مولانا فضل الرحمن کی حکومت مخالفت تحریک

مولانا فضل الرحمن کی آصف زرداری سے ملاقات

مولانا فضل الرحمن کی آصف زرداری سے ملاقات

 نیوز ٹائم

بہت سال پہلے Atta-ul- Haq Qasimi نے مولانا فضل الرحمن کو اپنے ایک کالم میں مولانا ڈیزل لکھا  تو سیاسی مخالفین نے اچھل اچھل کر، کبھی لہرا کر اور کبھی بل کھا کر مولانا ڈیزل کی اصطلاح کو طعنے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا فضل الرحمن کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کا چیئرمین بنا رکھا تھا اور نواز شریف اس حکومت کے خلاف تحریک نجات چلانے میں مصروف تھے۔ اس تحریک نجات میں شیخ رشید احمد نے مولانا ڈیزل کے طعنے کا خوب استعمال کیا اور مسلم لیگیوں نے دل کھول کر مولانا کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالی کیونکہ مولانا نے ماضی کے کچھ تلخ تجربات کی روشنی میں نواز شریف کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ڈیزل کا پروپیگنڈا اتنا زیادہ بڑھ گیا کہ مولانا فضل الرحمن کے کچھ قریبی ساتھی بھی پریشان ہو گئے۔  ایک دن Mufti Nizamuddin Shamzai صاحب نے پوچھا کہ یہ ڈیزل کا کیا چکر ہے؟ پہلے تو میں ہنس دیا پھر کہا کہ آپ مولانا کے زیادہ قریب ہیں خود ہی پوچھ لیجئے کہ ڈیزل کا کیا چکر ہے؟ یہ سن کر Mufti Nizamuddin Shamzai صاحب نے قدرے تلخ لہجے میں کہا کہ یہ ایک گھٹیا الزام ہے، میں نے اپنے طور پر تحقیق کر لی ہے مولانا فضل الرحمن کا ڈیزل کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں۔  پھر انہوں نے بڑے مشفقانہ انداز میں کہا کہ آپ Atta-ul- Haq Qasimi صاحب سے کیوں نہیں پوچھتے، انہوں نے یہ کیا لکھ دیا؟  Atta-ul- Haq Qasimi صاحب سے پوچھا تو انہوں نے ایک اخبار کی خبر کا ذکر کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ مولانا فضل الرحمن نے ڈیزل کا پرمٹ لیا تھا۔  کس سے لیا کتنے میں لیا یہ تفصیل ان کے پاس بھی نہیں تھی لیکن مولانا نے کبھی Atta-ul- Haq Qasimi صاحب کے بارے میں غصے کا اظہار نہیں کیا۔ جب مفتی Mufti Nizamuddin Shamzai کو کراچی میں شہید کیا گیا تو مولانا فضل الرحمن کو کہا گیا کہ آپ ان کے جنازے میں شرکت سے گریز کریں کیونکہ جنازہ پر بھی حملے کا خدشہ ہے۔  مولانا ہر قیمت پر جنازہ میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ آخرکار Akram Darani صاحب سے کہا گیا کہ مولانا فضل الرحمن کو کراچی جانے سے روکو۔  درانی صاحب نے بھی کوشش کی لیکن مولانا کراچی پہنچ گئے۔ وہاں پولیس اور رینجرز نے مولانا کو سیکورٹی دینے سے انکار کر دیا تو مولانا بغیر سیکورٹی کے جنازے میں پہنچ گئے۔  مولانا فضل الرحمن سے کئی دفعہ مجھے بھی اختلاف ہو جاتا ہے لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ نہ تو ان کا نام Asghar Khan کیس میں آئی ایس آئی سے پیسے لینے والوں میں آیا  اور نہ ہی بعد میں انہوں نے آئی ایس آئی سے کبھی پیسے لئے۔

ماضی قریب میں ایک ذمہ دار شخصیت نے نجی گفتگو میں دعوی کیا کہ مولانا فضل الرحمن نے ایک مغربی ملک سے رقم لی ہے اور اس رقم کے عوض وہ فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ کچھ دن بعد پتہ چلا کہ اس ذمہ دار شخصیت نے مولانا کے ساتھ طویل نشست کی۔ پھر ایک وزیر صاحب نے دعوی کیا کہ مولانا فضل الرحمن نے وزیر اعظم عمران خان کو قتل کرانے کی سازش کی۔  یہ دعوی بہت تشویشناک تھا لہذا میں نے یہ تشویش مولانا کے سامنے رکھی تو انہوں نے یہ کہہ کر بات ختم کر دی کہ میں نے کبھی سیاست میں تشدد کا سہارا نہیں لیا اور ویسے بھی میں عمران خان کو شہادت کا رتبہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ میں نے بہت معلوم کیا کہ عمران خان کے قتل کی سازش میں مولانا کا نام کیوں اور کیسے آیا  لیکن کوئی تفصیل پتہ نہ چلی لیکن اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اور مولانا فضل الرحمن ایک دوسرے کا ذکر اچھے الفاظ میں نہیں کرتے۔ مولانا صاحب پہلے دن سے عمران خان کی حکومت گرانا چاہتے ہیں لیکن انہیں نواز شریف نے روک دیا تھا۔ نواز شریف نے کہا تھا حکومت گرانا آسان ہے لیکن حکومت چلانا بہت مشکل ہے آپ عمران خان کو حکومت چلانے دیں، وہ خود ہی گر جائے گا۔

مولانا کا موقف تھا کہ اگر عمران خان کو ہم نے نہیں بلکہ وقت اور حالات نے گرانا ہے تو پھر ہم سیاست میں کیوں ہیں؟ مولانا صاحب عمران خان کو گرانے کی تجویز لے کر آصف علی زرداری کے پاس گئے تو انہوں نے بھی کچھ انتظار کا مشورہ دیا تھا۔ مولانا نے انہیں کہا کہ افسوس سیاستدانوں کو بار بار ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے لیکن وہ بار بار استعمال ہونے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ مولانا کافی دنوں سے اپنی جماعتی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ انہوں نے شمالی وزیرستان اور سرگودھا میں بڑے بڑے جلسے کئے جو ٹی وی اسکرینوں پر نظر نہ آئے۔ اس دوران ایک صاحب نے انہیں Pashtun Tahafuz Movement کے خلاف اپنے تعاون کی پیشکش کی تو مولانا نے مسکرا کر معذرت کر لی اور کہا کہ نکے کے ابا سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے لاہور میں نواز شریف سے ملاقات کی تو اس ملاقات پر کچھ وزرا نے کافی تنقید کی۔ یہ ملاقات پہلے سے طے تھی۔ مولانا فضل الرحمن Kot Lakhpat Jail لاہور میں یہ ملاقات کرنے والے تھے لیکن اس دوران سپریم کورٹ نے انہیں 6 ہفتے کے لئے رہا کر دیا لہذا یہ ملاقات جیل کے بجائے نواز شریف کے گھر پر ہوئی۔ مولانا ایک طرف نواز شریف اور آصف علی زرداری سے رابطے میں ہیں تو دوسری طرف حکومت کی اتحادی جماعت بی این پی مینگل کو بھی گلے سے لگا رکھا ہے۔ منگل کو نواز شریف سے ملاقات کر کے نکلے تو مجھے کہا کہ آپ میڈیا والے بہت جلد غیر اہم ہو جائیں گے کیونکہ ہم سوشل میڈیا پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے صرف مولانا فضل الرحمن کو نہیں اور لوگوں کو بھی شکوہ ہے حالانکہ مولانا صاحب کو اچھی طرح معلوم ہے  کہ وطن عزیز میں ایک ٹیلی فون کال پر کسی بھی وقت کوئی بھی ٹی وی چینل بند کرا دیا جاتا ہے اور اسی لیے نکے دا ابا شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگا ہے۔ لیکن ہم میڈیا والے ٹھہرے کمزور لوگ لہذا مولانا کا زور بھی صرف ہم پر چلتا ہے۔

مجھے نہیں معلوم کہ مولانا فضل الرحمن اپوزیشن جماعتوں کو متحد کر کے کب تک حکومت گرانے کی کوشش کریں گے لیکن یہ مجھے معلوم ہے کہ حکومت گرانا آسان اور چلانا بہت مشکل ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی حکومت کے خلاف تحریک صرف سڑکوں پر نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی شروع ہونے والی ہے۔ مولانا صاحب کی سوشل میڈیا فورس تشکیل پا چکی ہے اور کچھ دنوں میں متحرک بھی ہو جائے گی لیکن اس فورس کو دوسری فورسز کی طرح گالم گلوچ، الزام سے پرہیز کرنا ہو گا ورنہ سوائے بدنامی کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ سوشل میڈیا پر وہی زبان استعمال کی جانی چاہئے جو آپ اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے سامنے استعمال کر سکتے ہیں اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو سوشل میڈیا پر آپ کی تحریک بیکار ہو گی۔ سوشل میڈیا اتنا کارگر ہوتا تو عمران خان کی حکومت پر آج گلی کوچوں میں تنقید نہ ہو رہی ہوتی سیاست کے فیصلے آئندہ بھی گلی کوچے کریں گے سوشل میڈیا نہیں۔

No comments.

Leave a Reply