ایک آزاد ایران کی خارجہ پالیسی

انیس سو اناسی کے انقلاب کے بعد سے اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی ایک نظریے کے تحت وضع کی گئی ہے جس کا مقصد انقلاب کو فروغ دینا اور مشرقِ اوسط کو تبدیل کرنا ہے۔

انیس سو اناسی کے انقلاب کے بعد سے اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی ایک نظریے کے تحت وضع کی گئی ہے جس کا مقصد انقلاب کو فروغ دینا اور مشرقِ اوسط کو تبدیل کرنا ہے۔

نیوز ٹائم

انیس سو اناسی کے انقلاب کے بعد سے اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی ایک نظریے کے تحت وضع کی گئی ہے جس کا مقصد انقلاب کو فروغ دینا اور مشرقِ اوسط کو تبدیل کرنا ہے۔ اسلامی رجیم کے تحت ایران، امریکا سے جنگ آزما ہے، اس نے اسرائیل اور عرب دنیا سے محاذ آرائی کی ہے۔ اس نظام نے ایران کے قومی مفاد اور ایرانی عوام کے عمومی مفادات کی مخالفت کی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ممکن ہے عراق، شام اور لبنان میں ایک بالادست قوت بن چکا ہو لیکن ایران خود عشروں سے جاری ان پالیسیوں کی وجہ سے تباہ حال ہو چکا ہے۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں اس کو بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا سامنا ہے اور وہ اقتصادی اور ماحولیاتی طور پر زبوں حال ہو چکا ہے۔

رجیم کے کردار کے ردعمل میں عائد ہونے والی پابندیوں کے نتیجے میں ایران اپنی توانائی کی صنعت کو جدید نہیں بنا سکتا ہے اور وہ اپنا تیل بھی فروخت نہیں کر سکتا۔  ایران کرہ ارض پر امیر ترین ملک بن سکتا ہے مگر اس صلاحیت کے باوجود اس کو پانی اور خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ ایرانی بھوکے پیاسے مر رہے ہیں اور آیت اللہ علی خامنہ ای کا نظام شام، عراق اور یمن میں جنگوں پر اربوں ڈالرز لٹا رہا ہے  مگر ان سے ایرانی عوام کے مفادات کا کوئی تحفظ بھی نہیں ہو رہا ہے۔ تاہم ایرانی توسیع پسندانہ عزائم کے حامل اس انقلابی نظام کے تحت نہیں رہنا چاہتے ہیں۔ ایک سال سے زیادہ عرصے سے ایرانی شہری شاہراہوں پر نظام کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں  اور وہ شام، لبنان، غزہ اور اس سے ماورا علاقوں میں اسلامی جمہوریہ کی مہنگی مداخلت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ یہ نعرے بلند کرتے سنائی دیتے ہیں: میری زندگی ایران کے لیے ہے، شام اور لبنان کے لیے نہیں۔ ان کا ایک اور مقبول نعرہ یہ ہے: حقیقی دشمن تو یہاں ایران میں ہے، وہ جھوٹ بولتے ہیں جب یہ کہتے ہیں کہ یہ امریکا ہے۔

ملک گیر سول نافرمانی کی اس تحریک کو اگر عالمی حمایت حاصل ہو جاتی تو اس کے زیادہ بہتر نتائج برآمد ہو سکتے تھے۔ بالکل اسی طرح جس طرح وینزویلا میں صدر Nicolás Maduro کے خلاف تحریک کو امریکا اور دوسرے ممالک کی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ ایسی حمایت ایرانیوں کو بھی حاصل ہونی چاہیے تھی۔ ایرانی اب زیادہ دیر تک جعلی قسم کی اصلاحات قبول کرنے کو تیار نہیں۔ وہ مصنوعی قسم کی سفارتی سرگرمیوں کو بھی نہیں چاہتے جن کی بدولت رجیم کو اپنے اقتدار کو طول دینے کا جواز ملتا ہے۔ وہ اپنے مفادات کے منافی کام کرنے والے سیاسی نظام کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایرانی عوام نظام پر اپنے عدم اعتماد کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور یہ اقتصادی طور پر نڈھال ہو چکا ہے۔ ایسے میں ملک کی اشرافیہ بشمول Khomeini اور Rafsanjani قبائل کے ارکان رجیم کے دھڑن تختے کی باتیں کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ دھڑن تختہ ایرانی عوام کے ہاتھوں ہی ہو گا۔ اس ایرانی اشرافیہ کی اکثریت نے پیش بندی کے طور پر اپنی دولت اور خاندانوں کو بیرون ملک منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایران کو اگر اسلامی جمہوری رجیم کی گرفت سے آزاد کرا لیا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف اس کی ایک کامیاب قوم کے طور پر دیکھی جا سکتی ہے بلکہ اس کے امریکا، اسرائیل اور بیشتر عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی ڈرامائی تبدیلی رونما ہو سکتا ہے۔

ایران کو کامیابی کے لیے اپنے انقلابی نظریے کو دفن کرنا ہو گا اور اس کے بجائے ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونا ہو گا جن میں اقتصادی ترقی، غیر ملکی سرمایہ کاری، ماحول کے تحفظ، ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن پر توجہ مرکوز کی گئی ہو اور ایک حقیقی دفاعی خارجہ پالیسی اختیار کرنا ہو گا۔ ایک آزاد اور جمہوری ایران، اسرائیل سمیت متعدد اقوام کے ساتھ خطرناک دشمنی جاری رکھ کر کوئی مفاد حاصل نہیں کر سکے گا۔ ایران اور دوسرے ممالک ایک دوسرے کے ساتھ باہمی مفاد کے لیے مختلف شعبوں میں تعاون کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ایران کے ساتھ پانی کے بحران اور انتہاپسندی سے نمٹنے کے لیے تعاون کر سکتے ہیں۔

پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایران کو فرقہ وار بنیاد پر قائم حزب اللہ ایسے انقلابی گروپوں کی حمایت سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ دراصل یہ لبنانی گروپ شام اور لبنان میں اسلامی جمہوریہ ہی کی توسیع ہے۔اگر ایرانی اپنے وطن کو خامنہ ای سے آزاد کراتے ہیں تو انھیں خطے میں رجیم کے آلہ کاروں سے بھی خود کو آزاد کرانا ہو گا۔ ایک آزاد ایران کو اسد رجیم یا عراق میں بالادست قوت کی حیثیت کی حامل شیعہ ملیشیائوں یا متشدد فلسطینی گروپوں سے کچھ سروکار نہیں ہو گا۔ ایران اگر انقلابی نظریے اور اپنی علاقائی گماشتہ تنظیموں سے دستبردار ہو جاتا ہے تو اس کے سعودی عرب اور دوسری عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں ڈرامائی انداز میں بہتری آ سکتی ہے۔

ایرانیوں اور عربوں کے درمیان مخاصمت چلی آرہی ہے لیکن موجودہ خطرناک مخاصمت کو اسلامی جمہوریہ کے انقلابی ایجنڈے سے مہمیز ملی تھی۔ایران، عرب تعلقات کھلی مارکیٹوں، تجارت، سرمایہ کاری اور تعاون پر مبنی ہونے چاہییں اور انھیں خطے کو اقتصادی بحران سے بچانے کے لیے باہمی تعاون کرنا چاہیے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایران اس سے کمزور ہو جائے گا یا وہ اپنا دفاع نہیں کر سکے گا۔ ایران جب اقتصادی طور پر مضبوط ہو گا تو وہ اپنی تباہ شدہ روایتی فوجی قوت کی تعمیرنو کر سکے گا اور وہ 1960ء اور 1970ء کے عشروں میں امریکا سے خرید کردہ اپنے فوجی آلات کو بھی تبدیل کر سکے گا۔ تاہم اس بات کا تو کوئی جواز نہیں کہ ایران کسی قابل اعتبار خطرے کی عدم موجودگی کے باوجود وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے حصول کے لیے کوشاں ہو۔ ایرانیوں کو ملک کے جوہری پروگرام کی اربوں ڈالرز کی صورت میں قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔انھیں پابندیوں اور ایران کی بین الاقوامی تنہائی کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔

ایران، مشرقِ اوسط میں ہمیشہ ایک بڑی قوت رہے گا۔ اس کی تاریخ، حجم اور اقتصادی صلاحیت اس کو ایک اہم علاقائی اور شائد عالمی کھلاڑی بناتے ہیں۔ ایران اور اس کے ہمسایہ ممالک کا ہر بات پر اتفاق نہیں ہو سکتا لیکن ان میں باہمی تعاون اور مسابقت کو پرامن انداز میں اور ایرانی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے فروغ دیا جا سکتا ہے۔ صرف اسلامی جمہوریہ سے آزادی کی صورت ہی میں ایک پرامن اور خوش حال ایران کو حقیقت کا روپ دیا جا سکتا ہے۔

No comments.

Leave a Reply