خواتین کو برابری کے حقوق: رپورٹ

زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی جائے

زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی جائے

نیوز ٹائم

گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2006ء سے ہر سال ایک رپورٹ شائع کرتی ہے جس میں مختلف ممالک میں ہونے والی صنفی تفریق کا جائزہ لیا جاتا ہے اور ہر ملک کی چار شعبوں میں کارکردگی کی بنیاد پر درجہ بندی کی جاتی ہے، ان چار شعبوں میں خواتین کے لیے اقتصادی مواقعوں کی فراہمی، ان کی تعلیمی کارکردگی، صحت اور ان کو سیاسی اختیارات کی فراہمی۔ رپورٹ کے مطابق اگر دنیا نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے تو مرد اور عورت کے درمیان موجود تنخواہوں کے فرق کو پر کرنے میں 100 سال سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کو 149 ملکوں کی فہرست میں 148 نمبر پر رکھا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں خواتین کے حقوق کی صورتِ حال انتہائی تشویشناک ہے۔ یعنی جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی پاکستان کا آخری نمبر ہے۔ اس رپورٹ میں دنیا بھر کے ممالک کو زیر بحث لایا گیا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ آئس لینڈ صنفی مساوات کے حوالے سے سرِفہرست رہا ہے، جبکہ ٹاپ 10 میں 4 ترقی پذیر ممالک Nagaragawaا، Rwanda، فلپائن اور نمیبیا بھی شامل ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس دنیا کی سب سے بڑی معیشت، امریکہ 51ویں نمبر پر آتی ہے، جبکہ اٹلی کا 70واں نمبر ہے۔ اور روس (75)، برازیل (95)، چین (103) اور جاپان (110) حیران کن طور پر رینکنگ میں کافی نیچے پائے جاتے ہیں۔

پاکستان میں اس حوالے سے تشویش اس لیے بھی پائی جاتی ہے کہ یہاں تعلیم کی کمی نے عورت کو گھر کی چار دیواری میں قید کر کے رکھ دیا ہے۔ حالانکہ انسانیت میں یقین رکھنے والا شائد ہی کوئی ایسا شخص ہو گا جو معاشرے میں خواتین کو برابری کا درجہ دینے کا حامی نہ ہو۔ اسلام مذہب کا اگر پوری ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے مردوں کے مقابلے کئی میدانوں میں عورتوں کو زیادہ حقوق دیئے ہیں۔ یقینا دوسرے مذاہب میں بھی عورتوں کے درجے کو مردوں کے مقابلے کمتر نہیں بتایا گیا ہے۔ اصل مسئلہ تشریح کا ہے۔ سینکڑوں ہزاروں سال سے تقریبا تمام مذاہب کے ٹھیکیداروں نے اپنے اپنے مذہب میں عورتوں کو دیے گئے حقوق کی تشریح یا انٹرپٹیشن کرنے میں ایماندارانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کے اسلام جیسے مذہب میں مردوں کے مقابلے عورتوں کے حقوق شاید کم یا آدھے سے بھی کم ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔

قرآن مجید اور شریعت کی تعلیمات کا جو پورا نظام فکر ہے، اس کو دیکھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ یعنی بعض چیزوں میں جو فرق قائم کیا گیا ہے اور مرتبے کا ایک فرق ملحوظ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے، وہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ اللہ نے مرد کو تو اس حیثیت سے پیدا کیا ہے کہ وہ خدا کی نظر میں ایک برتر مخلوق ہے اور عورت کو اس حیثیت سے پیدا کیا ہے کہ وہ ایک کم تر مخلوق ہے اور حیثیت کی اس برتری اور کمتری کو واضح کرنے کے لیے اللہ نے احکام میں یہ فرق کیا ہے۔ آپ جتنا بھی مطالعہ کریں، میرے فہم کی حد تک قرآن و سنت کی مجموعی تعلیمات سے اللہ تعالی کا یہ attitude سامنے نہیں آتا۔

لہذا اگر یہ رپورٹ درست ہے تو ہمیں خواتین کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کی سیاسی، معاشی اور معاشرتی صورتحال کے تجزیہ کے بعد یہ بات بآسانی کہی جا سکتی ہے کہ خواتین کی خودمختاری اور برابری کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے ابھی طویل اور انتھک جدوجہد جاری رکھنا ہو گی اور اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کیلئے صحیح راستے کا چنائو بھی اہم مسئلہ ہے۔ ستمبر 2015ء میں دنیا نے سوشل ڈویلپمنٹ ایجنڈا اپنایا جس کے تحت Sustainable development Goals کا تعین کیا گیا۔ SDGs میں خواتین کی معاشی، سماجی و سیاسی خودمختاری بھی ایک اہم گول ہے۔ اب یہ حکومتوں اور سماجی تنظیموں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ اس گول کو اچیو کرنے کیلئے متفقہ لائحہ عمل اپنائیں۔ سماجی تنظیبموں کو خواتین کے حقوق کی آگاہی اور معاشرتی رویوں میں تبدیلی کیلئے اپنی جدوجہد کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہو گا۔ اسی سلسلے میں کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر ایک مہم، جو 100 خواتین وکلا نے شروع کی تھی، اس مہم کے ذریعے فیس بک انتظامیہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ خواتین سے متعلق نفرت انگیز مواد کو فیس بک سے ہٹائے، یہ مہم آن لائن ایکٹو ازم کی ایک کامیاب مثال ہے۔

بین الاقوامی معاہدے جیسا کہ Sida Conventions ، S DGs اور GSP Plus خواتین کے حقوق کے حصول اور تحفظ کا اہم ذریعہ ہو سکتے ہیں ان معاہدوں پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومتوں کی کارکردگی کی نگرانی کا موثر طریقہ کار واضح کیا جائے۔ نظام عدل میں انقلابی تبدیلیوں کے ذریعے فوری انصاف اور مفت قانونی امداد کی فراہمی ممکن بنانا ہو گی۔ تشدد کا شکار خواتین کے لیے ہر ضلع میں Rehabilitation سینٹرز کا قیام، زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی اور تعلیمی نصاب میں مثبت تبدیلی کے ذریعے صنفی برابری کو فروغ دیا جائے مقامی اور قومی سطح پر سیاسی عمل میں خواتین کی شرکت بذریعہ کوٹہ سسٹم بڑھائی جائے۔ میڈیا اور سوشل میڈیاکے ذریعے خواتین کے حقوق کے حوالے سے معاشرتی رویوں میں تبدیلی کی مہم کا آغاز کیا جائے۔

ہماری سماجی اور معاشرتی ذمہ داری ہے کہ ہم خواتین کے حقوق کے حوالے سے جاری خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کریں اور معاشرے سے اونچ نیچ کا خاتمہ کریں۔ موجودہ حکومت اس سلسلے میں قانون سازی تو کر رہی ہے لیکن صورتحال کی اصلاح کیلئے تیز رفتاری سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔لہذا اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دنیا بھر کی خواتین معاشی و سیاسی عمل میں بھرپور شرکت کے ذریعے غیر منصفانہ نظام کا خاتمہ کر سکتی ہیں۔

یہاں المیہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں غیر رسمی شعبے میں 80 فیصد خواتین کام کر رہی ہیں جو قوانین محنت کے تحت تحفظ سے محروم ہیں۔ دنیا بھر کے کئی علاقوں میں آج بھی خواتین ووٹ کے حق سے محروم ہیں۔ موجودہ مقامی حکومت کے نظام میں خواتین کی نمائندگی 33 فیصد سے کم کر کے 12 سے 17 فیصد تک محدود کر دی گئی ہے۔ معاشرتی رویوں کی بات کریں تو ایک بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس کے مطابق 70 سے 90 فیصد خواتین تشدد کا شکار ہیں  ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 5000 خواتین گھریلو تشدد کے باعث زندگی سے محروم ہو جاتی ہیں۔ خواتین کی تعلیمی شرح صرف 30 فیصد ہے قوانین ہونے کے باوجود خواتین وراثت کے حق سے محروم ہیں۔ عدلیہ پر نظر ڈالیے پاکستان جنوبی ایشیا میں واحد ملک ہے جس میں کوئی خاتون سپریم کورٹ کی جج نہیں ہے۔ پاکستان کی عدلیہ میں 5.8 فیصد خواتین جج ہیں۔ پاکستان بار کونسل کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے مرحوم عاصمہ جہانگیر واحد خاتون تھیں جو سپریم کورٹ بار کی صدر منتخب ہوئیں۔ حالانکہ ہمارا قانون مردوں کی طرح عورتوں کو بھی تعلیم، شعبے اور پیشے کے انتخاب کی اجازت دیتا ہے۔دنیا بھر میں خواتین ڈاکٹرز کی بہت بڑی تعداد ہے۔ خواتین کی ایک بڑی تعداد وکیل، صحافی، سیاستدان، سرکاری ملازم، سفارتکار، پولیس افسر، سکول ٹیچر اور کالج میں پروفیسر، بینکرز، انجینئرز اور حتی کہ صنعت کار بن رہی ہیں۔

دنیا بھر کے عورتوں کی بڑی تعداد مختلف قسم کے سٹورز کی مالک ہے اور دیگر کاروبار چلا رہی ہیں۔ پھر ان کی محرومی اور برے سلوک سے دیہاتی خواتین یا کم پڑھی لکھی خواتین زیادہ اثر انداز ہو رہی ہیں۔ پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں آج بھی خواتین پر تشدد کے واقعات عام ہیں بلکہ بڑے شہروں اور قصبات میں یہ شرح دیہی علاقوں کی نسبت کم ہے۔ شہری علاقوں جہاں پر خواندگی کی شرح زیادہ ہے میں خواتین نے کسی حد تک معاشی، خودمختاری حاصل کر لی ہے وہ اپنی شادی شدہ زندگیوں میں تشدد برداشت نہیں کرتیں اور اگر کہیں ایسا ہے تو وہ اپنی مائوں اور دادیوں کی طرح برداشت کرنے کی بجائے شادی ختم کرنا چاہتی ہیں۔  ایسی صورت میں نہ تو اسلام اور نہ ہی قانون اور عوامی رائے انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔ ایسے معاملات میں جہاں وہ اپنے غیر مہذب شوہروں کو برداشت کرتی ہیں  تو وہ زیادہ تر اس وجہ سے کہ ان کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بعض معاملات میں معاشی تحفظ پر مبنی رسم و رواج اور غیرت کا طبقاتی تصور عورتوں کو اس تکلیف دہ تعلق کو جاری رکھنے پر مجبور کرتا ہے۔لہذا جوں جوں ملک تعلیمی اور معاشی حوالے سے ترقی کرے گا۔ پاکستانی عورت کی حالت ضرور بدلے گی  اور ہم ضرور اس رپورٹ میں کہیں اوپر نظر آ رہے ہوں گے۔

No comments.

Leave a Reply