بھارت میں انتخابی بخار اور مسلم دشمنی

بھارت میں تمام سیاسی جماعتیں انسانی جذبات سے کھیل کر رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہیں

بھارت میں تمام سیاسی جماعتیں انسانی جذبات سے کھیل کر رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہیں

نیوز ٹائم

بھارت میں آئندہ سال عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ پورا ملک انتخابی بخار میں مبتلا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں انسانی جذبات سے کھیل کر رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔ بھارت اگرچہ ایک سیکولر ملک کہلاتا ہے اس کے آئین میں بھی سیکولرازم کو تحفظ دیا گیا ہے  اور بلاامتیاز مذہب، رنگ و نسل تمام شہریوں کو بنیادی، انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے لیکن عملاً ایسا نہیں ہے اور زمینی حقائق کہیں زیادہ تلخ، ناگوار، اور شرمناک ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ بھارت ہندو اکثریت کا ملک ہے لیکن اتنے بڑے ملک میں مسلمان، عیسائی، سکھ، یہودی، پارسی اور دیگر غیر ہندو اقلیتیں بھی قابل لحاظ تعداد میں موجود ہیں جبکہ مسلمان، بھارت کی سب سے بڑی غیر ہندو اقلیت ہیں،  وہ ماضی بعید میں کم و بیش 1000 سال تک بھارت سمیت پورے برصغیر پر حکمران بھی رہے ہیں،  پھر انگریزوں نے 7 سمندر پار سے آ کر مسلمانوں سے حکمرانی چھینی اور وہ بھی طویل عرصے تک برصغیر پر حکومت کرتے رہے۔  جب رخصت ہوئے تو مسلمانوں کے مطالبے پر مسلم اکثریت کے علاقوں پر  پاکستان کی صورت میں ایک نئی اسلامی مملکت قائم کر گئے۔ انگریز خود تو نہیں چاہتے تھے کہ برصغیر کے ٹکڑے ہوں وہ پورے ہندوستان کو ہندو اکثریت کی عملداری میں دے کر رخصت ہونا چاہتے تھے۔  ہندو لیڈروں اور ان کی سیاسی جماعت آل انڈیا کانگریس کے ساتھ انگریزوں کا گٹھ جوڑ بھی تھا  لیکن Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah کی قیادت میں مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کے قیام کا مطالبہ کر رہی تھی، وہ کسی صورت بھی اس بات کے حق میں نہ تھی کہ انگریز، ہندوستان سے رخصت ہوں تو ہندو اپنی اکثریت کے بل پر انگریزوں کے جانشین بن جائیں اور مسلمانوں کو اپنی غلامی میں لے لیں۔

Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah نے مسلمانوں کے الگ وطن کا کیس بڑی دلیری اور استقامت سے لڑا اور انگریزوں سے قیام پاکستان کا مطالبہ منوانے میں کامیاب رہے۔ ہندوئوں کی نمائندہ جماعت کانگریس کو بھی ہندوستان کی تقسیم کا فارمولا بہ امر مجبوری تسلیم کرنا پڑا۔ لیکن انتہا پسند ہندو قیادت نے ہندوستان کی تقسیم اور اس کے ایک حصے پر پاکستان کے قیام کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ وہ ابتدا ہی سے پاکستان کے انہدام اور اکھنڈ بھارت کے قیام کو اپنا ایجنڈا قرار دیتی آئی ہے۔ البتہ کانگریس کو ایک سیکولر اور لبرل جماعت سمجھا جاتا رہا ہے، اسی تصور کی بنیاد پر بہت سے مسلمانوں اور ان کے قد آور رہنمائوں نے بھی کانگریس کی سیاسی جدوجہد میں اس کا ساتھ دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کی ہندو لیڈر شپ بھی انتہا پسند ہندو قیادت سے مختلف نہ تھی۔

کانگریسی قیادت نے بھی پاکستان کے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا، وہ قیام پاکستان کے فوراً بعد اس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہو گئی۔  بالآخر 24 سال بعد 1971ء  میں وہ فوجی طاقت کے بل پر پاکستان کو علیحدہ کرنے میں کامیاب رہی۔ کانگریس کے طویل دور اقتدار میں بھارت کے اندر 50 ہزار سے زیادہ مسلم کش فسادات ہوئے جن میں ہزارہا مسلمان مارے گئے۔ 1992 میں تاریخی بابری مسجد کی شہادت کا المناک واقعہ بھی کانگریس کے دور حکومت میں پیش آیا۔ کانگریس کے بعد انتہا پسند ہندو جماعتوں کو اقتدار حاصل ہوا تو وہ مسلم دشمنی میں کھل کر سامنے آ گئیں اور انہوں نے منافقت کا نقاب اتار پھینکا جو کانگریس نے اپنے چہرے پر ڈال رکھا تھا۔ اِن جماعتوں نے جن میں Bharatiya Janata Party ، Rashtriya Swayamsevak Sangh ، Hindu Andhra Pradesh ، Bhartiya Janta Del اور سبھی انتہا پسند شامل ہیں۔ ہندتوا کو اپنا فلسفہ حیات قرار دیا ہے جس کا مطلب ہے بھارت میں بسنے والی ہر قوم، ہر نسل اور ہر برادری کو Hinduism کے قالب میں ڈھالنا اور ان پر ہندو مذہب کی چھاپ لگانا۔ مسلمان بھی اس سے مستثنا نہیں ہیں بلکہ ہندتوا کا بنیادی ہدف مسلمان ہی ہیں۔ انتہا پسندوں کا کہنا ہے کہ اگر مسلمان بھارت میں رہنا چاہتے ہیں تو انہیں ہندو بن کر رہنا ہو گا  ورنہ سیدھے سبھا وہ پاکستان چلے جائیں جسے انہوں نے بڑے خوشی سے بنایا ہے۔ انتہا پسند ہندو تنظیموں نے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی باقاعدہ ایک تحریک بھی شروع کر رکھی ہے جسے وہ گھر واپسی کی تحریک قرار دیتی ہے۔ مطلب یہ کہ موجودہ مسلمانوں کے آبائواجداد کبھی ہندو تھے اور برصغیر میں مسلمان صوفیا کی تبلیغ سے وہ اسلام قبول کر کے اپنے دھرم سے دور ہو گئے، اب انہیں اپنے دھرم میں واپس آ جانا چاہیے۔

ہندو تنظیمیں اس مقصد کے لیے ترغیب و تربیت کے سارے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں۔ مسلمانوں کے کاروبار تباہ کرنا، مسلمان بستیوں کو نذر آتش کرنا اور انہیں بے گھر کر کے جلاوطنی پر مجبور کرنا بھی ہندو تنظیموں کے معمولات میں شامل ہے۔ حال ہی میں Maharashtra کے علاقے Shastri Nagar میں مسلمانوں کی پوری بستی کو مسمار کر دیا گیا  جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے، اب وہ سر چھپانے کے لیے دربدر پھر رہے ہیں اور کوئی ان کی فریاد سننے والا نہیں ہے۔ اسلامی شعائر و آثار پر ہندو ازم کی چھاپ لگانا بھی ہندتوا کے اہداف میں شامل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بھارت کے طول و عرض میں کم و بیش 350 چھوٹی بڑی مساجد پر قبضہ کر کے انہیں مندروں میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ سب سے اہم واقعہ Ayodhya میں بابری مسجد کا انہدام ہے، اس واقعے کو 26 سال گزر چکے ہیں،  ہندو تنظیمیں اس کی جگہ رام مندر تعمیر کرنا چاہتی ہیں لیکن مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہونے کے سبب ابھی تک رام مندر کی تعمیر ممکن نہیں ہو سکی۔ اب انتخابات کا موسم ہے تو بابری مسجد کی جگہ رام مندر تعمیر کرنے کا معاملہ پھر پھن پھیلا کر کھڑا ہو گیا ہے۔ ہندو تنظیمیں بڑی بڑی ریلیاں منعقد کر رہی ہیں اور بی جے پی حکومت پر دبائو ڈال رہی ہیں کہ وہ رام مندر کی تعمیر کا وعدہ پورا کرے۔ مودی حکومت خود بھی رام مندر کے معاملے سے کھیلتی رہی ہے اور اب انتخابات کے موقع پر وہ پھر اپنے ووٹروں کو یقین دلا رہی ہے کہ عدالتی فیصلہ خواہ کچھ بھی ہو، رام مندر کی تعمیر کا وعدہ ضرور پورا کیا جائے گا۔

سیکولر بھارت میں مسلم دشمنی ایک ایسا فیچر ہے جس کا مظاہرہ بھارت کے طول و عرض میں سال کے 12 مہینے جاری رہتا ہے۔ لیکن جب انتخابات آتے ہیں تو ہندو اکثریت کو خوش کرنے کے لیے اس فیچر میں نئے رنگ بھرے جاتے ہیں۔ مثلا اب کی دفعہ بھارت میں اسلامی شناخت رکھنے والے شہروں اور قصبوں کے نام تبدیل کر کے انہیں ہندو شناخت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے  اور اترپردیش کے مشہور تاریخی شہر Allahabad (جسے Akbar Allahabadi اور علامہ اقبال کے خطبہ Allahabad کے حوالے سے عالمی شہرت حاصل تھی) کا نام پریاگ تجویز کیا گیا ہے۔ جبکہ مزید 25 شہروں کے ہندوانہ نام تجویز کیے گئے ہیں۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جس کی بنیاد سر سید احمد خان نے رکھی تھی اس کی مسلم شناخت ختم کرنے کی تجویز بھی ہندو تنظیموں میں تیزی سے گردش کر رہی ہے، اس کے ساتھ ہی سر سید کا نام اور ان کی تصویر بھی یونیورسٹی سے ہٹانے کا مطالبہ اٹھایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے یونیورسٹی کی لابی سے Quaid-i-Azam Muhammad Ali Jinnah کی تصویر ہٹانے پر بہت ہنگامہ ہو چکا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ سب کچھ بھارت میں انتخابی بخار کا نتیجہ ہے لیکن یہ محض آدھا سچ ہے، پورا سچ یہ ہے کہ بھارت برصغیر کی تقسیم کے فورا بعد سے مسلم دشمنی کی آگ میں جل رہا ہے، اگر اس کی قیادت نے عقلمندی سے کام نہ لیا تو یہ آگ اسے بھسم کر کے رکھ دے گی۔

No comments.

Leave a Reply