تھریسامے کی انجیلا مرکل سے ہنگامی ملاقات، برطانیہ تاریخی بحران کی طرف جا رہا ہے؟

جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور برطانوی وزیر اعظم تھریسامے

جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور برطانوی وزیر اعظم تھریسامے

برلن، لندن ۔۔۔ نیوز ٹائم

بریگزٹ معاہدے پر رائے شماری موخر کیے جانے کے بعد گزشتہ روز برطانوی وزیر اعظم Theresa May نے دی ہیگ، برلن اور برسلز کا ہنگامی دورہ کیا۔ Theresa May کے اس دورے کا مقصد  Brexit کے معاملے پر یورپی حکام سے کچھ رعایتیں حاصل کرنا تھا۔ جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے گزشتہ روز برطانوی وزیر اعظم Theresa May کے ساتھ تقریباً ایک گھنٹے تک ملاقات کی۔ اس دوران دونوں رہنمائوں نے یورپی یونین سے برطانوی انخلا کے موضوع پر جاری پیچیدہ Brexit بحث پر صلاح و مشورے کیے۔ انجیلا مرکل نے مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے چانسلر دفتر میں Theresa May کا استقبال کیا۔ تاہم اس دوران ہونے والی بات چیت کی تفصیلات عام نہیں کی گئی ہیں۔

یورپی حکام یہ واضح کر چکے ہیں کہ ان کی جانب سے برطانیہ کو اس معاملے میں بہترین شرائط دی گئی ہیں تاکہ اسے کابینہ سے Brexit معاہدے کو منظور کروانے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔ برطانوی پارلیمان میں Brexit ڈیل پر ووٹنگ موخر کرنے کے بعد مے کے دورہ یورپ کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ برطانوی پارلیمان میں وزیر اعظم Theresa May کے Brexit پلان پر رائے شماری 21 جنوری سے قبل کر لی جائے گی۔  برطانوی وزیر اعظم کے ایک ترجمان نے منگل کے دن بتایا کہ رائے شماری کے اس عمل سے قبل وہ اپنے یورپی ساتھیوں کی اضافی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ ابھی تک یورپی یونین برطانیہ کے ساتھ Brexit کے موضوع پر نئے مذاکراتی عمل کو مسترد کر رہی ہے۔ تاہم مے کی خاص طور پر کوشش ہے کہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ کی مشترکہ سرحد کے حوالے سے مزید رعایت حاصل کر لی جائے۔

برطانوی وزیر اعظم نے جرمنی پہنچنے سے قبل ہالینڈ میں ڈچ وزیر اعظم Mark Rutte سے بھی ملاقات کی تھی۔ وہ یورپی کونسل کے سربراہ Donald Tusk سے ملنے کے بعد واپس لندن روانہ ہو گئیں۔ اس موقع پر انہوں نے یورپی کمیشن کے سربراہ Jean-Claude Juncker سے بھی  Brexit معاہدے پر بات چیت کی۔  ہالینڈ، جرمنی اور برسلز میں اپنی ملاقاتوں کے بعد مے بدھ کو اپنی کابینہ سے ایک خصوصی ملاقات بھی کریں گی۔ تقریبا ڈھائی سال قبل برطانیہ میں Brexit ریفرنڈم کا نتیجہ برلن کے لیے بھی ایک بڑے جھٹکے سے کم نہیں تھا۔ جرمن سیاسی حلقوں میں سے بہت کم ہی اس نتیجے کی امید تھی اور تقریباً کوئی بھی جرمن شہری یہ نہیں چاہتا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین سے الگ ہو۔

دوسری جانب یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے لیے Brexit معاہدے پر کسی قسم کا واضح فیصلہ نہ کیے جانے کی وجہ سے اس وقت برطانیہ جدید تاریخ کے بدترین بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ برطانوی پائونڈ کی قیمت بہت زیادہ گر گئی ہے۔ Hermes Investment Management Silvia Dall’Angelo نے کہا ہے کہ بزنس کمیونٹی کا اعتماد نچلی ترین سطح تک گر گیا ہے۔ برطانوی چیمبر آف کامرس کے رہنما Dr Adam Marshall نے برے حالات کا انتباہ کیا ہے۔ حالات کو قابو میں لانے کے لیے کوششوں کو دوگنا کر دینا چاہیے اور ساتھ ہی برطانوی کاروباری حلقوں کو کسی بھی قسم کے حالات سے نمٹنے کیلئے تیار کرنے کے اقدامات بڑھا دینے چاہئیں۔

اس دوران برطانوی وزیرِ اعظم Theresa May نے یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے معاہدے پر پارلیمنٹ میں یقینی شکست کو دیکھتے ہوئے معاہدے پر ووٹنگ ملتوی کر دی ہے۔ منگل کو برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان  Brexit معاہدے کی برطانوی پارلیمنٹ سے توثیق کے لیے ووٹنگ ہونا تھی۔ لیکن وزیرِ اعظم نے تاحال ووٹنگ کے لیے کسی نئی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ مے نے کہا ہے کہ اگرچہ کئی ارکانِ پارلیمان ان کے اس معاہدے کے حامی ہیں لیکن شمالی آئرلینڈ اور ری پبلک آف آئرلینڈ کے درمیان کھلی سرحد کے ایک اور معاہدے کے بارے میں کئی حلقوں میں تشویش تھی۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ چند دنوں میں وہ ارکانِ پارلیمان میں پائی جانے والی اس تشویش کو دور کرنے کی کوشش کریں گی۔

دوسری طرف شمالی آئرلینڈ کی فرسٹ منسٹر نے ری پبلک آف آئرلینڈ سے تعلقات میں تبدیلی کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ اس طرح Theresa May کے اس اعلان کے بعد برطانیہ میں بے یقینی کی حالت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔  خیال کیا جا رہا تھا کہ Brexit کے معاہدے پر رائے شماری کے بعد بے یقینی کم ہو جائے گی۔ تاہم ووٹنگ کے ملتوی کیے جانے سے حکومت  Brexit معاہدے کی شکست سے تو بچ گئی لیکن یہ التوا برطانوی پائونڈ کی قیمت کو گرنے سے نہ روک سکا۔ اس وقت پائونڈ کی قدر ایک ڈالر اور 26 سینٹ گر چکی ہے جو گزشتہ 18 ماہ میں سب سے کم قیمت ہے۔ حکمران جماعت کے درجنوں ارکان Brexit معاہدے کی مخالفت کا اعلان کر چکے تھے۔ اگر ایسی صورت میں اس پر پارلیمان میں ووٹنگ ہوتی تو لیبر، سکاٹش نیشنل پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹس کامیاب ہو جاتے۔ لیبر پارٹی نے پہلے ہی سے اعلان کر رکھا ہے کہ اگر Brexit معاہدے پر Theresa May کو شکست ہوئی تو وہ دارالعوام میں ان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی تحریک لائیں گے۔

اگرچہ Conservative Party میں بغاوت کی وجہ سے کئی لوگ کہہ رہے تھے کہ ووٹنگ ملتوی کر دی جائے لیکن پیر کی صبح تک وزیرِ اعظم Theresa May اور ان کے ساتھی کا کہنا تھا کہ وہ ہر حال میں Brexit معاہدے پر ووٹنگ کرائیں گے۔ البتہ جب پیر کو ہی یورپین کورٹ آف جسٹس نے اپنے فیصلے کا اعلان کیا کہ برطانیہ، Brexit کے عمل کو یورپی یونین کے دیگر ارکان کی اجازت کے بغیر منسوخ کر سکتا ہے،  تو اس سے حکمران جماعت کے اندر Brexit معاہدے کے مخالفین کے حوصلے بڑھ گئے۔ ان تمام حالات میں اب یہ نوشتہ دیوار پڑھا جانے لگا کہ Brexit معاہدے پر ووٹنگ ملتوی کر دی جائے گی۔

لندن کے کئی آن لائن اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز نے اپنے اپنے ذرائع سے اس سلسلے میں خبریں بھی دینی شروع کر دی تھیں۔ ووٹنگ کے التوا کا اعلان وزیر اعظم Theresa May نے پارلیمان سے خطاب کے دوارن اپنی تقریر میں خود کیا۔ Brexit معاہدے پر ووٹنگ کے التوا کے باوجود برطانیہ میں سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام میں کسی قسم کی کمی نہیں آئی ہے اور نہ ہی یورپین کورٹ آف جسٹس کے فیصلے کی وجہ سے استحکام پیدا ہوا ہے۔ اب تک کے حالات کے مطابق اگلے برس 29 مارچ تک Brexit کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ لیکن یورپین کورٹ آف جسٹس کے فیصلے کے بعد اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ اگر برطانیہ، Brexit کے عمل کو منسوخ کرنا چاہے تو یورپی یونین کے دیگر ارکان Brexit ، برطانیہ پر مسلط نہیں کر سکتے۔ مگر پھر بھی یورپی یونین کے صدر Jean-Claude Juncker کا کہنا ہے کہ Brexit معاہدہ طے پا چکا ہے اس لیے یورپین کورٹ آف جسٹس کے فیصلے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اسی طرح برطانیہ کی حکمران جماعت کے ارکان عدالت کے اس فیصلے کو Brexit کے عمل کی توثیق کہہ رہے ہیں۔ ان کے مطابق عدالت نے ریفرنڈم کو قانونی تسلیم کیا ہے اس لیے اس پر عملدرآمد نہ کرنا برطانوی عوام کی رائے سے انحراف کرنے کے مترادف ہو گا۔

اس وقت Brexit معاہدے کا کیا مستقبل ہے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم ماہرین 6 امکانات کی نشاندہی کر رہے ہیں: کوئی معاہدہ نہ طے پائے۔ معاہدے پر ایک اور رائے شماری ہو۔ نئے سرے سے مذاکرات کا سلسہ شروع ہو۔ پارلیمان ٹوٹ جائے اور نئے انتخابات۔ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جائے۔ Brexit پر ایک نیا ریفرنڈم ہو۔

No comments.

Leave a Reply