد بنایا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ چونکہ ملک کے قانونی اور عدالتی معاملات کی تشریح و تعبیر کی سب سے بڑی اتھارٹی سپریم کورٹ آف پاکستان ہے اس لیے اس نے جو فیصلہ کر دیا ہے وہی آخری ہے اور اس پر نظرثانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ آسیہ مسیح کیس کو ان تینوں دائروں میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور ان میں سے کسی پہلو کو نظرانداز کرنا انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہو گا۔ جہاں تک بیرونی دبائو کی موجودگی اور پاکستانی عوام کے جذبات کے کھلم کھلا اظہار کا تعلق ہے اس پر کوئی دلیل دینے کی ضرورت نہیں ہے،  سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہے اور سب کو نظر آ رہا ہے۔ البتہ کیس کے قانونی پہلوئوں پر بحث و مباحثہ کی گنجائش موجود ہے، اسے قانونی طور پر درست قرار دینے والے حضرات بھی بہت ہیں اور اس فیصلہ کو قانونی اعتبار سے درست نہ سمجھنے والے بھی کم نہیں ہیں،  دلائل دونوں طرف موجود ہیں اور ان کا اظہار بھی ہو رہا ہے۔ البتہ اس بحث و مباحثہ پر سب کے رویہ پر حیرت ہوتی ہے کہ جب ایک مسئلہ بحث و مباحثہ کا متقاضی ہے اور اس کے مختلف پہلوئوں کا تجزیہ و تحقیق خود اس کیس کی اپنی ضرورت ہے تو اس پر دونوں طرف کے دلائل اور استدلال کو نکھر کر سامنے آنا چاہیے، اس پر پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ فقہ حنفی کی تو بنیاد ہی مشاورت و مکالمہ پر ہے کہ Hazrat Imam Azam Abu Hanifa علما کی ایک بڑی مجلس میں مسئلہ پیش کرتے تھے،  اس پر بحث و مباحثہ ہوتا تھا، ہر موقف کے دلائل سامنے لائے جاتے تھے اور اس کے بعد اس مسئلہ کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جاتی تھی۔ Abu Jafar Tahaawi فقہ حنفی کے بڑے شارح اور ترجمان سمجھے جاتے ہیں،  ان کا اسلوب ہی یہ ہے کہ وہ کسی مسئلہ پر سارے موقف اکٹھے پیش کرتے ہیں، سب کے دلائل سامنے لاتے ہیں اور بحث و مباحثہ کے بعد اپنا موقف واضح کرتے ہیں۔ حنفی کہلانے والے اور Abu Jafar Tahaawi کی شرح معانی الآثار تعلیمی نصاب میں شامل کر کے اسے باقاعدہ پڑھنے پڑھانے والے حضرات بھی اگر بحث و مباحثہ سے گھبرانے لگیں اور اپنے موقف کے خلاف کسی کو بحث کرتا دیکھ کر اپنا منہ چڑھانا شروع کر دیں تو واقعتا تعجب ہوتا ہے۔ اس تناظر میں آسیہ کیس کے قانونی پہلوئوں پر بحث کرنے والے دوستوں سے ہم یہ گزارش کرنا چاہیں گے کہ کیس کو قانونی حوالوں سے دیکھنا ناگزیر ہے مگر بیرونی دبائو اور عوامی جذبات کے دوسرے پہلوئوں کو سامنے رکھنا بھی ضروری ہے، اور یہ کہہ دینا شائد درست نہیں ہے کہ چونکہ عدالت کی نظر میں قانونی تقاضوں کی روشنی میں یہی فیصلہ مناسب تھا۔

No comments.

Leave a Reply