کے خلاف گھر گھر تلاشی مہم Christian militia’s میں Bangui

وسطی افریقی جمہوریہ میں Christian militias کو غیر مسلح کرنے کے سلسلے میں بین الاقوامی امن دستوں نے گھر گھر تلاشی کا عمل شروع کر دیا

وسطی افریقی جمہوریہ میں Christian militias کو غیر مسلح کرنے کے سلسلے میں بین الاقوامی امن دستوں نے گھر گھر تلاشی کا عمل شروع کر دیا

بنگوئی ۔۔۔ نیوز ٹائم

شورش زدہ افریقی ملک وسطی افریقی جمہوریہ میں Christian militias کو غیر مسلح کرنے کے سلسلے میں بین الاقوامی امن دستوں نے گھر گھر تلاشی کا عمل شروع کر دیا ہے۔ درالحکومت Bangui میں بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد کر لیا گیا ہے۔ Bangui شہر میں شروع کئے گئے آپریشن میں بین الاقوامی امن دستے کے 250 ارکان مقامی پولیس کی بھاری نفری میں شامل ہے۔  Christian militias سے اسلحہ کو حاصل کرنے کا بنیادی مقصد وسطی افریقی جمہوریہ کی مسلم اقلیت کو محفوظ کرنا ہے۔  Christian militias کی پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں لاکھوں مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ Bangui کے وہ حصے جہاں مسلمان آباد تھے، اب ویران ہو چکے ہیں۔ ہفتے کے روز بین الاقوامی امن دستوں اور پولیس نے Bangui شہر کے نواحی علاقے میں گھر گھر تلاشی کا عمل جاری رکھا۔ Boy Rabe، Christian militias کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے، جہاں سے مسلح افراد مسلم بستیوں پر حملے کرنے کے بعد واپس آکر پناہ لیتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اسی بستی سے Christian militias کے جنگجو نکل کر Bangui شہر کی مسلمان آبادی پر حملے کرنے کے علاوہ گھروں میں لوٹ مار اور آگ لگانے کی وارداتیں کرتے رہے ہیں۔ حکام کے مطابق Boy Rabe میں چار گھنٹے تک گھر گھر تلاشی کی جاتی رہی۔ وسطی افریقی جمہوریہ کے اٹارنی جنرل Ghislain Grezenguet نے کہا کہ گھر گھر تلاشی کے دوران خود کار ہتھیاروں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ہینڈ گرینیڈز اور بڑی مقدار میں دوسرے بارودی مواد پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل کے مطابق تلاشی کے عمل میں ایک درجن سے زائد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔ دوسری جانب افریقی یونین کے MISCA مشن کا کہنا ہے کہ جن افراد کے گھر سے اسلحہ برآمد ہوا ہے، ان کے نام اور شناخت کو محفوظ کرلیا گیا ہے۔ مشن کے مطابق اب Bangui پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان افراد کو باقاعدہ طور پر گرفتار کرے۔ ہفتے کے روز بین الاقوامی امن دستے اور مقامی پولیس، Christian militias کے اہم لیڈر Patrice Edouard Ngaissona کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔ Ngaissona خود کو anti-balaka کے جنگجو گروپ کا قائد قرار دیتا ہے۔ اس کے گھر کو پندرہ منٹ تک دستوں نے گھیرے میں لیے رکھا لیکن فائرنگ اور دستی بموں کے دھماکوں کے بعد معلوم ہوا کہ وہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ Patrice Edouard Ngaissona نے بعد میں اپنے بیان میں کہا کہ پولیس اور دوسرے فوجی اسے گرفتار کرنے میں ناکام رہے اور وہ بچ نکلنے میں کامیاب رہا۔ اٹارنی جنرل Ghislain Grezenguet کا کہنا ہے کہ Patrice Edouard Ngaissona کی گرفتاری بہت اہم ہے۔ جب امن دستے Boy Rabe کی تلاشی مکمل کر کے روانہ ہوئے تو مقامی عیسائی آبادی نے مذاق اڑانے کے علاوہ ان پر آوازیں بھی کسیں۔ وسطی افریقی جمہوریہ کی اکثریتی آبادی عیسائی ہے اور ان کے سرگرم افراد نے Seleka مسلمانوں کے خلاف anti-balaka کی فوج قائم کر رکھی ہے۔ حالیہ ہفتوں کے دوران فرانسیسی فوج نے Seleka مسلمانوں کو غیر مسلح تو کردیا تھا لیکن Christian militias کو غیر مسلح کرنے کا عمل مکمل نہیں ہوسکا، جو خطرناک ثابت ہوا۔ بعد میں Christian militias گروپ نے مسلمانوں پر انتہائی ظالمانہ حملوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ مسلم Seleka نے مارچ 2013ء میں وسطی افریقی جمہوریہ میں حکومت بھی قائم کرلی تھی۔ وسطی افریقی جمہوریہ کی عبوری صدر Catherine Samba-Panza نے Christian militias کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔ ادھر فرانسیسی وزیر دفاع Le Drian کا کہنا ہے کہ وسطی افریقی جمہوریہ میں مذہبی منافرت کے عمل کو ختم کرنے میں معمول سے زیادہ وقت درکار ہوگا۔

No comments.

Leave a Reply