پاک، چین، امریکا، افغانستان تعلقات

پاک، چین، امریکا، افغانستان تعلقات

پاک، چین، امریکا، افغانستان تعلقات

نیوز ٹائم

دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان کو سفارتی محاذ پر بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔ امریکا سپر پاور ہے جبکہ پاکستان کا دوست ملک چین ایک بڑی معاشی طاقت کے طور پر امریکا کی اجارہ داری کو چیلنج کر رہا ہے۔ افغانستان کی صورتحال بھی امریکا کیلئے ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس نے حال ہی میں پاکستان سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے مدد طلب کی ہے۔ اس سارے منظر نامے میں  خطے کی موجودہ صورتحال اور پاکستان کو درپیش عالمی چیلنجز کے موضوع پر منعقدہ ایکسپریس فورم میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

 محمد مہدی (ماہر امور خارجہ)

جب تک پاکستان، امریکا کی لائن پر چلے گا تب تک پاک، امریکا تعلقات بہتر رہیں گے بصورت دیگر دونوں ممالک میں تنائو رہے گا۔ پاکستان نے آزادی کے بعد دو سپر پاورز سوویت یونین اور امریکا میں سے، امریکا کے قریب ہونے کا فیصلہ کیا  اور جب تک پاکستان دولخت نہیں ہوا تب تک یہی لائن برقرار رہی۔  اسی دوران پاکستان سیٹیو اور سینٹو میں بھی گیا لیکن اس کی وجہ معلوم نہیں۔  پھر جنگ 65ء  اور 71 ء  کا سانحہ ہوا جس میں نقصان پاکستان کا ہوا۔  ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک سرد جنگ سے باہر نہیں نکل سکے جبکہ دنیا اب اس سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ جس زمانے میں نیٹو اور وارسا تھا، اس دور میں ان کا آپس میں کوئی کاروبار نہیں ہوتا تھا اور ممالک میں ایک واضح لکیر تھی کہ آپ اس طرف ہیں یا اس طرف۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا دوست صرف ہمارا ہی دوست ہے لیکن آج دشمن ممالک بھی آپس میں کاروبار کر رہے ہیں۔  امریکا اور چین تنائو کے باوجود بڑے پیمانے پر تجارت کر رہے ہیں مگر ہم چین اور امریکا کے درمیان پھنسے ہیں حالانکہ چین نے ہمیں کبھی نہیں کہا کہ امریکا سے دور ہو جائیں۔

یہ نتیجہ ہم نے خود ہی اخذ کر لیا ہے کہ اگر ہم امریکا کے قریب ہوں گے تو چین سے دور ہونا پڑے گا اور اگر چین کے قریب جائیں گے تو امریکا ناراض ہو گا  حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ صرف ویژن اور صلاحیت کی کمی ہے جس کی وجہ سے ہم عالمی سطح پر فائدہ نہیں اٹھا سکے۔  ہمیں اب اس بحث سے نکل جانا چاہیے کہ ہم نے امریکا اور چین دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ چلنا ہے بلکہ ہمیں دونوں کے ساتھ ہی بہتر تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔  میرے نزدیک ہم شروع سے ہی اس پوزیشن میں ہیں مگر ہم نے ہمیشہ خود کو کمزور سمجھا اور کسی کا دست نگر بننے کی کوشش کی۔ افسوس ہے کہ ہم نے امریکا، چین و دیگر ممالک سے فائدہ اٹھانے کے بہت سارے مواقع ضائع کیے لہذا ہمیں اپنی فالٹ لائنز کو ٹھیک کرنا ہو گا۔ بد قسمتی سے شروع سے ہی ہمارے ملک میں سیاسی عدم استحکام ایک بڑا مسئلہ رہا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ہماری ساکھ متاثر ہوئی۔  میرے نزدیک تمام مسائل کے حل کیلئے ملک میں سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ 99 تک پاکستان اور بھارت دونوں کے ریزرو ساڑھے تین بلین ڈالر تھے لیکن جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں بھارت 100 بلین ڈالر کی حد عبور کر گیا اور ہم 7 سے 8 بلین ڈالر تک ہی رہے۔

2017 تک یہ کہا جا رہا تھا کہ جب حکومت اپنی مدت پوری کرے گی تو پاکستان 50 بلین ڈالر پر کھڑا ہو گا  لیکن جو حالات یہاں پیدا ہوئے اس کے نتیجے میں صورتحال یہ ہے کہ آج پاکستان 10 بلین ڈالر سے بھی نیچے چلا گیا ہے  جبکہ ہمارے مقابلے میں بنگلہ دیش کے فارن ریزرو 40 بلین ڈالر ہیں۔  ہم اس وقت بڑی مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔  سارک ممالک میں بھارت کے ساتھ افغانستان اور بنگلہ دیش بھی کھڑے ہیں۔  اب بات صرف امریکا اور چین کی نہیں بلکہ ہمیں نچلی سطح کے ممالک سے بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان مصائب سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندرونی معاملات کو بہتر کریں اور یہاں سیاسی استحکام پیدا ہو۔  اگر ہم نے اپنے معاملات کو ہندوستان کی عینک سے دیکھنا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے صرف امریکا کے ساتھ ہی تعلقات بہتر نہیں کیے  بلکہ اس نے دنیا کے بڑے ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔  جی 20 ممالک کے اجلاس میں بھارت موجود تھا اور برکس میں بھی وہ سائڈ لائن میٹنگز کر رہا تھا جبکہ روس بھی وہاں موجود تھا۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان نے سفارتی محاذ پر کچھ نہیں کیا۔

شنگھائی کانفرنس کا رکن بننا پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔  پہلے روس ہمیشہ ویٹو کر دیتا تھا اور پاکستان کو رکن نہیں بننے دیتا تھا مگر یہ ماننا پڑے گا  کہ آصف زرداری اور سابق حکومت نے ملک کو اس حد تک پہنچا دیا کہ ہم شنگھائی کانفرنس کے رکن بن گئے۔  پاکستان نے مشرق وسطی کے حوالے سے پہلی مرتبہ اپنی پالیسی کو تبدیل کیا اور آصف زرداری، بشار الاسد کے معاملے سے دور رہے  جس پر ترکی اور سعودی عرب ہمارے خلاف ہوئے اور ہم اکیلے پن کا شکار ہو گئے۔  اس سے قبل سعودی عرب، مشرق وسطی کے حوالے سے جو فیصلہ کرتا تھا ہمیں منظور ہوتا تھا  لیکن جب ہم نے اپنے فیصلے کیے تو متحدہ عرب امارات کے صدر بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریب میں شریک ہوئے۔ متحدہ عرب امارات، بھارت میں 65 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جبکہ ابھی سمندر کے نیچے سے بھارت کے ساتھ تیز ترین ٹرین کی بات بھی ہو رہی ہے۔  ہمیں سی پیک کی صورت میں تحفہ ملا۔  یہ لانگ ٹرم منصوبہ ہے جس کی تکمیل میں وقت لگے گا لہذا اس دوران ہمیں خود کو مضبوط کرنا ہو گا۔

افسوس ہے کہ ہم نے ہمیشہ سے ہی اپنے ملک کا نقصان کیا۔  جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں بھی کافی نقصان ہوا جس کا خمیازہ آج تک پاکستان بھگت رہا ہے۔  چین، سعودی عرب، میانمار، Uzbekistan مذہبی آزادی نہ ہونے کی وجہ سے بلیک لسٹ ہیں  مگر چین کے ساتھ امریکا کی تجارت 305 بلین ڈالر ہے۔  بلیک لسٹ ہونے کے باوجود امریکا کے ساتھ تجارتی معاملات چل رہے ہیں۔  ایران بھی اسی فہرست میں شامل ہے لیکن چونکہ وہ امریکا کی بات نہیں سنتا اس لیے اس پر پابندیاں لگا دی گئیں۔  پاکستان کو بھی حال ہی میں بلیک لسٹ کر دیا گیا لیکن کوئی پابندیاں نہیں لگائی گئیں۔  ہمیں سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کوئی معمولی ملک نہیں ہے کہ امریکا اس پر پابندیاں لگا دے۔ جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہے۔

امریکا اگر مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا، جنوبی ایشیا میں معاملات بڑھانا یا افغانستان کا مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے تو اسے پاکستان کی مدد چاہیے۔  اس کے علاوہ چین کے ساتھ معاملات میں بھی اسے پاکستان کی ضرورت پڑ سکتی ہے لہذا ہمیں اپنی پوزیشن سمجھتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لہذا ہمیں اس نعمت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔  ہمارا مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم آج تک اپنے اندرونی مسائل حل نہیں کر سکے لہذا پہلے ہمیں اپنے اندرونی مسائل  حل کرنا ہوں گے۔  اس کے لیے اپوزیشن اور حکومت میں تنائو ختم کیا جائے، قانون سازی جائے اور موثر پالیسیاں بنائی جائیں۔

 ڈاکٹر اعجاز بٹ (ماہر امور خارجہ)

کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اس کی معیشت اور معاشی رجحانات پر مبنی ہوتی ہے  اور مختلف ممالک کے درمیان مفادات کی بنیاد پر تعلقات قائم ہوتے ہیں۔  بڑی طاقتوں کے بھی مفادات ہوتے ہیں جن کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ دوسرے ممالک سے تعلقات بناتے ہیں۔  پاک، امریکا تعلقات کی بات کریں تو یہ لانگ ٹرم سٹرٹیجک تعلقات نہیں ہیں بلکہ وقتی طور پر امریکا کے مفادات کیلئے ہوتے ہیں۔  اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری معیشت کمزور ہے، ہم دوسروں پر انحصار کرتے ہیں اور دنیا کے ساتھ تجارتی تعلقات قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ چین نے بھی ہماری جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے یہاں سرمایہ کاری کی اور سی پیک منصوبے کا آغاز ہوا۔  میرے نزدیک  پاک، چین تعلقات کے دو ادوار ہیں۔  پہلے دور میں چین نظریاتی طور پر چل رہا تھا جس میں پاک، چین دوستی سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے اونچی جیسے نعرے بلند ہوئے۔  جنگ 65 ء میں چین کا مثبت کردار سب کے سامنے ہے اور پھر 71ء میں بھی اس نے بنگلہ دیش کے حوالے سے قرارداد کو ویٹو کیا جس سے پاکستان کو سپورٹ ملی۔ پاک، امریکا تعلقات کا دوسرا دور Deng Xiaoping کے چین کا ہے جو ماضی سے مختلف ہے۔

آج چین ایک تیزی سے ابھرتی ہوئی طاقت ہے لہذا اب وہ کسی بھی ملک سے تعلقات میں اپنے مفادات کو دیکھے گا۔  چین اگلی سپر پاور ہے جس سے امریکا کو خطرہ ہے۔  یہی وجہ ہے کہ چین کے بڑھتے ہوئے کردار کو روکنا امریکی خارجہ پالیسی کا اولین مسئلہ ہے۔ پاکستان، چین کو سی پیک کی صورت میں بہت بڑی سپورٹ فراہم کر رہا ہے جس سے چین دنیا کے ساتھ منسلک ہو جائے گا  اور اسے سمندروں کے بجائے ایک ایسا متبادل روٹ مل جائے گا جہاں امریکا کا اثر و رسوخ نہیں ہو گا۔  سمندروں میں امریکا کا بہت کنٹرول ہے اور چین کی نیول فورس اس کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ امریکا اس وقت چین کے ساتھ 305 بلین ڈالر کے تجارتی خسارے کو دیکھ رہا ہے۔  وہ چاہتا ہے کہ چین اسے کم کرنے کیلئے اقدامات کرے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی عدم توازن کا خاتمہ ہو  مگر چین اس معاملے میں کوئی لچک نہیں دکھا رہا۔  چین، پاکستان کے راستے دنیا سے جو تجارت کرے گا اس سے چین کو فائدہ ہو گا اور اس کا کردار مزید بڑھے گا جس پر امریکا کو تشویش ہے۔  امریکا کا ایک اور بڑا مسئلہ طالبان ہیں۔ وہ سمجھ چکا ہے کہ افغانستان میں آنا اس کی بہت بڑی غلطی تھی۔  افغان جنگ میں امریکا کو کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا اور طالبان آج پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں۔

اس لیے وہ طالبان سے مذاکرات چاہتا ہے مگر طالبان اور امریکا کے درمیان عدم اعتماد کی فضا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ طالبان سے اس وقت مذاکرات کرے جب وہ دبائو میں ہوں جبکہ طالبان چاہتے ہیں کہ وہ اپنی شرائط پر بات چیت کریں۔  پاکستان پہلے ثالثی کردار ادا کرنے کی پوزیشن رکھتا تھا کیونکہ پاکستان کی سول، ملٹری انٹیلی جنس کا وہاں اثر و رسوخ تھا۔  پاکستان نے دو مرتبہ مذاکرات کی کوشش کی مگر امریکا نے پہلی مرتبہ ملا عمر کی ہلاکت کی خبر اڑا کر اور دوسری مرتبہ ملا اختر منصور کو بلوچستان میں لا کر ہلاک کر دیا۔ جس سے امن عمل متاثر ہوا۔  اب طالبان ہم پر اعتماد نہیں کرتے بلکہ ہمارے بجائے روس کا اثر و رسوخ ان پر زیادہ ہے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ پاکستان کے بغیر ان کا گزارہ نہیں جبکہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کمزور ہے،  ہمیں آئی ایم ایف اور امریکی امداد کی ضرورت ہے لہذا وہ ہم پر دبائو ڈال کر اپنی شرائط منوانا چاہتا ہے۔  موجودہ صورتحال میں امریکا کے لیے افغانستان میں رہنا مشکل ہے مگر وہ وہاں رہ کر چین کے کردار کو محدود کرنا چاہتا ہے۔  اس کے لیے امریکا ہماری جغرافیائی اہمیت سمجھتا ہے۔

بھارت، امریکا کا سٹرٹیجک پارٹنر ہے جو اس خطے میں اس کے مفادات کو تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ بھارت، امریکا کا بڑا اتحادی اور چین کا سب سے بڑا دشمن ہے مگر اس کے باوجود چین کے ساتھ اس کا تجارتی حجم 100 بلین ڈالر کے قریب ہے۔  چین ہمارا اچھا دوست ہے مگر ہمارے  ساتھ اس کی تجارت 7 سے 8 بلین ڈالر ہے۔  بھارت کے ایرا ن کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات ہیں مگر امریکا اس پر خاموش ہے کیونکہ بھارت کے امریکا کے ساتھ نہ صرف سٹرٹیجک تعلقات ہیں بلکہ تجارتی تعلقات بھی ہیں۔ بھارت کے مقابلے میں ہمارے پاس آپشنز کم ہیں۔ ہمیں معاشی استحکام کیلئے آئی ایم ایف وغیرہ کے پاس جانا پڑتا ہے اسی لیے امریکا ہمیں آنکھیں دکھاتا ہے۔  موجودہ دور میں تعلقات کی بنیاد معاشی مفادات ہیں لہذا ہمیں اپنی معیشت کی مضبوطی کیلئے کام کرنا ہو گا۔  ہماری جغرفیائی اہمیت کی وجہ سے سی پیک منصوبے کا آغاز ہوا لیکن اب اس پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔  اگر ہم نے چین کو بھی ناراض کر لیا تو نقصان ہو گا۔  چین ہمارا واحد دوست ہے، اس کے علاوہ ہمارے پاس فی الحال کوئی آپشن نہیں تاہم اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلقات کو فروغ دیا جائے۔

سری لنکا اور ملائیشیا نے اپنے قومی مفاد کے پیش نظر چین کے ساتھ بعض معاہدوں کا ازسرنو جائزہ لیا۔  اگر کہیں مسئلہ ہے تو ہمیں بہتر طریقے سے چین سے بات کرنی چاہیے۔ ہمیں بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کیلئے ملکی معیشت کو سٹریم لائن کیا جائے۔ اس وقت ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہے، توانائی بحران پر بھی کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے لہذا اب صرف بہتر پالیسیوں کی ضرورت ہے۔  حکومت کو چاہیے کہ صنعتوں کو فروغ دے، ایکسپورٹ بڑھائی جائے اور بیرونی سرمایہ کاری لانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کیا جائے۔  اگر ہم نے ایسا کر لیا تو ہمارے بہت سارے چیلنجز ختم ہو جائیں گے۔  ہمیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے بڑے مسائل حل کیے جائیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے جس پر ماضی میں توجہ نہیں دی گئی، اسے کنٹرول کیا جائے۔

 ڈاکٹر امجد مگسی (سیاسی تجزیہ نگار)

جب تک ملکی معیشت ٹھیک نہیں ہو گی تب تک ہمارے عالمی تعلقات بہتر نہیں ہوں گے۔  اس کے لیے ملک میں سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔  اگر ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا، امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں ہو گی تو مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ توقع تھی کہ الیکشن کے بعد ملک میں سیاسی استحکام آئے گا مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ عالمی سطح پر اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے کیونکہ حکومتی اراکین کی جانب سے غیر سنجیدہ بیانات بھی دیے گئے۔  چین ہمارا دوست ملک ہے جو بہت بڑی سرمایہ کاری یہاں کر رہا ہے جس میں دونوں ممالک کا فائدہ ہے  لیکن اگر یہاں غیر یقینی صورتحال ہو گی تو مسائل پیدا ہوں گے۔  سی پیک، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا ایک حصہ ہے جس میں دنیا کے دیگر ممالک بھی شامل ہیں لہذا ہمیں اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھارت کی وکٹ پر رہ کر چین کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت شاطرانہ کھیل کھیل رہا ہے۔  اس نے دہشت گردی کے الزامات لگا کر ہمیں امریکا سے دور کر دیا۔  ہمارے لیے عالمی سطح پر کوئی اچھی خبر نہیں آ رہی جس کے باعث ہمارے عالمی تعلقات اور معیشت کو نقصان ہو رہا ہے۔  اس کے علاوہ بھارت ہمیں چین سے دور کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔  اس وقت بھارت اور چین کی تجارت 85 بلین ڈالر ہے جسے وہ مزید بڑھانا چاہتا ہے۔ اس میں بھی چین کو زیادہ فائدہ ہے لہذا اب بھارت خوراک اور زراعت کے شعبے میں چین کو آفر دے رہا ہے کہ اس سے امپورٹ کی جائیں۔  بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ ریجنل طاقت بن چکا ہے لہذا اب چین اور بھارت لڑائی کے بجائے تجارت کو فروغ دے رہے ہیں۔  چین اور بھارت بہت سارے پلیٹ فارمز پر اکٹھے ہیں۔

بظاہر بھارت، چین کے خلاف بولتا ہے مگر وہ چین کے ساتھ کاروبار کو فروغ دے رہا ہے۔  بھارت، امریکا کا سٹرٹیجک پارٹنر ہے مگر اس نے روس اور ایران کے ساتھ بھی ڈیل کی ہے۔  بدقسمتی سے ہم غیر سنجیدگی دکھا کر اکیلے پن کی طرف جا رہے ہیں جس سے ہمارے دشمنوں کو فائدہ ہو گا۔  ہمیں اپنے اندرونی مسائل کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تنائو ہے۔  اعلی ایوانوں میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ اچھا شگون نہیں۔  ملک میں سیاسی استحکام لانا حکومت کی ذمہ داری ہے لہذا اسے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ اگر ملک میں بدحالی کی کیفیت رہے گی تو سرمایہ کار یہاں نہیں آئے گا۔  امریکا کا ایک بڑا مسئلہ افغانستان ہے اور وہ اسی عینک سے ہمیں دیکھتا ہے کہ ہم اس کی کیا مدد کر سکتے ہیں۔

اسی تناظر میں وہ ہمارے ساتھ تعلقات کو فروغ دے گا۔ امریکا اور چین کے درمیان تنائو ہے مگر ہم کسی ایک کی خاطر دوسرے کو ناراض نہیں کر سکتے۔ دونوں ممالک کو راضی رکھنا ہماری بڑی کامیابی ہو گی۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے نہیں۔ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے جبکہ افغانستان اور ایران کے ساتھ بھی ہمارے معاملات خراب ہیں۔ خدانخواستہ اگر ہم نے اپنے دوست چین کو بھی ناراض کر لیا تو ہمارے لیے نقصان دہ ہو گا۔  بھارت سلامتی کونسل اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا رکن بننا چاہتا ہے جبکہ چین اس کا راستہ روکتا ہے  لہذا اب بھارت نے یہ پالیسی بنائی ہے کہ چین کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا جائے تاکہ وہ عالمی فورمز پر اس کی مدد کرے۔  ہمیں اس کا ادراک کرتے ہوئے بہتر سفارتکاری کرنا ہو گی لیکن اس کے لیے ہمیں اپنے اندورنی مسائل حل کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا۔

 عمار علی جان (سیاسی تجزیہ نگار)

دنیا جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔  عالمی معیشت میں تضاد ہے جبکہ جغرافیائی سیاست میں بھی بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ماہرین اسے جنگ عظیم اول سے ملا رہے ہیں جس میں خام مال اور لیبر پر لڑائیاں ہوئیں اور پھر یہ کہ ریل کے مختلف روٹس پر کون سی طاقت قابض ہو گی۔ اس وقت کوئی بھی ایک طاقت حاوی نہیں ہو پا رہی تھی، عالمی سطح پر کرائسس تھا اور طاقت کے مختلف مراکز تھے۔  اس تضاد کا نتیجہ عالمی جنگ کی صورت میں نکلا۔ پاکستان کیلئے عالمی جنگوں کو مدنظر رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ بڑی طاقتوں کے درمیان لڑائی میں ہمیشہ تابع ممالک کا نقصان ہوا۔ جنگ عظیم اول میں پنجاب کے 80 ہزار سے زائد لوگ مارے گئے، کسانوں پر ٹیکس لگا دیا گیا اور گندم و دیگر اجناس چھین لی گئیں۔  اسی طرح دوسری جنگ عظیم میں تقریبا 30 لاکھ افراد بھوک سے مارے گئے کیونکہ برطانیہ نے گندم اپنی فوج کو بھیج دی۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بڑی جنگوں میں ہمارے جیسے ممالک کا استحصال ہوتا ہے۔  گزشتہ 70 برسوں میں موثر اقدامات سے ایسی صورتحال سے بچا جا سکتا تھا مگر کسی حکومت نے اس حوالے سے کام نہیں کیا۔  اس کیلئے قومی مفاد ترجیح ہونا چاہیے مگر ہمارے ہاں ایلیٹ نے اپنے مفادات کیلئے پالیسیاں بنائیں اور دوسرے ممالک سے تعلقات استوار کیے۔ افسوس ہے کہ ماضی میں ایسی پالیسیاں بنائی گئیں جس سے ہم دوسرے ممالک کے تسلط میں آ گئے۔  آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ ہم سیٹو اور سینٹو میں کیوں گے اور اس پر بحث کہاں ہوئی؟  ہم نے امریکا کے کہنے پر واشنگٹن سے اپنی سٹرٹیجک پالیسیاں بنانا شروع کر دیں، اپنی معیشت کو آئی ایم ایف اور امریکا کے حوالے کر دیا جس سے ہمیں نقصان اٹھانا پڑا۔  امریکا نے ترقی کا جو ماڈل یہاں نافذ کیا اس سے ملک میں خانہ جنگی شروع ہوئی اور معاشرے کے مختلف طبقات میں احساس محرومی پیدا ہوا۔  ملک دولخت ہو گیا لیکن امریکا نے ہماری مدد نہیں کی۔

اسی طرح افغان جنگ پر بھی سوالیہ نشان ہے کہ کس طرح ایک ملک بغیر لانگ ٹرم منصوبہ بندی کے کسی دوسرے ملک کی جنگ میں کود سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہمیں کچھ نہیں ملا بلکہ 88ء میں جب بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو ملک دیوالیہ ہو چکا تھا،  ملازمین کو تنخواہ دینے کے پیسے نہیں تھے اور پھر ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔  امریکا نے کبھی بھی مشکل وقت میں ہمارا ساتھ نہیں دیا بلکہ ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ ماضی کی حکومتیں اگر موثر کام کرتی تو ہم خود کو موجودہ صورتحال سے بچا سکتے تھے  مگر قومی سوچ کے فقدان اور چند خاندانوں کی اجارہ داری کی وجہ سے معاملات خراب ہوئے۔ ہم نے ہمیشہ ابھرتی طاقتوں کو مضبوط کرنے میں کردار ادا کیا۔  اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ کیا ہم دوسروں کو سپورٹ کر کے ان پر انحصار کرتے رہیں گے یا پھر خودمختاری کی جانب بڑھیں گے۔  ایک بات تو واضح ہے کہ ہم دنیا سے کٹ کر نہیں رہ سکتے مگر ہمیں دوسرے ممالک سے تعلقات میں ملکی مفاد کو دیکھنا ہو گا۔  سی پیک منصوبے کے حوالے سے مختلف طبقات کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے، انہیں جلد از جلد دور کرنا چاہیے۔  ملک کو درپیش تمام چیلنجز کے حل کیلئے قومی ڈائیلاگ کرایا جائے جس کی روشنی میں پالیسی بنا کر تمام اندرونی مسائل حل کیے جائیں  اور بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کیلئے پالیسی بھی بنائی جائے تاکہ دنیا کے ساتھ بہتر تعلقات کو فروغ دیا جا سکے۔

No comments.

Leave a Reply