پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کر لیں

پاکستان کے مالیاتی وزیر نے واشنگٹن میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے چیف کے ساتھ اہم اجلاس

پاکستان کے مالیاتی وزیر نے واشنگٹن میں آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے چیف کے ساتھ اہم اجلاس

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین 8 سے 12 ارب ڈالر کا معاہدہ متوقع ہے تاہم دونوں ڈالر کے ایکسچینج ریٹ پر اتفاق نہیں کر سکے ہیں آئی ایم ایف ڈالر ایکسچینج ریٹ پر حکومت کا کنٹرول ختم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے  اور حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اسٹیٹ بینک کو اس بارے میں مکمل آزادی دے ذمہ دار اور باخبر ذریعے کے مطابق حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین ڈالر ریٹ سمیت تمام شرائط تقریباً طے ہو چکی ہیں اور اعلان کرنے کی بجائے اس پر عملدرآمد کے لیے حکمت عملی حکومت خود بنائے گی آئی ایم ایف کے مطالبے پر بینکوں میں بچت کا نظام اور صارف میں تقسیم کمپیوٹرائزڈ کی جا رہی ہے اور حکومت آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم زرمبادلہ کے ذخائر کا حصہ بنے گی اور حکومت یہ رقم ترقیاتی منصوبوں کے لیے استعمال نہیں کر سکے گی ترقیاتی منصوبوں کے لیے حکومت کو عالمی بینک سے رجوع کرنا ہو گا آئی ایم ایف نے معاہدے کے لیے حکومت کے سامنے ایک مکمل پیکج رکھا تھا جس پر عمل درآمد کے لیے حکومت کی ہامی بھرنے کے بعد مذاکرات شروع ہوئے ہیں آئی ایم ایف سے معاہدہ اور ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے ٹیکس ایمنسٹی سکیم بینک ٹرانزیکشن قوانین پر عملدرآمد کے لیے لائی جا رہی ہے یہ سکیم اصل میں ایف اے ٹی ایف قوانین پر عمل کے لیے بھی ہے  حکومت کا خیال ہے بینک قوانین میں سختی لانے کے بعد بیرون ملک میں اور اندرون ملک میں ٹیکس بچایا گیا ہے اور ٹیکس ایمننسٹی سکیم لا کر اس کے ذریعے 200 ارب روپے اکٹھا کرنا چاہتی ہے اسی لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کر کے ان کے سیشن منسوخ کیے گئے ہیں اور سیشن سے قبل حکومت صدارتی آرڈینیس لائے گی مسلم لیگ (ن) نے ٹیکس ایمنسٹی سے 120 ارب روپے اکٹھے کیے تھے اور اب حکومت 200 ارب اکٹھا کرنا چاہتی ہے جس میں وہ بیرون ملک پاکستانیوں کو اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے 3 سے 10 فیصد تک ٹیکس میں چھوٹ دے رہی ہے اور اگر بیرون ملک پاکستانی اپنی رقم پاکستان واپس لے آتے ہیں تو حکومت انہیں زیادہ منافع دے گی معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے گزشتہ 4,3 ماہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ توانائی کے شعبوں کے علاوہ اپنی ٹیکس ریفارمز پر بھی گفتگو کی ہے۔

آئی ایم ایف نے معاشی روڈ میپ میں انرجی سیکٹر کی بحالی کا پروگرام دیا ہے جس کے مطابق مکمل سبسڈی ختم کر کے گیس اور بجلی کی پوری پیداواری لاگت صارفین سے وصول کی جائے گی بجلی کی قیمت میں 11 فیصد اضافہ اسی پالیسی کے تحت کیا گیا ہے ہر 3 ماہ میں بجلی کے ٹیرف کی ایڈجسٹمنٹ کی جائے گی  انرجی کی قلت کا باعث جی ڈی پی کے نقصانات 380 ارب روپے سالانہ تک پہنچ چکے ہیں، گیس سیکٹر میں بھی قیمتوں میں 26 فیصد اضافہ کیا گیا مستقبل میں مذید ایڈجسٹمنٹ ہو گی آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں اب ایک قومی الیکٹرک پالیسی لائی جائے گی اسی طرح گیس کے لیے نیشنل ٹرانسمشن کمپنی بنائی جائے گی اور آئندہ 25 سالوں کے لیے اس پر کام ہو گا آئندہ 5 سال 2019۔23ء کے دوران پاکستان میں موبائل فون، بینکنگ، تنخواہ، پینشن، قومی بچت سکیموں کے منافع، ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں کی ادائیگی، ریفنڈ، ریبیٹ، وفاقی اور صوبائی سطح پر سرکاری واجبات کی وصولیوں اور ادائیگی کے نظام کو ڈیجیٹل بنانے کے لیے ملک میں الیکٹرانک گیٹ وے انفراسٹکرچر لایا جائے گا۔

پاکستان پوسٹ کے نظام کو بھی الیکٹرانگ اور ڈیجیٹل بنایا جائے گا سینٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز (سی ڈی این ایس) میں ہر ماہ بچت سکیموں کا منافع الیکٹرانک طریقے سے سرمایہ کاروں کو منتقل کیا جائے گا ہر شعبے کو الیکٹرانک اور ڈیجیٹل بنانے کے لیے پرائم منسٹر سیکریٹریٹ میں ٹرانسفارمیشن آفس قائم کیا جائے گا۔ سال 2023ء تک پاکستان میں ڈیجیٹل پیمنٹس کا جو نظام بنایا جائے گا، سینٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز کی ملک بھر کی 163 برانچوں کو ڈیجیٹل بنایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف سے معاہدہ اور ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے ٹیکس ایمنسٹی سکیم بینک ٹرانزیکشن قوانین پر عملدرآمد کے لیے لائی جا رہی ہے یہ سکیم اصل میں ایف اے ٹی ایف قوانین پر عمل کے لیے بھی ہے حکومت کا خیال ہے بینک قوانین میں سختی لانے کے بعد بیرون ملک میں اور اندرون ملک میں ٹیکس بچایا گیا ہے اور ٹیکس ایمننسٹی سکیم لا کر اس کے ذریعے 200 ارب روپے اکٹھا کرنا چاہتی ہے اسی لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کر کے ان کے سیشن منسوخ کیے گئے ہیں اور سیشن سے قبل حکومت صدارتی آرڈینیس لائے گی۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) نے ٹیکس ایمنسٹی سے 120 ارب روپے اکٹھے کیے تھے اور اب حکومت 200 ارب اکٹھا کرنا چاہتی ہے جس میں وہ بیرون ملک پاکستانیوں کو اس سکیم سے فائدہ اٹھانے کے لیے 3 سے 10 فیصد تک ٹیکس میں چھوٹ دے رہی ہے اور اگر بیرون ملک پاکستانی اپنی رقم پاکستان واپس لے آتے ہیں تو حکومت انہیں زیادہ منافع دے گی۔

No comments.

Leave a Reply