بیل آئوٹ پیکیجز کب تک؟

گزشتہ دنوں  آئی ایم ایف کے وفود نے پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر اور ان کے ممبران نے بیل آئوٹ پیکچز کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں

گزشتہ دنوں آئی ایم ایف کے وفود نے پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر اور ان کے ممبران نے بیل آئوٹ پیکچز کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے ہیں

نیوز ٹائم

جنوبی ایشیا کے امور کے امریکی ماہر ڈینس ککس Dennis Kux نے اپنی کتاب United States and Pakistan 1947-2000 disenchanted allies میں لکھا ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1948ء میں کراچی میں متعین امریکی سفیر پال ایچ الینگ کو ملاقات کے لیے مدعو کیا۔ بانی پاکستان نے امریکی سفیر سے گفتگو میں امریکہ کو پیغام دیا کہ پاکستان، امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے وہ کمیونسٹ بلاک کے مقابلے میں امریکہ سے تعلقات کو ترجیح دے گا۔ قائد اعظم نے امریکی سفیر کو پاکستان کو درپیش معاشی اور سیکورٹی کے مسائل کے بارے میں آگاہ کیا۔ پاکستان کے معاشی مسائل سے نمٹنے کے لیے امریکی امداد کی خواہش ظاہر کی۔ امریکہ نے قائد کی زندگی میں ہی پاکستان کو معاشی امداد کا پہلا پیکج دیا تھا۔

قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان غیر ملکی امداد کے پیکیجز لیتا چلا آ رہا ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان، امریکہ کا حلیف تھا، امریکہ نے پاکستان کو فوجی اور اقتصادی امداد دینا شروع کی۔ مستند اعداد و شمار کے مطابق 1962ء میں امریکہ نے پاکستان کو 3.62 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی تھی اس وقت سے ماضی قریب تک پاکستان، امریکہ سے اقتصادی اور خصوصی امداد کے پیکج لیتا رہا ہے۔ حال ہی میں صدر ٹرمپ نے پاکستان پر دہشت گردی کے خاتمے میں تعاون نہ کرنے کا الزام لگا کر پاکستان کی اقتصادی امداد روک دی۔

امریکہ کے علاوہ پاکستان ورلڈ بنک آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بنک اور کئی دوسرے مالیاتی اداروں سے وقتاً فوقتاً مالی امداد لیتا رہا ہے۔ پاکستان کی وزارت اقتصادی امور کے پاس ان ملکوں کے نام اور ان کی طرف سے دئیے گئے قرضوں اور مالی امداد کا پورا ڈیٹا موجود ہے۔ جو پاکستان کو قرضے یا امداد دیتے رہے ہیں۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان پر 95 ارب ڈالر سے زیادہ کے غیر ملکی قرضے واجب الادا ہیں۔ نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے حال ہی میں اپنے ایک خطاب میں کہا ہے کہ اگر یہ پوچھ لیا جائے کہ 95 ارب ڈالر کہاں گئے ہیں؟ تو اس میں کیا گناہ ہے بعض غیر ملکی سفارتکار اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ پاکستان نے اتنے بڑے پیمانے پر جو غیر ملکی قرضے لیے ہیں ان سے پاکستان نے کیا فائدہ اٹھایا ہے ان قرضوں کا پاکستان کی معیشت پر کوئی ٹھوس اثر نظر نہیں آتا۔

وزیر اعظم عمران خان اور ان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے حکومت سنبھالنے کے بعد پاکستانیوں کو بتایا کہ ملک کی معاشی صورت حال بہت خراب ہے حکومت نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ایک منی بجٹ بھی دیا۔ آئی ایم ایف سے ایک نیا پیکج لینے کے لیے بات چیت ہو رہی ہے۔ بجلی کی قیمت پھر بڑھا دی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے دگرگوں معاشی صورتحال سے نکلنے کے لیے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین کے دورے کئے۔  ان دوروں کے نتیجے میں سعودی عرب نے پاکستان کو 3 ارب ڈالر فراہم کرنے کا فیصلہ کیا جو پاکستان کو ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ گزشتہ روز متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کو تین ارب ڈالر فراہم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وزیر اعظم کے چین کے دورہ کے بعد یہ خبریں چل رہی ہیں کہ چین بھی پاکستان کو معاشی امداد کا بڑا پیکج دے رہا ہے۔

پچھلے 70 برس میں پاکستان، امریکہ مغربی ملکوں  جاپان،  چین،  آئی ایم ایف، عالمی بنک  ایشیائی ترقیاتی بنک اور درجنوں دوسرے ملکوں اور اداروں سے لئے گئے قرضوں اور امداد کے سہارے چل رہا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین ماضی میں بھی پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے بیل آئوٹ پیکج دیتے رہے ہیں۔ نواز شریف حکومت میں جب سعودی عرب کے King Salman bin Abdulaziz نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے پاکستان کو 150 ارب ڈالر کا تحفہ دیا تھا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جمعرات کی شام سینیٹ اجلاس میں سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے تحفظات کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا  کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، پاکستان کو جو معاشی امداد دے رہے ہیں اس کے ساتھ کوئی شرائط وابستہ نہیں ہیں۔ پاکستان کسی صورت میں یمن کی جنگ میں فریق نہیں بنے گا۔ پاکستان، یمن جنگ کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ آزمائش کے وقت میں سعودی عرب، امارات اور چین ایسے قابل اعتماد دوست ہی پاکستان کے کام آتے رہے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر انہی ملکوں نے مشکل کی گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ وزیر اعظم نے جمعہ کے روز اپنے ٹویٹ میں متحدہ عرب امارات کی طرف سے تین ارب ڈالر ملنے پر امارات کی قیادت کا شکریہ ادا کیا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی اعلی قیادت اگلے سال کے آغاز میں پاکستان کا دورہ کرے گی۔

سعودی عرب اور امارات پاکستان کو موخر ادائیگیوں کی بنیاد پر تیل فراہم کرنے پر تیار ہو گئے ہیں۔ یہ مشکل مرحلہ تو گزر جائے گا لیکن بنیادی سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ آخر پاکستان کب تک مانگ کر اور بیل آئوٹ پیکجز کے سہارے چلے گا؟ 22 کروڑ آبادی کا یہ ملک جس کے بارے میں بار بار کہا جاتا ہے  کہ قدرت نے پاکستان کو بے پناہ قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے نوازا ہے وہ کب تک مانگ کر گزارہ کرے گا اگر اس کے پاس بے پناہ وسائل ہیں اور اتنی بڑی افرادی قوت بھی ہے تو یہ اپنے پائوں پر کیوں کھڑا نہیں ہو سکتا؟ وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ پاکستان کو کرپشن سے پاک کیا جائے گا اور اسے ایک اقتصادی قوت بنایا جائے گا۔ خدا کرے وہ اپنا وعدہ پورا کریں۔ پاکستان کو غیر ملکی قرضوں اور امدادی پیکیجز نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔

No comments.

Leave a Reply