قائد اعظم کی سیاسی بصیرت اور دوقومی نظریہ کا نفاذ

قائد اعظم محمد علی جناح کی گاندھی کے ساتھ ایک یاد گار تصویر، فوٹو:

قائد اعظم محمد علی جناح کی گاندھی کے ساتھ ایک یاد گار تصویر، فوٹو:

نیوز ٹائم

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی 72 سالہ زندگی کے تقریبا 44 سال قومی سیاست کے حوالے سے بسر کیے۔ مذکورہ 44 سال کے دوران انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس، ہوم رول لیگ اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے ہندوستان کی آزادی، ہندو مسلم اتحاد اور ہندوستان کے مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کے لیے جدوجہد کی۔ 1906 میں وہ انڈین نیشنل کانگریس کے رکن ہوئے۔ پھر 1913ء میں وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے جو خالصتاً مسلمانوں کی سیاسی جماعت کے طور پر 1906ء میں قائم ہوئی تھی۔  ساتھ ہی ساتھ ستمبر 1916ء میں ہندوستان کے عوام کو حکومتِ خود اختیاری دلانے کے لیے قائم کی جانے والی جماعت ہوم رول لیگ میں انہوں نے جون 1917ء میں شمولیت اختیار کی  اور بمبئی ہوم رول لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔ اس سال الہ آباد میں ہوم رول لیگ کے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ مسلم لیگ اور کانگریس کے مشترکہ مطالبات کی حمایت کریں کیونکہ ہوم رول لیگ کا مقصد بھی انہی مطالبات کا حصول ہے  جو 1916ء کے مسلم لیگ اور کانگریس کے مشترکہ اجلاس میں میثاقِ لکھنو کی صورت میں منظور کیے گئے ہیں۔

محمد علی جناح کی سیاسی حکمتِ عملی نے اس دور میں ہی یہ ثابت کر دیا تھا کہ ہندوستان کے سیاسی منظر پر وہ واحد رہنما ہیں جو کسی قوم پرستانہ رویے سے بالاتر ہو کر ہندوستان کی آزادی، ہندو مسلم اتحاد اور مسلمانوں کے حقوق کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسی دور میں ان کو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کے خطاب سے بھی یاد کیا گیا۔ محمد علی جناح کی یہ جدوجہد ایک طویل عرصہ تک جاری رہی  مگر آہستہ آہستہ ان پر واضح ہوتا چلا گیا کہ کانگریس کے ہندو رہنما ہندوستان کی آزادی تو چاہتے ہیں لیکن مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق کسی طور پر بھی دینے کو تیار نہیں بلکہ وہ ہندوستان کی آزادی کے بعد ہندوستان میں ہندو راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا راج جس میں مسلمان ایک پسماندہ اور محکوم اقلیت کے طور پر زندگی بسر کریں۔ محمد علی جناح اس صورتِ حال کو کسی صورت قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، لہذا انہوں نے ہندوستان کے آئینی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے حکومت برطانیہ کے نمائندوں اور کانگریسی رہنمائوں سے متعدد بار مذاکرات کیے لیکن ہندو رہنمائوں نے اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھی۔ ان مذاکرات کے ذریعہ ہی محمد علی جناح نے یہ اصول واضح کیا  کہ ہندوستان کے فرقہ وارانہ آئینی مسئلہ کا حل صرف اور صرف مطالبہ پاکستان کی منظوری میں مضمر ہے کیونکہ اس خطے میں مسلمان ایک علیحدہ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ہندوستان میں فرقہ وارانہ مسئلہ ہمیشہ برقرار رہا اور اسی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے حکومت اور تمام سیاسی جماعتیں تقریبا 90 سال سرگرم عمل رہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قائد اعظم محمد جناح نے ابتدا ہندو مسلم اتحاد کے لیے وسیع پیمانے پر کوششیں کیں لیکن کانگریسی رہنمائوں نے ان کوششوں کو کبھی بارآور ہونے نہیں دیا۔ دراصل انڈین نیشنل کانگریس اور خصوصاً قوم پرست رہنما موہن داس کرم چند گاندھی کسی قیمت پر بھی ہندوستان میں مسلمانوں کے وجود کو یا ان کی علیحدہ کسی خودمختار حیثیت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے۔ میثاقِ لکھنو کی صورت میں 1916ء میں مسلمانوں کو اس ضمن ایک جزوی کامیابی حاصل ہوئی تھی لیکن اس کے بعد تقسیم ہند تک ہندوئوں کی جانب سے کسی خیر سگالی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ 1928 میں نہرو رپورٹ کانگریس کے مسلم دشمنی رویہ کی بدترین مثال قرار دی جا سکتی ہے۔ اسی رپورٹ کے بعد مسلم رہنمائوں کے اذہان میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کا تصور پیدا ہونا شروع ہوا  اور 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد میں  علامہ اقبال نے اپنے جلسہ میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی۔  1930ء میں گول میز کانفرنس میں بھی جب فرقہ وارانہ مسائل کے حل کا سوال آیا تو ہندو رہنمائوں نے عدم تعاون کا مظاہرہ کیا۔ دوسری گول میز کانفرنس منعقدہ ستمبر 1931ء میں گاندھی جی نے مسلمان مندوبین کی جانب سے فرقہ وارانہ مسائل کے ضمن میں کسی بھی مطالبہ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مسلمان اور دیگر مندوبین نہرو رپورٹ کو اس کی کلیت میں تسلیم کر لیں۔ گاندھی کی اس شرط سے ایک مرتبہ پھر فرقہ وارانہ مسئلہ کا حل تعطل کا شکار ہو گیا۔

1935 میں نئے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کا اعلان کیا گیا۔ اس ایکٹ میں فرقہ وارانہ مسئلہ کا جو حل تجویز کیا گیا تھا وہ مایوس کن تھا  لیکن جناح نے یہ استدلال کیا کہ اگر یہ ایوارڈ قبول نہ کیا گیا تو پھر کوئی آئینی اسکیم ممکن نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ جناح کسی ایسے متبادل فارمولے کے لیے بھی تیار تھے جو ہندئوں اور مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہو لہذا جب کانگریس کے صدر Rajinder Parshad نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کے آغاز کی تجویز پیش کی تو جناح نے فوری طور پر آمادگی ظاہر کر دی۔ جناح اور کانگریس کے صدر کے درمیان جنوری اور مارچ 1935ء میں گفتگو کا آغاز ہوا۔ لیکن ان مذاکرات کے نتیجے میں جو فارمولا مرتب کیا گیا وہ خود چند کانگریسی رہنمائوں کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ جہاں تک انتہا پسند ہندو رہنمائوں کا تعلق تھا ان میں سے بیشتر نے اس فارمولے کی مخالفت کی۔ اس طرح یہ مذاکرات مایوس کن حالات میں ختم ہو گئے۔ 1935 سے 1940ء تک قائد اعظم محمد علی جناح برابر ہندو مسلم مفاہمت کے لیے جدوجہد کرتے رہے لیکن ان کو ہر مرحلہ پر مایوس ہونا پڑا۔ اس ضمن میں انہوں نے کانگریس کے تمام سرکردہ رہنمائوں سے مذاکرات کیے۔ 1937 میں کانگریس وزارتوں نے ہندو اکثریتی صوبوں میں مسلمانوں پر عرصہ زندگی تنگ کر دیا اور فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا ملی۔ جناح نے نہرو کی توجہ اس جانب دلائی مگر وہ بھی جناح کے نقطہ نظر پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ اگرچہ مسلم لیگ کو ایک اہم فرقہ پرست تنظیم تصور کرتے ہیں لیکن دیگر مسلمان تنظیموں کو نظرانداز نہیں کر سکتے۔  اس صورتِ حال میں بھی جناح اپنے موقف پر قائم رہے۔  ان کا کہنا تھا کہ جب تک کانگریس مساوی بنیادوں پر لیگ کو تسلیم نہیں کر لیتی اور ہندو مسلم مفاہمت کے سلسلہ میں مذاکرات پر آمادگی ظاہر نہیں کرتی  اس وقت تک ہندوستان کے مسئلہ کا حل ممکن نہیں۔  1938 میں جناح اور Congress President Subhash Chandra Bose کے درمیان خط و کتابت کا تبادلہ ہوا لیکن یہ بھی نتیجہ خیر ثابت نہیں ہوا۔

محمد علی جناح کے کانگریسی رہنمائوں سے مذاکرات اور کانگریسی حکم والے صوبوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اس بات کا واضح ثبوت تھے  کہ کانگریس مسلمانوں کے کسی مسئلے کو حل کرنا نہیں چاہتی ہے۔ بہرحال جناح نے اس کے باوجود ہندوستان کے دو بڑے فرقوں کے درمیان مفاہمت کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔ انہوں نے یکم جنوری 1940ء کو گاندھی کے نام ایک خط میں لکھا کہ وہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت کی راہ نکالنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔ لیکن کانگریس کے رہنما مسلم لیگ کی نمائندہ حیثیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ و تیار نہیں تھے۔  اس صورتِ حال میں جناح کا حتمی ردِعمل یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک علیحدہ وطن ہونا چاہیے۔

1941ء سے 1947ء تک محمد علی جناح نے Abul Kalam Azad ، Gandhiji ، Jawaharlal Nehru ، Sir Tej Bahadur Sapru ، Rajendra Prasad ، Rajgopal Acharya. ، Khizer Hayat و غیرہ سے خط و کتابت اور مذاکرات کیے لیکن ہندو مسلم مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہا۔ Rajgopal Acharya نے 1944ء میں مسلم لیگ اور کانگریس کی مفاہمت کے لیے ایک فارمولا مرتب کیا۔ اگرچہ اس فارمولے کی شرائط مطالبہ پاکستان کی روح کے منافی تھیں لیکن جناح نے ان شرائط پر ستمبر 1944ء میں گاندھی سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی، لیکن مذاکرات کے دوران گاندھی نے یہ موقف اختیار کیا کہ وہ جناح سے کانگریس کی جانب سے نہیں بلکہ ذاتی حیثیت میں ملاقات کر رہے ہیں۔ گاندھی نے یہ بھی کہا کہ وہ جناح کے اس خیال کو تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان اپنی ذاتی حیثیت میں ایک علیحدہ قوم ہونے کا حق رکھتے ہیں۔ یہ دونوں صورتیں قائد اعظم محمد علی جناح کے لیے قابل قبول نہیں تھیں۔

اگرچہ قائد اعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے 27 ویں سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور 1940ء میں دو قومی نظریہ کی وضاحت کر چکے تھے لیکن انہوں نے اس مرحلے پر گاندھی کو 17 ستمبر 1944ء کو ایک خط میں واضح طور پر لکھا کہ ہمارا دعوی ہے کہ قومیت کی ہر تعریف اور معیار کی رو سے ہندوستان میں مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں۔ ہماری قوم 10 کروڑ مسلمانوں پر مشتمل ہے اور یہ کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں جو اپنے خاص تہذیب و تمدن، زبان و ادب، فنون و تعمیرات، اسم و اصطلاحات، معیارِ قدر و تناسب، تشریعی قوانین، ضوابطہ اخلاق، رسم و رواج، نظامِ تقویم، تاریخ و روایات اور رجحانات و عزائم رکھتی ہے۔ غرض یہ کہ ہمارا ایک خاص نظریہ حیات ہے اور زندگی کے متعلق ہم ایک ممتاز تصور رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے تمام اصولوں کے مطابق ہم ایک قوم ہیں۔

ان مذاکرات کے دوران یہ بات بھی واضح طور پر سامنے آ گئی کہ گاندھی درحقیقت یہ چاہتے ہیں کہ برطانوی حکومت پہلے ہندوستان چھوڑے اس کے بعد ہندوستان کی تقسیم کے سوال پر غور کیا جائے۔ محمد علی جناح چونکہ گاندھی کے اس موقف کی تائید نہیں کر سکتے تھے اس لیے یہ مذاکرات ختم ہو گئے۔ لیکن محمد علی جناح کے کانگریسی رہنمائوں سے مذاکرات اور خط و کتابت سے یہ بات واضح ہوتی چلی گئی کہ ہندو مسلم مسئلہ کا حل دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم ہند میں مضمر ہے  لہذا حکومت برطانیہ نے آنے والے برسوں میں فرقہ وارانہ مسئلہ کے حل کے لیے تقسیم ہند کو ناگزیر تصور کر لیا اور 14 اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا۔ بلاشبہ قائد اعظم محمد علی جناح کی ایک ایسی کامیابی تھی جس نے ان کو دنیا کے عظیم مدبروں کی صف میں کھڑا کر دیا۔

No comments.

Leave a Reply