بلجیم میں بیمار بچوں کو قتل کرنے کی اجازت دے دی گئی

بلجیم دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے بالغان کے بعد اب بیمار بچوں کو بھی ہلاک کرنے کے قانون کی منظوری دے دی

بلجیم دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے بالغان کے بعد اب بیمار بچوں کو بھی ہلاک کرنے کے قانون کی منظوری دے دی

برسلز ۔۔۔ نیوز ٹائم

بلجیم میں طبعی معالجوں کو ایسے بیمار بچوں کو قتل کرنے کی اجازت مل گئی ہے جن کی بیماری شدت اختیار کر گئی ہے یا ان کے بچنے کے چانسز کم ہیں۔ دوسری جانب اس قانون (euthanasia) کے مخالف طبی معالجوں اور Catholic کلیسا کا کہنا ہے کہ اس قانون کے تحت بچوں کا قتل سنگدلانہ امر ہے۔ بلجیم کے جریدے کے مطابق بارہ سال پہلے بلجیم پارلیمنٹ ایک ایسا قانون بھی منظور کر چکی ہے، جس میں ایسے بالغ مریض، جن کی زندگی کے امکانات معدوم ہیں اور وہ شدید تکلیف میں مبتلا ہیں، انہیں طبی معالج ہلاک کر سکتے ہیں۔ تاہم اس ضمن میں معالجین کے لیے مریض کے سرپرستوں اور نفسیاتی ماہرین کا اجازت نامہ ضروری قرار دیا گیا تھا۔ جریدے کے مطابق اب بارہ سال بعد معالجوں کو اس بات کی بھی اجازت مل گئی ہے کہ وہ پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا کم سن بچوں کو ‘مہلک زہر کے انجکشن’ لگا کر ہلاک کر سکیں گے۔ برطانوی جریدے indepenent کے مطابق بلجیم حکومت نے ملک کے چوٹی کے 170 ماہرین امراض اطفال کی تحریری درخواست پر یہ قانون منظور کیا ہے۔ بلجیم کے مقامی نیوز چینلز کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں اس حوالے سے دو روز گرما گرم بحث کی گئی۔ جس کے بعد ہونے والے رائے شماری میں 86 اراکین پارلیمنٹ نے ‘رحم دلانہ قتل کے قانون’ کے حق میں ووٹ دیا۔ 142 رکنی پارلیمنٹ کے 44 ممبران نے اس قانون کے خلاف ووٹ دیا، جبکہ 12 اراکین نے اپنے رائے دینے سے احتراز کیا۔ اس ‘رحم دلانہ’ قانون کی پارلیمنٹ میں منظوری کے بعد اس پر بلجیم کے بادشاہ کے دستخظ درکار ہیں۔ جس کے بعد اس قانون کو لاگو کر دیا جائے گا۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ بھی بیمار بچوں کو ہلاک کرنے کے حق میں ہیں۔ تاہم بلجیم کی Catholic پارٹی، کرسچن پارٹی، کرسچن ڈیمو کریٹس اور اس کی اتحادی جماعتوں کا کہنا ہے کہ کلیسائے روم کو اس متنازع قانون کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ کیونکہ کسی بھی بیمار بچے کو محض اس لئے ‘مہلک زہر کا انجکشن’ لگا کر قتل نہیں کیا جا سکتا کہ وہ صحت یاب نہیں ہو پا رہا یا معالج اس کا شافی علاج کرنے سے قاصر ہیں۔ برطانوی جریدے independent کا کہنا ہے کہ جب یہ متازع قانون منظور کرنے کے حق میں ووٹنگ کی گئی تو پارلیمنٹ کی عوامی گیلری سے شیم شیم اور قاتل قاتل کی آوازیں سنائی دیں۔ بلجیم کے جریدے نے لکھا ہے کہ 2002ء سے ‘رحم دلانہ قتل’ کے قانون کی منظوری کے بعد کئی ہسپتالوں میں مریضوں کو مختلف مہلک انجکشن کی مدد سے ہلاک کیا جا چکا ہے، لیکن حکومتی پابندیوں کے باعث اس قانون کے تحت ہلاک افراد کی اصل تعداد سامنے نہیں آسکی ہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائیٹس اور سوشل بلاگز پر اپنی رائے دینے والے بلجیم کے شہریوں کا دعویٰ ہے کہ اب تک سینکڑوں افراد کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ برطانوی جریدے کا اپنی الگ رپورٹ میں کہنا ہے کہ بلجیم دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے، جس نے بالغان کے بعد اب بیمار بچوں کو بھی ہلاک کرنے کے قانون کی منظوری دے دی ہے، جو بہت جلد بادشاہ کے دستخطوں کے بعد لاگو کر دیا جائے گا۔ مقامی اخبارات و جرائد کا کہنا ہے کہ ‘رحم دلانہ قتل’ کی اجازت پر برسلز بچوں اور Catholic church سے عقیدت رکھنے والے عیسائیوں نے اس قانون کے خلاف شدید مظاہرہ کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس غیر ضروری قانون پر عمل درآمد کو روکا جائے، کیونکہ کسی قانون کی آڑ میں بچوں کے قتل کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی۔ 2 فروری کے بعد 13 فروری کو برسلز میں ہونے والے مظاہروں میں سینکڑوں بچوں اور ان کے والدین نے ‘قانون رحم دلانہ قتل’ کے خلاف شرکت کی اور حکومت بلجیم پر شدید تنقید کی۔ سینکڑوں بچوں نے حکومت کے نئے متنازع قانون کے خلاف نعروں سے مزین پلے کارڈز اور بینر اٹھائے ہوئے تھے۔ برطانوی جریدے independent کا کہنا ہے کہ 2002ء میں بالغان کے لئے موت کا حق تسلیم کئے جانے کے بعد بلجیم کے ڈاکٹروں کی اکثریت نے اس مہم کا آغاز کیا تھا کہ جس طرح بالغان کو موذی مرض اور اس کی شدید تکلیف سے نجات دلانے کا حق حاصل ہے، اسی طرز پر مہلک بیماریوں میں مبتلا بچوں کو بھی رحم دلانہ انداز میں قتل کرنے کا قانون منظور کیا جائے۔ یہاں ایک حیران کن امر یہ بھی ہے کہ انتہائی جدید طبی سہولیات کے حامل بلجیم کے ہسپتالوں میں سینکڑوں بالغ و نابالغ مریض ایسے ہیں جن کو لیوکیمیا، ایڈز، کینسر اور دیگر بیماریاں لاحق ہیں۔ جبکہ بالغ افراد نسیان، پارکنسن، ہڈیوں کے مسائل اور رعشے کے مختلف عوارض میں مبتلا ہیں۔ ان کی بیماریاں طویل ہو چکی ہیں اور وہ بستر مرگ پر موجود ہیں۔ اگرچہ ان بیمار افراد کے لواحقین چاہتے ہیں کہ ان کے مریض صحت یاب ہو جائیں، لیکن طبی معالج انہیں لاعلاج قرار دے کر چاہتے ہیں کہ بیماروں کے لواحقین اور نفسیاتی ماہرین اپنے مریض کے قتل کی اجازت دیں، تاکہ ان کے مریضوں کو طویل بیماریوں سے نجات دلائی جا سکے۔ نئے قانون کے تحت کسی بھی بیمار بچے یا مریض کا قتل طبی ماہرین کی ایک کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں کیا جائے گا۔ اس حوالے سے بیمار بچے کے والدین، نفسیاتی ماہرین اور طبی معالجوں کا تصدیق نامہ درکار ہوگا، جو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے گا۔ یونیورسٹی ہسپتال برسلز کے ایک سنیئر ماہر امراض اطفال کا کہنا ہے کہ ہماری اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ بچوں کو بہترین ٹریٹمنٹ دے کر ان کی صحت بحال کی جائے۔ لیکن ہر 100 میں سے دو چار بچے ایسے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں، جو انتہائی پیچیدہ اور تکلیف کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس لئے ہم ان بچوں کو ختم کرنے کے لیے ان کی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ایک طرح سے یہ ان کی زندگی کا نہیں بلکہ ان کی تکلیف کا خاتمہ ہوتا ہے۔ یقیناً یہ انسان دوستی کا عمل ہے۔ جس کو قانون کی شکل دے دی گئی ہے۔

No comments.

Leave a Reply