این آر او کے امکانات

آصف زرداری اور میاں نواز شریف

آصف زرداری اور میاں نواز شریف

نیوز ٹائم

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ایک بار پھر بڑے اصرار اور اعتماد کے ساتھ این آر او کی افواہوں کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ماضی میں آئین اور قانون کے ماورا سیاسی مصلحتوں کی بنا پر جو بھی این آر او دیئے گئے ان سے پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ایک جانب تو قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹنے والوں کو کلین چٹ دے دی گئی اور دوسری جانب مقدمات پر جو اربوں روپے اخراجات آئے ان کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔  عمران خان این آر او کے بارے میں اس قدر حساس ہیں کہ انہوں نے دبئی میں لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری سے کہا کہ پاکستان میں ایک بار پھر این آر او کی بازگشت سنائی دے رہی ہے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر خزانہ اسد عمر، وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق سعد الحریری نے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے اور دوٹوک الفاظ میں کہا کہ میاں نواز شریف کو معافی دلانا ان کی بڑی غلطی تھی جس پر وہ شرمندہ ہیں کیونکہ میاں نواز شریف نے اس ضمن میں اپنا کوئی وعدہ پورا نہ کیا۔

جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں میاں نواز شریف اور ان کے خاندان نے این آر او کیا اور جیل سے سعودی عرب روانہ ہو گئے تو اس وقت بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ انہوں نے پہلی بار کسی تاجر سیاستدان پر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے بارے میں اعتماد کیا تھا  جو فریب دے کر پاکستان سے باہر چلے گئے اور اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے سلسلے میں ہونے والی بات چیت اور تبادلہ خیال کو احتساب سے بچنے کیلئے استعمال کر لیا۔ پاکستان کی ریاست پر چونکہ آج تک آئین اور قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہو سکی اور ہمیشہ طاقت کا قانون ہی چلتا رہا ہے  اس لیے پاکستان کی سیاسی تاریخ ڈیل اور ڈھیل مک مکا مصلحت اور مفاہمت کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ پاکستان کے بااثر سیاستدان بیوروکریٹس جرنیل اور ججز اکثر اوقات اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے آئین اور قانون کے مطابق احتساب سے بچتے رہے ہیں۔ کئی حوالوں سے پاکستان بدقسمتی سے آج بھی ایک کالونی کی حیثیت رکھتا ہے امریکہ، برطانیہ اور طاقتور اسلامی ممالک پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کرتے رہے ہیں اور سیاستدانوں کی خاطر این آر او کرانے کے سلسلے میں ضامن بنتے رہے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ سعودی عرب نے میاں نواز شریف کی ضمانت دی- جبکہ امریکہ اور برطانیہ نے جنرل پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان مفاہمت کرانے کیلئے ضمانت دی۔ جنرل پرویز مشرف نے این آر او جاری کر کے ہزاروں قاتلوں، مجرموں اور کرپٹ عناصر کو جیلوں سے رہا کر دیا اور مقدمات خارج کر دیئے البتہ سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کے این آر او کو کالعدم قرار دے دیا کیونکہ یہ این آر او آئین اور قانون سے ماورا تھا۔

میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں پاکستان کے طاقتور اور بااثر سیاستدان ہیں  جن کے حامی اور سہولت کار پاک فوج عدلیہ اور بیوروکیسی میں موجود ہیں  دونوں لیڈروں کے پاس پارلیمانی قوت بھی موجود ہے مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے تعاون کے بغیر قومی اسمبلی اور سینیٹ کو چلانا ممکن نہیں ہے۔ میاں نواز شریف اور آصف زرداری دونوں عالمی اسٹیبلشمنٹ میں بھی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ چین سمیت دنیا کے دوسرے ممالک جو پاکستان کے دوست ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے خواہشمند ہیں وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے اندر سیاسی استحکام ہو تاکہ اس کے نتیجے میں ملک کے اندر سرمایہ کاری کا ماحول سازگار بن سکے اور پاکستان معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکے۔ ان حالات میں پاکستان کے مقتدر اداروں کو آئین اور قانون کے مطابق کوئی ایسا راستہ نکالنا پڑیں گا کہ جس سے پاکستان کی لوٹی ہوئی قومی دولت بھی واپس آ جائے اور سیاسی عدم استحکام، انتشار اور فساد بھی ختم ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ کڑے احتساب کے بغیر پاکستان کسی صورت آگے نہیں بڑھ سکتا البتہ اگر احتسابی عمل سیاسی عدم استحکام کا سبب بن رہا ہو تو پھر ڈھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی آئینی آپشن نکالنا پڑیں گا۔

نیب کے قوانین میں ایسی گنجائش موجود ہے کہ اگر قومی دولت لوٹنے والے اقرار جرم کر لیں تو وہ رقم واپس کر کے احتسابی کارروائی سے بچ سکتے ہیں۔ دوسری مثال علیمہ خان کی ہے جنہوں نے پاکستان کے قوانین کے مطابق اپنی بیرونی جائیداد ڈکلیئر کر کے اور جرمانہ ادا کر کے اپنا کیس ختم کرا لیا ۔ یہ راستہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری سمیت ہر ایک کیلئے کھلا ہے۔ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں اور معاشی استحکام کی خاطر عمران خان کو ایسے حل سے اتفاق کرنا پڑیں گا جو جرت مندانہ ہو اور آئین و قانون کے مطابق ہو۔ عمران خان کے بیانات ریکارڈ پر ہیں کہ جو لیڈر یو ٹرن نہیں لیتا وہ کامیاب لیڈر نہیں بن سکتا  لہذا مناسب یہی ہے کہ عمران خان این آر او کے سلسلے میں تند و تیز بیانات سے گریز کریں  بلکہ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے وہ سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کریں  اور عدلیہ کی رہنمائی لے کر احتساب کے عمل کو بلاتاخیر منطقی انجام تک پہنچائیں۔

پاکستان کا ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری چاہتے ہیں کہ حکومت ان کو آبرو مندانہ راستہ دینے پر آمادہ ہو جائے کیونکہ دونوں میں جیل کاٹنے کی اب سکت نہیں رہی اور دونوں دلی طور پر اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستانی سیاست میں اب ان کا کوئی کردار باقی نہیں رہا۔ آصف علی زرداری یہ چاہتے ہیں ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو متبادل لیڈر کے طور پر قبول کر لیا جائے  اسی طرح میاں نواز شریف کی بھی یہ خواہش ہے کہ ان کی بیٹی مریم نواز شریف ان کی سیاسی وارث بن جائیں۔ پاکستان چونکہ بااثر طاقتور خاندانوں کی ریاست ہے جس میں ابھی تک آئین اور قانون کی بالادستی اور حکمرانی کی روایت جڑ نہیں پکڑ سکی اس لئے ڈیل، ڈھیل اور این آر او کے امکانات واضح طور پر موجود ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان سیاسی، عوامی اور پارلیمانی طور پر اس قدر طاقتور نہیں ہیں  کہ ریاست کے تمام معاملات ان کی مرضی اور خواہش کے مطابق چل سکیں جبکہ پاکستان کے عوام حکومتی پالیسیوں کی بنا پر انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔

No comments.

Leave a Reply