بھارتی انتخابات کے وہ حقائق جنہیں آپ ضرور جاننا چاہیں گے، انتخابات 11 اپریل سے شروع

اگلے وزیر اعظم کے لیے نریندر مودی اور راہول گاندھی کے درمیان مقابلہ ہو گا فائل فوٹو:

اگلے وزیر اعظم کے لیے نریندر مودی اور راہول گاندھی کے درمیان مقابلہ ہو گا فائل فوٹو:

نیوز ٹائم

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت میں رواں ماہ 11 اپریل سے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کے انتخابات کا آغاز ہو گا۔ اس مرتبہ 90 کروڑ سے زائد افراد 17ویں لوک سبھا کے لیے 543 اراکین کا انتخاب، 7 مراحل میں کریں گے۔ نئے منتخب ہونے والے لوک سبھا کے ارکان بھارت کی ریاستوں اور وفاقی حکومت کے زیر انتطام علاقوں سے منتخب کیے جائیں گے۔ لوک سبھا کے 543 ارکان عوامی ووٹوں سے منتخب ہو کر ایوان میں پہنچتے ہیں جبکہ 2 ارکان کو صدر مملکت اس وقت اسمبلی میں منتخب کر کے بھیجتا ہے  جب انہیں احساس ہو کہ Anglo-Indian community کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں۔ صدر مملکت کی جانب سے منتخب کیے جانے والے ارکان کا Anglo-Indian ہونا لازمی ہوتا ہے  یعنی یہ ارکان ہندوستانی، مغربی اور خصوصی طور پر انگریز نسل کا امتزاج ہوتے ہیں،  اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر افراد Kolkata اور Shimla میں آباد ہیں۔

17ویں لوک سبھا کے 7 مراحل اور تقریباً پونے 2 ماہ تک جاری رہنے والے انتخابات کے لیے ووٹنگ کے ابتدائی 4 مراحل اپریل میں ہوں گے  جبکہ آخری 3 مراحل مئی میں ہوں گے اور اسی ماہ انتخابی نتائج کا اعلان بھی ہو گا۔ بھارت میں ووٹنگ کا پہلا مرحلہ 11 اپریل کو ہو گا، دوسرا 18 اپریل، تیسرا 23 اپریل، چوتھا 29 اپریل، پانچواں 6 مئی، چھٹا 12 مئی اور ساتواں 19 مئی کو ہو گا۔بھارتی الیکشن کمیشن کے مطابق مجموعی طور پر 90 کروڑ ووٹرز اس مرتبہ حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔  لوک سبھا کے انتخابات بھارت کی 29 ریاستوں سمیت 7 وفاقی حکومت کے ماتحت علاقوں اور ہندوستان کے زیر تسلط رہنے والے جموں و کشمیر میں ہوں گے۔ انتخابات کے دوران اگرچہ کچھ ریاستوں کے ایک ہی دن تمام حلقوں پر پولنگ بھی ہو گی، تاہم کئی ایسی ریاستیں ہیں جہاں پر ساتوں مراحل میں ووٹنگ ہو گی۔ ایک ہی ریاست کے اندر حلقوں کی مختلف مراحل میں ووٹنگ سے جہاں وہاں کے عوام پریشان دکھائی دے رہے ہیں، وہیں انتخابات کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

بھارت کی بڑی ریاستوں Uttar Pradesh ، Bahar ، Assam اور West Bengal سمیت کئی ایسی ریاستیں ہیں جہاں ساتوں مراحل میں انتخابات ہوں گے اور ہر مرحلے میں ریاست کی 5 سے 10 نشستوں پر پولنگ ہو گی۔اس مرتبہ انتخابات میں بھارت کی 2 ہزار سیاسی جماعتوں کے 8 ہزار 136 ارکان میدان میں اتریں گے۔ لیکن 8 ہزار 136 ارکان میں سے خواتین ارکان کی تعداد 700 سے بھی کم ہو گی۔ اس مرتبہ لوک سبھا کے انتخابات کے لیے مجموعی طور پر 636 خواتین ارکان میدان میں اتریں گی، جس میں سے حیران کن طور پر چھوٹی جماعتوں اور چھوٹی ریاستوں سے زیادہ خواتین انتخابی دنگل لڑتی دکھائی دیں گی۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق اس مرتبہ انتخابات کے لیے 10 لاکھ سے زائد پولنگ اسٹیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ انتخابات کے دوران 11 لاکھ سے زائد ووٹنگ الیکٹرانک مشینوں کا استعمال کیا جائے گا۔ الیکشن کے عمل کو سرانجام دینے کے لیے انتخابی عملہ ہیلی کاپٹر، ٹرینوں، کوچز، کاروں، Buses ، گھوڑوں، ہاتھیوں اور کشتیوں کے استعمال سمیت پیدل بھی سفر کرے گا۔ بھارت کے کئی دور دراز علاقے ایسے ہیں جہاں پر کوئی بس سروس موجود نہیں، اس لیے وہاں انتخابی عملے کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے پہنچایا جائے گا۔ بھارت کے بعض دور دراز علاقے ایسے بھی ہیں جہاں ہیلی کاپٹرز کے لیے موسم موزوں نہیں ہوتا اور نہ ہی ایسے علاقوں میں سڑکوں کا انفرا اسٹرکچر موجود ہوتا ہے، ایسے علاقے جنگلات اور دریائوں کے گرد ہوتے ہیں، اس لیے ایسے علاقوں میں انتخابی عملے کو کشتیوں اور دریا کے راستے انتخابی حلقوں میں پہنچایا جائے گا۔ بعض حلقوں تک پہنچنے کے لیے انتخابی عملہ گھوڑوں اور ہاتھیوں کو بھی سواری کے لیے استعمال کرے گا۔ بھارت کے انتخابات کو دنیا کا سب سے بڑا انتخابی دنگل بھی مانا جاتا ہے کیونکہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 90 کروڑ افراد ووٹ دینے کے اہل ہیں۔

الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق 2014 ء کے لوک سبھا انتخابات کے بعد مجموعی طور پر 13 کروڑ ووٹرز کا اضافہ ہوا، جس میں سے 9 کروڑ ووٹرز آخری 3 سال میں رجسٹر ہوئے۔ مجموعی طور پر اس مرتبہ لوک سبھا کے انتخابات میں 13 کروڑ ووٹرز پہلی مرتبہ حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ان ووٹرز کی عمریں 18 سے 20 سال کے درمیان ہیں اور مجموعی طور پر بھارت کی 2 تہائی آبادی 35 برس سے کم عمر ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ووٹر فہرست سے 2 کروڑ سے زائد خواتین کے نام غائب ہیں، یوں اب الیکشن کمیشن کی فہرست میں موجود 41 کروڑ خواتین ووٹ دیں گی۔

بھارت کی 2011 ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق خواتین کی آبادی 58 کروڑ سے زائد ہے جس میں سے 43 کروڑ خواتین رجسٹر ووٹر ہیں،  تاہم رجسٹر ووٹرز خواتین کی فہرست میں سے 2 کروڑ خواتین کے نام غائب ہیں۔ رپورٹس کے مطابق جن خواتین کے نام ووٹرز فہرست سے غائب ہیں ان کی عمریں 18 سے 35 برس کے درمیان ہیں اور ان میں سے زیادہ تر غیر شادی شدہ خواتین ہیں جن پر اہلخانہ کی جانب سے کئی پابندیاں ہونے کا خیال ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس مرتبہ لوک سبھا کے انتخابات میں خواتین کے ووٹ کو انتہائی اہم اور حالات کو بدلنے والا سمجھا جا رہا ہے،  الیکشن کمیشن کے مطابق اس مرتبہ تقریباً 4 کروڑ خواتین پہلی مرتبہ اپنا حق رائی دہی استعمال کریں گی۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق بھارت کی 68 فیصد خواتین ملکی سیاست میں مردوں کی طرح دلچسپی رکھنے اور اس میں کردار ادا کرنے کی خواہاں ہیں۔ سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 20 فیصد خواتین کو اہلخانہ کی جانب سے سیاست میں دلچسپی لینے یا اس میں کردار ادا کرنے سے روکا جاتا ہے۔ اسی طرح 65 فیصد خواتین نے اس خیال کو بھی مسترد کیا کہ مرد سیاست میں خواتین سے بہتر ہوتے ہیں۔ اگرچہ بھارت میں خواتین کے ووٹ کو اہمیت دی جا رہی ہے تاہم ان کے ساتھ گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاست اور حق رائے دہی میں ناروا سلوک پر اس مرتبہ عوام میں کھل کر بحث بھی ہونے لگی ہے اور یہ آوازیں بھی آنے لگیں ہیں کہ خواتین کے لیے لوک سبھا میں خصوصی نشستوں کا کوٹا ہونا چاہیے۔

بھارت کی 2011 ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی مجموعی آبادی ایک ارب 21 کروڑ 5 لاکھ 69 ہزار 573 تھی جس میں سے 62 کروڑ 31 لاکھ 12 ہزار 843 مرد اور 58 کروڑ 74 لاکھ 47 ہزار 730 خواتین تھیں۔ جہاں بھارت کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ خواتین والے ممالک میں ہوتا ہے، وہیں وہاں خواتین کو انتخابات یا حکومت میں سب سے کم نمائندگی دی جاتی ہے۔ اس مرتبہ بھی بھارت کی سب سے بڑی جماعتوں بھارتی جنتا پارٹی (بی جی پی) اور کانگریس جیسی جماعتوں نے خواتین کو کم اہمیت دی ہے۔ بھارت میں 2014 ء کے لوک سبھا انتخابات میں 543 امیدواروں میں سے صرف 69 خواتین امیدوار منتخب ہوئی تھیں جس میں سے سب زیادہ 31 خواتین ارکان کا تعلق حکمران جماعت بی جے پی سے تھا۔ دوسرے نمبر پر All India Trinamool Congress (اے آئی ٹی سی) کی خواتین ارکان تھیں جن کی تعداد 12 تھی جبکہ سیکولر جماعت تصور کی جانے والی کانگریس کی خواتین ارکان کی تعداد 4 تھی۔ اس مرتبہ صرف All India Trinamool Congress وہ واحد جماعت ہے جس نے 40 فیصد خواتین امیدوار میدان میں اتارنے کا اعلان کیا ہے۔

کس مرحلے میں کتنے حلقوں پر انتخابات ہوں گے:

لوک سبھا کے انتخابات 7 مرحلوں میں ہوں گے اور پہلا مرحلہ 11 اپریل کو شروع ہو گا لیکن سب سے زیادہ حلقوں پر انتخابات تیسرے مرحلے میں ہوں گے۔ 11 اپریل کو پہلے مرحلے میں مجموعی طور پر 91 حلقوں پر انتخابات ہوں گے۔ 18 اپریل کو دوسرے مرحلے میں 97 ارکان کا چنائو ہو گا۔ 23 اپریل کو تیسرے مرحلے میں سب سے زیادہ 115 حلقوں پر انتخابات ہوں گے۔ چوتھے مرحلے میں 29 اپریل کو 71 لوک سبھا ارکان کے لیے ووٹنگ ہو گی۔ 5ویں مرحلے میں 6 مئی کو سب سے کم 51 حلقوں سے ارکان منتخب کیے جائیں گے۔ 6ویں مرحلے میں 12 مئی کو 59 نشستوں کے لیے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ آخری اور 7ویں مرحلے میں 19 مئی کو بھی 59 حلقوں میں انتخابات ہوں گے۔

کس ریاست میں کتنے انتخابی حلقے ہیں؟:

آبادی کے لحاظ سے بھارت کے سب سے بڑی ریاست Uttar Pradesh میں سب سے زیادہ 80 نشستیں ہیں، اس ریاست کی آبادی 20 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ انتخابی حلقوں اور آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر State Maharashtra ہے، جہاں 48 نشستیں ہیں اور اس کی آبادی 11 کروڑ سے زائد ہے۔ آبادی کے لحاظ سے تیسری بڑی ریاست Bahar ہے جہاں کی آبادی 10 کروڑ سے زائد ہے، مگر وہاں انتخابی حلقے ان سے چھوٹی ریاست آندھرا پردیش سے بھی کم ہیں۔  Bahar میں 40 نشستیں ہیں جبکہ Andhra Pradesh میں 42 نشستیں ہیں اور وہاں کی آبادی 5 کروڑ کے قریب ہے۔ اسی طرح West Bengal میں بھی 42 نشستیں ہیں اور وہ آبادی کے لحاظ سے چوتھی بڑی ریاست ہے، وہاں کی آبادی 9 کروڑ سے زائد ہے۔ ان ریاستوں کے بعد نشستوں کے حوالے سے سب سے بڑی State Tamil Nadu ہے، جہاں سے 39 لوک سبھا ارکان کا انتخاب ہو گا اور یہاں کی آبادی 7 کروڑ سے زائد ہے۔ Arunachal Pradesh ، Goa ، Meghalaya ، Manipur اور Tripura ایسی ریاستیں ہیں جہاں سے ترتیب وار 2 لوک سبھا ارکان کا انتخاب ہو گا جبکہ Mizoram ، Nagaland اور Skim ایسی ریاستیں ہیں جہاں سے ایک، ایک رکن منتخب ہو گا۔ بھارت کی وفاقی حکومت کے ماتحت علاقوں سے ترتیب وار ایک جبکہ دہلی سے 7 ارکان منتخب ہوں گے۔ بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر سے 6 لوک سبھا ارکان کا انتخاب ہو گا۔

لوک سبھا کے 17 ویں انتخابات میں یوں تو چند دیگر وزرائے اعظم کے امیدوار بھی میدان میں اتریں گے تاہم سخت مقابلہ بی جے پی کے نریندر مودی اور کانگریس کے Rahul Gandhi کے درمیان ہو گا۔ کسی بھی امیدوار کو وزیر اعظم بننے کے لیے پہلے لوک سبھا کا انتخاب جیتنا پڑے گا جس کے بعد اسے نومنتخت ارکان کے ووٹوں کے ذریعے منتخب کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کے لیے امیدوار کو 272 ووٹوں کی ضرورت پڑتی ہے اور 2014 ء میں نریندر مودی اتحادی جماعت کی حمایت کے ساتھ 282 ووٹ لے کر وزیر اعظم بنے تھے۔ نریندر مودی کی وزارت عظمی کی مدت رواں برس 31 مئی تک رہے گی اور وہ انتخابات کے دوران اور انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد بھی بھارت کے وزیر اعظم رہیں گے، وہ بھارت کے 17 ویں وزیر اعظم ہیں اس مرتبہ خیال کیا جا رہا ہے کہ ووٹرز کا Turnout ماضی کے مقابلے زیادہ رہے گا اور اس مرتبہ زیادہ سے زیادہ لوگ ووٹ کاسٹ کریں گے۔ گزشتہ انتخابات میں 80 کروڑ کے لگ بھگ ووٹرز میں سے 20 کروڑ سے زائد ووٹرز نے ووٹ کاسٹ ہی نہیں کیا تھا۔ گزشتہ انتخابات میں ووٹ نہ دینے والے افراد مجموعی طور پر حکومت بنانے والی پارٹی بی جے پی کو ووٹ دینے والے افراد سے بھی زیادہ تھے۔ بی جے پی نے 17 کروڑ سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ کانگریس محض 10 کروڑ ووٹ ہی حاصل کر پائی تھی۔ نریندر مودی اس مرتبہ ریاست Uttar Pradeshکے شہر Varanasi (بنارس) کے حلقے سے لوک سبھا کا انتخاب لڑیں گے۔ دوسری جانب کانگریس کے صدر اور وزیر اعظم کے دوسرے مضبوط امیدوار Rahul Gandhi 2 حلقوں سے میدان میں اتریں گے، Rahul Gandhi ریاست  Kerala  کے ضلع Wayanad اور ریاست Uttar Pradeshکے ضلع Amethi سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔

لوک سبھا کے اب تک ہونے والے انتخابات:

بھارت کے ایوان زیریں کے پہلے انتخابات اپریل 1952ء سے مئی 1952ء تک جاری رہے اور پہلے انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) نے کامیابی حاصل کی اور Jawahar Lal Nehru وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ دوسرے انتخابات بھی ٹھیک 5 سال بعد ان ہی مہینوں میں 1957ء میں ہوئے اور ایک مرتبہ پھر کانگریس نے کامیابی حاصل کی اور Jawahar Lal Nehru ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم بنے۔ لوک سبھا کے تیسرے انتخابات 5 سال بعد مئی اور اپریل 1962ء میں ہوئے اور ایک مرتبہ پھر کانگریس کو فتح حاصل ہوئی اور Jawahar Lal Nehru وزیر اعظم بنے، تاہم 1964ء میں ان کے موت کے بعد Gulzari Lal Nanda caretaker وزیر اعظم بنے، وہ Nehru کی حکومت میں وفاقی وزیر تھے۔ بعد ازاں Gulzari Lal Nanda کو کانگریس کی قیادت نے جون 1964ء میں ہٹا کر Lal Bahadur Shastri کو وزیر اعظم بنایا، تاہم وہ بھی 1966 میں چل بسے اور ایک مرتبہ پھر کانگریس قیادت نے Gulzari Lal Nanda کو وزارت عظمی کی ذمہ داری سونپی گئی۔

چوتھے انتخابات مارچ اور اپریل 1967ء میں منعقد ہوئے اور اس مرتبہ کانگریس کو کئی سیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑا  لیکن پھر بھی وہ اتحادی جماعتوں کی مدد سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی اور Satya Narine Sinha وزیر اعظم بنے۔ 5ویں لوک سبھا کے انتخابات مارچ اور اپریل 1971ء میں ہوئے اور اس مرتبہ Indra Gandhi نے کانگریس کی کھوئی ہوئی مقبولیت کو پھر سے حاصل کیا اور اکثریت سے مضبوط وزیر اعظم بنیں، وہ بھارت کی پہلی اور اب تک کی واحد خاتون وزیر اعظم بھی ہیں۔

لوک سبھا کے چھٹے انتخابات مارچ اور اپریل 1977 ء میں ایک ایسے وقت میں ہوئے جب وزیر اعظم Indra Gandhi نے 1975ء میں سول ایمرجنسی نافذ کر رکھی تھی اور ان کی پارٹی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی،  انتخابات کے دوران ان کی پارٹی سے ہی جدا ہونے والے Morarji Desai جنتا پارٹی کے تحت وزیر اعظم بنے، تاہم انہوں نے پارٹی کی خواہش پر 1979ء میں وزارت عظمی سے استعفی دیا اور بعد میں Charan Singh وزیر اعظم بنے۔ لوک سبھا کے 7ویں انتخابات 1980ء میں کرائے گئے اور Indra Gandhi دوسری مدت کے لیے وزیر اعظم بنیں، تاہم اکتوبر 1984ء میں انہیں قتل کر دیا گیا اور ان کی ہلاکت کے بعد ان کے بیٹے Rajiv Gandhi نے وزارت عظمی کا قلمدان سنبھالا۔ لوک سبھا کے 8ویں  انتخابات دسمبر 1984ء میں کرائے گئے اور ایک مرتبہ پھر کانگریس کی جیت ہوئی اور Rajiv Gandhi وزیر اعظم بنے۔

9ویں لوک سبھا انتخابات 1989 ء میں کرائے گئے اور ان میں بھی کانگریس کو کامیابی ملی اور Rajiv Gandhi ایک بار پھر وزیر اعظم بنے،  تاہم اسی سال انہیں برطرف ہونا پڑا اور Vishwanath Pratap Singh وزیر اعظم بنے۔ لوک سبھا کے 10ویں انتخابات 1991ء میں ہوئے اور انتخابی مہم کے دوران Rajiv Gandhi کو ایک خود کش حملے میں قتل کر دیا گیا، انہیں ووٹ کاسٹ کرنے کے ایک دن بعد قتل کیا گیا تاہم الیکشن ملتوی نہیں ہوئے اور ملکی حالات کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے کانگریس اور Janata Dal party نے کمزور اتحادی حکومت بنائی اور Chandra Shekhar وزیر اعظم بنائے گئے۔

Chandra Shekhar کے بعد کچھ دنوں کے لیے Arjun Singh کو وزیر اعظم بنایا گیا اور بعد ازاں Narasimha Rao کو جون 1991 ء میں وزیر اعظم بنایا گیا اور وہ گاندھی خاندان کے بعد پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور وہ 1996 تک وزارت عظمی کے عہدے پر رہے،  ان کی دور حکومت میں بابری مسجد کو شہید کرنے کا سانحہ بھی پیش آیا۔ لوک سبھا کے 11 ویں انتخابات 1996 ء کو ہوئے اور ایک مرتبہ پھر پہلے Narasimha Rao وزیر اعظم منتخب ہوئے، جس کے بعد Ram Villas Paswan اور بعد ازاں Atal Bihari Vajpayee وزیر اعظم بنے۔ Atal Bihari Vajpayee کو بھی جون کے بعد ہٹا دیا گیا اور H. D. Deve Gowda کو وزیر اعظم بنایا گیا، ان کے وزیر اعظم بننے کو بھارتی سیاست میں معجزاتی وزیر اعظم بھی کہا جاتا ہے۔

H. D. Deve Gowda کے بعد 1997ء میں Indra Kumar (آئی کے) Gujral بھارت کے وزیر اعظم بنے اور وہ 1998 ء تک اس عہدے پر براجمان رہے۔ 12ویں لوک سبھا انتخابات 1998ء میں ہوئے اور بھارتی جنتا پارٹی کے Atal Bihari Vajpayee وزیر اعظم بنے۔ لوک سبھا کے13ویں انتخابات اکتوبر 1999ء میں ہوئے اور ایک مرتبہ پھر Atal Bihari Vajpayee وزیر اعظم بنے۔ لوک سبھا کے 14 ویں انتخابات 2004 ء میں ہوئے، جس میں کانگریس نے کامیابی حاصل کی اور Manmohan Singh وزیر اعظم بنے۔ لوک سبھا کے 15 ویں انتخابات 2009 ء میں ہوئے اور ایک مرتبہ پھر Manmohan Singh وزیر اعظم بنے۔ لوک سبھا کے 16 ویں انتخابات 2014 ء میں ہوئے اور حیران کن طور پر بی جے پی نے اکثریت حاصل کی اور Narendra Modi پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے۔ لوک سبھا کے 17 ویں انتخابات 11 اپریل سے 19 مئی 2019 ء تک جاری رہیں گے، 23 مئی کو ووٹوں کی گنتی ہو گی اور جون میں نئی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

No comments.

Leave a Reply