آسیہ مسیح اور عافیہ صدیقی پر پاکستان کے دوہری معیار

آسیہ مسیح اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں وزیر اعظم کا دوہرا معیار

آسیہ مسیح اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں وزیر اعظم کا دوہرا معیار

نیوز ٹائم

وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ ملعونہ آسیہ مسیح جلد ہی پاکستان سے چلی جائے گی۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں پیچیدگی ہے جس سے میڈیا کو آگاہ نہیں کیا جا سکتا۔  ملعونہ آسیہ مسیح کے لیے تو وزیر اعظم عمران خان نے پوری دنیا کو یقین دلا دیا کہ وہ حفاظت سے ہے  اور جلد ہی پاکستان چھوڑ دے گی مگر انہوں نے اس بارے میں قوم کو ایک بار بھی اعتماد میں نہیں لیا کہ پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کب وطن واپس پہنچے گی۔ آسیہ ملعونہ اور ڈاکٹر عافیہ کے کیس میں اس حد تک تو مماثلت ہے کہ دونوں کیسوں میں عدالت پر اثرانداز ہوا ۔  پاکستان میں حکومت کے اثر انداز ہونے کی وجہ سے آسیہ کو رہائی مل گئی حالانکہ سیشن کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ نے آسیہ کو موت کی سزا سنا چکی تھیں۔

ڈاکٹر عافیہ کے کیس میں بھی امریکی حکومت اثر انداز ہوئی اور ناقابل یقین بیان پر کہ عافیہ نے نہتا اور کمزور ہونے کے باوجود ایک امریکی کمانڈو کی بندوق چھین کر اس پر فائرنگ بھی کر دی اور خود زخمی ہو گئی، عافیہ کو 88 برس کی سزا سنا دی گئی۔ یہ پاکستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ عافیہ کو جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں باقاعدہ امریکی حکومت کو فروخت کیا گیا۔ سرکاری سطح پر اس بردہ فروشی کی شاید ہی تاریخ سے کوئی مثال مل سکے۔  اس تماشا میں عافیہ کی رہائی کے بارے میں ہر حکومت کی پراسرار خاموشی۔ عمران خان حکومت میں آنے سے قبل کئی بار ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان واپس لانے کے بارے میں پرزور مطالبہ بھی کرتے رہے اور یہ بھی اعلان کیا کہ برسراقتدار آنے کے بعد ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان لانا ان کی پہلی ترجیح ہو گی۔

عمران خان کو اقتدار میں آئے 8 ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اور ابھی تک اس سلسلے میں ان کی بس اتنی ہی کارکردگی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اس بارے میں خاموشی اختیار کی جائے۔ یہ قوم کا حق ہے کہ اسے آگاہ کیا جائے کہ آسیہ تو جا رہی ہے مگر عافیہ کب آئے گی۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا کیس ہر لحاظ سے منفرد ہے۔ انہیں کراچی سے ان کے 3 کمسن بچوں سمیت سرکاری سرپرستی میں دن دہاڑے اغوا کیا گیا۔ اغوا کے بعد انہیں افغانستان منتقل کیا گیا۔ برسوں ڈاکٹر عافیہ کا کچھ پتا نہیں چلا۔ بعد میں Yvonne Ridleyکے اس انکشاف کے بعد کہ ایک پاکستانی خاتون بگرام جیل میں قید ہیں، عافیہ پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے بگرام میں ایک امریکی کمانڈو سے اس کی بھاری بھرکم گن چھین لی اور اس پر فائرنگ بھی کر دی۔ یہ سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے کہ ایک کمزور اور نہتی خاتون جس کا تعلیمی ریسرچ سے تعلق رہا ہو، وہ کس طرح ایک مستعد کمانڈو سے گن چھین سکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو امریکی فوج کو اپنی فوج کی تربیت پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اس الزام کے بعد ڈاکٹر عافیہ کو ہتھکڑی اور بیڑی لگا کر امریکا پہنچا دیا گیا۔ امریکا کی کٹھ پتلی عدالت نے اس الزام کو تسلیم بھی کر لیا اور ڈاکٹر عافیہ کو 88 برس کی سزا بھی سنا دی۔ امریکیوں نے جو کچھ بھی کیا، اس پر تو اس وقت بات ہو سکتی ہے جب پاکستان میں کوئی باہمت حکمران ہوتا۔ یہاں پر تو امریکی حکومت کی اس پیشکش کے باوجود کہ اگر حکومت پاکستان باقاعدہ درخواست کرے تو وہ ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان کے حوالے کرنے کو تیار ہے، زرداری، نواز شریف میں سے کسی نے بھی پورے دور حکومت میں اتنی سی زحمت نہیں کی حالانکہ نواز شریف کے وزرا بھی اور خود نواز شریف نے بھی اس بارے میں کئی بار یقین دہانی کروائی۔  عمران خان سے ڈاکٹر عافیہ کے خاندان اور پوری قوم کو بڑی امیدیں تھیں کہ انہوں نے اس بارے میں واضح یقین دہانی کروائی تھی۔ تاہم یہ بھی عمران خان کا ایک بڑا یو ٹرن ثابت ہوا۔ قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ کوئی بھی حکومت ڈاکٹر عافیہ کو پاکستان واپس لانے سے خوفزدہ ہے۔ طالبان روز مذاکرات کر کے اپنے لیڈروں کی آزادی کو یقینی بناتے ہیں۔ Mullah Abdul Salam Zaeef اور Mullah Abd al-Ghani برادر جیسے لوگ جو امریکی فوج کی قید میں تھے، اب مذاکرات کی میز پر امریکا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی شرائط منوا رہے ہوتے ہیں۔ کیا پاکستانی قوم اور پاکستانی حکمراں طالبان سے بھی زیادہ کمزور ہیں جو ایک کمزور عورت کو پاکستان لاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔

بہتر ہو گا کہ عمران خان کم از کم اتنی جرت کا مظاہرہ کریں کہ وہ قوم کو صاف صاف ان وجوہات سے آگاہ کر دیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو کیوں پاکستان واپس نہیں لایا جا سکتا۔  یا پھر وہ ان تمام عوامل کو قوم کے سامنے رکھیں جن کی وجہ سے عافیہ کی وطن واپسی ناممکن ہے۔ ایسی صورت میں امریکا کو واضح بتا دیا جائے کہ اس کو مطلوب قیدی بھی پاکستان سے باہر نہیں جا سکتے اور اگر کسی قیدی نے پاکستان سے غداری کی ہے تو اسے غداری کی سزا موت کی صورت میں دی جائے گی۔

یہ عجیب صورتحال ہے کہ پاکستان روز جذبہ خیر سگالی کے طور پر بھارتی ماہی گیروں کو رہا کر دیتا ہے مگر بھارت سے پاکستانی قیدیوں کی لاشیں ملتی ہیں۔ پاکستان، بھارت سے غیر قانونی سرحد پار کرنے والوں کو فوری طور پر بھارت کے حوالے کر دیتا ہے مگر بھارت میں پاکستان سے شادی ہو کر گئی ہوئی خاتون کو طلاق کے بعد پاکستان بھیجنے پر راضی نہیں۔ پاکستان حملہ آور ابھے نندن کو بھی عزت و احترام کے ساتھ بھارت کے حوالے کر دیتا ہے اور جواب میں لائن آف کنٹرول پر پاکستان میں سول آبادی پر بمباری جاری ہے۔ امریکی ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس پاکستان میں 3 افراد کو دن دہاڑے قتل کر دیتا ہے۔ پوری پاکستانی سرکاری مشینری اپنا تمام اثر و رسوخ استعمال کر کے اسے پاکستان سے پورے گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصت کرتی ہے۔ آسیہ کو سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ سزائیں دیتی ہیں مگر اسے پوری سرکاری مشینری بری کرواتی ہے۔ اس عرصے میں غیر ملکی سفارتکاروں کو بھی آسیہ سے ملاقات کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔  اب جذبہ خیر سگالی کے طور پر اسے ملک سے باہر بھیجنے کی وزیر اعظم خود نوید سنا رہے ہیں۔ وزیر اعظم بس ایک وضاحت کر دیں کہ پاکستان میں پاکستانیوں کی حکومت ہے یا پھر امریکا، اسرائیل اور بھارت کے نمائندوں کی۔ اگر پاکستانیوں کی نمائندہ حکومت ہے تو خدارا پاکستانی مفادات کا خیال کریں جس طرح امریکی اور بھارتی حکومتیں اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے کمربستہ رہتی ہیں، پاکستانی حکومت بھی اٹھ کھڑی ہو۔ڈاکٹر عافیہ ٹیسٹ کیس ہے جس میں ابھی تک حکمراں ناکام ہیں۔

No comments.

Leave a Reply