افغانستان: امن کی طرف ناقابل یقین پیشرفت

امریکہ نے طالبان سے براہ راست بات چیت کا آغاز کیا ہے جس میں پاکستان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے

امریکہ نے طالبان سے براہ راست بات چیت کا آغاز کیا ہے جس میں پاکستان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے

نیوز ٹائم

گذشتہ دو سالوں میں جو تباہی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھا گیا ہے، اس میں سے حالیہ 48 گھنٹے اس قابل ہیں کہ انہیں تاریخی کہا جائے۔ یہ کوئی مذاق نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کی اولین اور عظیم فوجی طاقت دو سرگرم جنگی محاذوں سے دستبردار ہو رہی ہے،  اس کے زیر قبضہ میدان اپنے علاقائی رقیبوں کے حوالے کر رہی ہے اور اپنے حلیفوں کو تنہا چھوڑ کر جا رہی ہے۔ یہ سوچنے کی غلطی مت کریں کہ اس دستبرداری سے کسی امن کا آغاز ہو گا۔ یہ تو کمزوری اور عدم استحکام کا مظہر ہے۔ اب واشنگٹن کے حریف طاقتور ہو رہے ہیں کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ پرانے ضابطے اب لاگو نہیں رہے۔ اب لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ امریکہ کو کیا قبول ہو گا اور کیا قبول نہیں ہو گا۔ اس کے برخلاف تاریخ کی عظیم الشان ترین ملٹری مشین کا چیف کمانڈر اس کو صرف اس لئے استعمال کر رہا کہ وہ اخبارات کی شہ سرخی اپنے حق میں بدلے یا اس سے اپنی مردانگی کا مظاہرہ کرے

مندرجہ ذیل ۔ بالا اقتباس سی این این میں شائع ہونے والے ایک مضمون سے لیا گیا ہے۔یہ اس ہیجانی کیفیت کی عکاسی کر رہا ہے جس میں امریکہ اس وقت مبتلا ہے۔  صدر ٹرمپ اپنے قریب ترین وزرا اور مشیروں سے مشورہ کئے بغیر بڑے بڑے فیصلوں کا اعلان ٹوئٹر کے ذریعے کرتے ہیں۔  اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ٹرمپ کے معتمد خاص اور وزیر دفاع جنرل (ر) جیمز میٹس نے یہ کہہ کر استعفی دے دیا کہ آپ اپنے مزاج کا وزیر دفاع ڈھونڈ لیں۔  ایک اور بھاری بھرکم جنرل (ر) جان کیلی جو ٹرمپ کے چیف آف اسٹاف تھے وہ بھی مستعفی ہو چکے ہیں۔ ان کے متعلق بھی یہ گمان ہے کہ صدر ٹرمپ نے ان کی بات سننا ترک کر دی تھی۔ لیکن یہ کیفیت سراسر پاگل پن پر مبنی نہیں ہے۔  صدر ٹرمپ تو اپنی انتخابی مہم کے دوران شگاف الفاظ میں تواتر کے ساتھ یہ اعلان کرتے رہے تھے کہ وہ افغانستان اور دیگر محاذوں پر اپنی فوجوں کو واپس بلا لیں گے کیونکہ بقول اِن کے اس میں امریکی جانوں کا غیر ضروری ضیائع ہو رہا ہے۔ لیکن بعد ازاں امریکی اسٹبلشمنٹ نے ان کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ ایسا کوئی قدم نہ اٹھائیں جس سے امریکہ کے حریفوں کو برتری حاصل ہو جائے۔  بلکہ افغانستان کے معاملے میں ان سے مزید فوجی بھیجنے کا فیصلہ کروا لیا۔ کچھ عرصے کیلئے صدر ٹرمپ نے نہ صرف اسٹبلشمنٹ کی تجویز کو قبول کر لیا بلکہ پے درپے پاکستان پر لفظی گولہ باری کرنا شروع کر دی۔  اگست 2017 ء میں امریکہ کی افغانستان اور جنوبی ایشیا کی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے  انہوں نے پاکستان کے خلاف غیر شائستہ زبان استعمال کی اور دھمکیاں دینے کا ایک سلسلہ شروع کر دیا۔ پوری پاکستانی قوم نے یک زبان ہو کر اس غیر شائستہ زبان کی مذمت کی اور دھمکیوں سے مرعوب ہونے سے انکار کر دیا۔

اس سال کے آغاز میں صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر پاکستان کو سخت برا بھلا کہا اور یہ کہا کہ اس نے امریکی امداد کو ہڑپ کر لیا اور ہماری کچھ مدد بھی نہیں کی۔ ایک دفعہ پھر ہماری سیاسی اور ملٹری قیادت نے ان لغو اور بے معنی الزامات کو قابل اعتماد نہیں سمجھا۔ لیکن افغانستان میں طالبان کی بڑھتی کامیابیاں، افغان فوجوں کے بڑھتے ہوئے جانی نقصانات اور خود اتحادی افواج کے جانی نقصانات ناقابل برداشت ہوتے جا رہے تھے۔ تمام آزادانہ ذرائع سے حاصل اندازے بتا رہے ہیں کہ افغانستان کا زیادہ رقبہ طالبان کے قبضے میں ہے یا وہاں افغان حکومت کی موجودگی برائے نام ہے۔  علاوہ ازیں جن واقعات نے اس ساری صورتحال کو یک لخت بدل دیا ہے وہ اتحادی افواج پر اندرونی حملے ہیں۔ نومبر کے شروع میں قندھار میں، جو اتحادی فوجوں کا قلعہ ہے، ایک اندرونی حملے میں نہ صرف سینئر افغان کمانڈر مارے گئے، بشمول جنرل عبد الرزاق جو پولیس چیف تھے اور طالبان دشمنی میں بدنام تھے، بلکہ امریکی فوج کے کمانڈر جنرل آسٹن ملر، بال بال بچ گئے۔  قبل ازیں غزنی شہر پر دن دیہاڑے طالبان کا حملہ اور اس کا عارضی کنٹرول یہ کھلا اشارہ تھا کہ طالبان جب چاہیں جدھر چاہیں حملہ آور ہو سکتے ہیں گو کہ ان کی حکمت عملی میں علاقوں پر قبضہ کرنا اور نظم و نسق سنبھالنا نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے حریف کو خوفزدہ اور بے دم کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی صدر نے اس بات کا اندازہ لگا لیا ہے کہ افغانستان میں فوجوں کی مزید فراہمی نے نہ صرف کوئی فرق پیدا نہیں کیا ہے بلکہ ہزیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، لہذا انہوں نے اپنی اصل سوچ کی طرف پلٹنے کو ترجیح دی۔

اس پس منظر میں امریکہ نے طالبان سے براہ راست بات چیت کا آغاز کیا ہے اور وہ اس کو فوراً مکمل کرنا چاہتا ہے۔ چند ملاقاتوں کے بعد ہی امریکہ نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ اپنی نصف فوجیوں کو آئندہ دو مہینوں میں واپس بلا لے گا۔ اس اعلان سے کابل اور نئی دہلی میں تشویش پھیل گئی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کا کہنا ہے کہ اس اعلان سے صدر ٹرمپ، کابل اور نئی دہلی کو بس کے نیچے کچل کر نکل گئے ہیں۔  جب ٹرمپ یہ اعلان کر رہے تھے تو سینٹر لینڈسے گراہم افغانستان کا دورہ کر رہے تھے۔ وہ سینٹر میکین کے ساتھ ہر سال کرسمس کے موقع پر یہ دورہ کرتے آئے ہیں، جس کا مقصد امریکی فوجیوں کی دلجوئی کرنا اور زمینی حقائق سے آگاہی حاصل کرنا ہے۔ وہ ہمیشہ سے افغان جنگ کے حامی رہے ہیں اور اکثر پاکستان کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ انہوں نے امریکی فوجیوں کی واپسی کے اعلان کی شدید مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس انخلا سے امریکہ ان تمام فوائد کو ضائع کر دے گا جو اس نے 18 سال کی جنگ میں حاصل کئے ہیں۔ مزید برآں، ان کا کہنا ہے کہ ساری دنیا کے جہادی عناصر دوبارہ افغانستان میں جمع ہونا شروع ہو جائیں گے۔ لہذا امریکہ کو ایک اور 9/11 کیلئے تیار ہو جانا چاہیے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امریکہ میں عموماً اس پیشرفت پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ اس کے برعکس شام سے امریکی فوج کے انخلا کے اعلان پر ہر طرف سے مذمتی بیان سامنے آ رہے ہیں۔ یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ امریکہ کی اندرونی سیاست میں افغانستان کسی دلچسپی کا حامل نہیں رہا ہے، لہذا یہاں سے امریکی فوج کا انخلا کسی ردعمل کا باعث نہیں ہے، گو کہ پینٹاگون اس معاملے میں بھی اپنے تحفظات رکھتا ہے۔

ہماری نظر میں یہ پیشرفت پاکستان کیلئے بڑی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔ بہت سے تجزیہ نگار اس پر حرف زنی کرتے ہوئے امریکی انخلا کو خطے میں بدامنی کا باعث قرار دیں گے۔ لیکن ہماری نظر میں اس خدشے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ طالبان کے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ اتنی بڑی کامیابی کو اندرونی خانہ جنگی میں ضائع کر دیں گے غیر حقیقی ہے۔ طالبان نے ایک محفوظ افغانستان بنایا تھا اور ان کی شوری نے اسامہ بن لادن کو تیسرے ملک کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کر دی تھی۔ امریکی حملہ بے بنیاد تھا، تکبر اور عجلت پر مبنی تھا جو لاکھوں جانوں کے ضیائع اور خطے میں عدم استحکام کا باعث بنا۔

کابل حکومت صرف امریکی طاقت کی وجہ سے قائم ہے۔ اس کے انخلا کے بعد طالبان کے علاوہ کوئی قوت اس کو متحد نہیں رکھ سکتی، چاہے یہ نتیجہ مذاکرات کے ذریعے نکلے یا لڑائی کے ذریعے۔ ہاں اس بات کا امکان موجود ہے کہ بھارت کی مدد سے شمالی اتحاد واپس ان علاقوں پر ابتدائی طور پر قابض ہو جائے جہاں وہ امریکی حملے سے پہلے قابض تھا۔ ہماری نظر میں اس وقت زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس خطے میں اب نئی صف بندی ہو رہی ہے جس سے مثبت امکانات پیدا ہوں گے۔ ایک جانب ایک اتحاد چین، روس، ترکی اور ایران کا بن رہا ہے۔ دوسرا امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب اور اس کے خلیجی حلیفوں کا بن رہا ہے۔ پاکستان کیلئے کسی ایک گروپ میں کلی طور پر شامل ہونا مشکل عمل ہو گا۔ لیکن وہ ایک توازن برقرار رکھتے ہوئے، افغانستان میں امن کی بحالی، ایک پائیدار اور مستحکم حکومت کے قیام کیلئے پہلے گروپ سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ دونوں گروپوں کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس نے وہ قربانیاں دی ہیں جو پاکستان نے افغانستان کی جنگ کی وجہ سے دی ہیں لہذا پاکستان کی پہلی ضرورت ہر اس ملک سے تعاون کی ہے جو افغانستان میں امن کے قیام میں مددگار ہو گا۔ علاوہ ازیں پاکستان کیلئے یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنی سرحدوں پر واقع دیگر چیلنجز سے صرف نظر کر لے۔  ایران کے معاملے میں خصوصاً اسے اس بات کا لحاظ کرنا ہو گا کہ وہ بھارت کے ساتھ مل کر شمالی اتحاد کا سربراہ بنے۔ لہذا اس امکان کو ختم کرنے کیلئے ایران ایک قدرتی حلیف کے طور پر سامنے آتا ہے جس کے ساتھ پاکستان کو قیام امن کیلئے تعاون کا راستہ نکالنا ہو گا۔ اس امکان کو محدود کرنے کیلئے طالبان کو فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہزارہ اقلیت کے حقوق کا خیال رکھنا ہو گا جو ایران کا اصل مقصد ہے۔

No comments.

Leave a Reply