سوڈان میں فوجی بغاوت، صدر عمر البشیر گرفتار

سوڈان کے 30 سال سے برسراقتدار صدر عمر البشیر

سوڈان کے 30 سال سے برسراقتدار صدر عمر البشیر

خرطوم ۔۔۔ نیوز ٹائم

 سوڈان میں فوج نے 30 سال سے برسراقتدار صدر Omar al-Bashir کا تختہ الٹ دیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سوڈان کے 30 سال سے برسراقتدار صدر Omar al-Bashir منصب سے استعفی لے لیا گیا ہے اور فوج نے انہیں گھر میں نظر بند کر دیا ہے۔ سوڈان میں کئی ہفتوں سے جاری حکومت کے خلاف جاری عوامی احتجاج کے بعد فوج نے صدر Omar al-Bashir کا تختہ الٹتے ہوئے ان سے استعفی لے لیا ہے جبکہ انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔ فوج نے ملکی امور چلانے کے لیے Omar al-Bashir کے نائب اور وزیر دفاع جنرل Awad Mohamed Ahmed Ibn Auf کی سربراہی میں عبوری کونسل تشکیل دے دی ہے۔ ملک کے کئی موجودہ اور سابق سرکاری حکام کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن میں سابق وزیر دفاع Abdel Raheem Muhammad Hussein ، نیشنل کانگریس پارٹی کے نامزد سربراہ Ahmed Haroun اور Omar al-Bashir کے سابق نائب Ali Osman Mohammed  اور ذاتی محافظین بھی شامل ہیں۔

سوڈان میں کئی ہفتوں سے صدر Omar al-Bashir کے خلاف احتجاج جاری تھا۔ صدر نے فوج کو مظاہرین کو منتشر کرنے کا حکم دیا تھا تاہم فوج نے یہ حکم تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے آئین اور انسانی حقوق کے منشور کے تحت عوام کو پرامن مظاہروں کا حق حاصل ہے۔ملک کے بعض علاقوں میں عوام کی جانب سے جشن منانے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ فوج کے افسران کا ایک گروپ سرکاری ریڈیو اور ٹیلی وژن کی عمارت میں داخل ہو گیا ہے، دارالحکومت خرطوم کے ہوائی اڈے کو پروازوں کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ فوجیوں کی بڑی تعداد اور بکتر بند گاڑیاں صدارتی محل کے اطراف تعینات ہیں جبکہ محل میں آمدورفت کا سلسلہ روک دیا گیا ہے اور خرطوم کی مرکزی شاہراہوں پر فوجیوں کی بڑی تعداد پھیلی ہوئی ہے۔

Omar al-Bashir کا پورا نام Omar Hassan Ahmad al-Bashir ہے جو 1989ء میں سوڈانی فوج کے کرنل تھے اور وزیر اعظم Sadiq al-Mahdi کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے تھے۔ بین الاقوامی عدالت جرائم میں Omar al-Bashir پر بڑے پیمانے پر قتل، عصمت دری اور شہریوں کی املاک لوٹنے کا مقدمہ بھی چلا تھا۔ 1992 کے عشرے میں Omar al-Bashir نے القاعدہ کے سربراہ Osama bin Laden کو پناہ بھی دی تھی تاہم تنزانیہ اور نیروبی میں امریکی سفارت خانوں پر حملوں کے بعد سوڈانی حکومت نے اسامہ بن لادن کو بے دخل کر دیا تھا۔

سوڈان کی فوج نے ملک میں جاری مظاہروں کے باعث 30 سال سے زیر اقتدار صدر Omar al-Bashir کو برطرف کرنے کے بعد گرفتار کر لیا۔ خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق وزیر دفاع نے ملک میں 2 سال کے لیے فوجی حکمرانی کا اعلان کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی سول جمہوری تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کو مشتعل ہونے سے روکنے کے لیے ایمرجنسی بھی نافذ کر دی ہے۔ سرکاری نشریاتی ادارے نے اعلان کیا تھا کہ فوج آج  ایک اہم بیان  دے گی اور قوم کو اس کا انتظار کرنا چاہیے۔ فوج اور حکومت کے 2 اعلی عہدیداران نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ Omar al-Bashir کو برطرف کر دیا گیا۔ جس کے بعد ہزاروں مظاہروں نے دارالحکومت خرطوم کے وسط کی طرف مارچ کیا اور صدر کی برطرفی کی خوشیاں منائیں۔ بعد ازاں آج دوپہر میں وزیر دفاع Awad Mohamed Ahmed Ibn Auf نے سرکاری نشریاتی ادارے پر اعلان کیا کہ فوج نے Omar al-Bashir کو گرفتار کر لیا۔ انہوں نے کہا کہ  میں، وزیر دفاع، سپریم سیکیورٹی کمیٹی کا سربراہ Omar al-Bashir کو گرفتار کر کے محفوظ مقام پر مننتقل کرنے کے بعد ان کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کرتا ہوں۔ انہوں نے Omar al-Bashir کی حکومت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملٹری اور سیکیورٹی ایجنسیاں طویل عرصے سے حکومت کو ایک بری انتظامیہ، منظم بدعنوانی، انصاف کی عدم موجودگی اور عوام خاص طور پر نوجوانوں کے لیے ایک بند راستے کے طور پر دیکھتے رہے تھے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ  غریب مزید غریب اور امیر مزید امیر ہو گیا، مساوات کی امید دم توڑ چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ Omar al-Bashir کی جانب سے مظاہرین کے خلاف شدید کریک ڈائون کی وجہ سے سیکیورٹی اسٹبلیشمنٹ کی سلاممتی کے لیے خطرات پیدا ہو گئے تھے۔ Awad Mohamed Ahmed Ibn Auf نے کہا کہ فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے بنائی جانے والی ملٹری کونسل آئندہ 2 سال تک حکومت کرے گی جس کے بعد  شفاف اور منصفانہ انتخابات کروائے جائیں گے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ فوج نے آئین معطل کر دیا، حکومت تحلیل کر دی اور 3 ماہ کے لیے ایمرجنسی بھی نافد کی ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ فوج نے سرحدیں اور فضائی حدود بند کر دی ہیں اور ایک ماہ کے لیے رات کے اوقات میں کرفیو نافذ کیا ہے۔

دوسری جانب مظاہروں کے منتظمین کو خدشہ ہے کہ Omar al-Bashir کی برطرفی کے فوج اپنی حکومت نافذ کر دے گی۔اس سے قبل Sudanese Professional Association نے مظاہرین سے اصرار کیا تھا کہ وہ سول حکومت کے لیے احتجاج کریں۔ تنظیم نے کہا کہ  ہم نہیں چھوڑ رہے، ہم انقلابیوں سے اصرار کرتے ہیں کہ وہ دھرنا ختم نہیں کریں۔ انہوں نے  ماضی کی حکومت کو دوبارہ لانے کی کوشش سے متعلق خبردار بھی کیا۔ Sudanese Professional Association کی ترجمان نے اے پی کو بتایا تھا کہ وہ فوجی بغاوت کو قبول نہیں کریں گے اور Omar al-Bashir اور ان کی حکومت کے غیر مشروط خاتمے پر اصرار کریں گے۔

افریقی یونین کی سوڈانی فوج پر تنقید:

افریقی یونین نے سوڈان کے صدر Omar al-Bashir کو برطرف کرنے پر فوج پر تنقید کی اور پرسکون رہنے کا مطالبہ کیا۔ افریقی یونین کمیشن کے چیئرمین موسی فاکی نے اس حوالے سے جاری بیان میں کہا کہ  فوجی کنٹرول، سوڈان کو درپیش چیلنجز اور عوام کی خواہش کا مناسب ردعمل نہیں ہے۔

No comments.

Leave a Reply