سوڈان: عمر البشیر کی معزولی میں مرکزی کردار کس نے ادا کیا؟

سوڈان کے معزول صدر عمر البشیر

سوڈان کے معزول صدر عمر البشیر

خرطوم ۔۔۔ نیوز ٹائم

رواں سال 10 اپریل کی رات سوڈانی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ Salah Gosh نے    Khartom  کے صدارتی محل میں صدر Omar al-Bashir سے ملاقات کی اور ان کو اطمینان دلایا کہ عوامی احتجاجی مظاہرے ان کی حکومت کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہیں۔ ہزاروں سوڈانی 4 ماہ تک سڑکوں پر نکلتے رہے۔ وہ ملک میں تبدیلی کا اور اقتصادی بحران کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ملاقات میں موجود باخبر ذرائع کے مطابق Salah Gosh نے عرب دنیا کے نہایت پرانے حکمراں سوڈانی صدر کو آگاہ کیا کہ وہ پریشان نہ ہوں اور وزارت دفاع کی عمارت کے باہر احتجاجی دھرنے کو ختم کر دیا جائے گا۔ اس طرح Omar al-Bashir رات کو بے فکر ہو کر خوابِ خرگوش کے مزے لینے کے لیے اپنے بستر پر چلے گئے۔  سوڈانی صدر جب 4 گھنٹوں کے بعد بیدار ہوئے تو دیکھا کہ Salah Gosh ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے اور صدارتی محل کے محافظین بھی غائب تھے۔  ان کی جگہ سرکاری فوج کے اہلکاروں نے لے لی اور اس طرح Omar al-Bashir کا 30 سالہ حکمرانی کا دور اپنے اختتام کو پہنچا۔

Omar al-Bashir کو Khartom میں کوبر جیل منتقل کر دیا گیا جہاں انہوں نے اپنے اقتدار کے دوران ہزاروں سیاسی حریفوں اور مخالفین کو ٹھونسا تھا۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز نے 10 سے زیادہ باخبر ذرائع کے ساتھ خصوصی گفتگو کی تاکہ ان واقعات اور حالات کی براہ راست جان کاری حاصل کی جا سکے  جو اقتدار پر سابق صدر کی گرفت کھو دینے کا سبب بنے۔ Omar al-Bashir نے 1989ء میں اسلام پسندوں کے ساتھ مل کر سازش کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ یہ اسلام پسند انتخابات میں ناکام ہو گئے تھے۔  Omar al-Bashir جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر عسکری کونسل کے سربراہ بن بیٹھے۔  Hassan Al-Turabi کے پیروکار اسلام پسندوں نے عسکری ادارے، انٹیلی جنس اور مرکزی وزارتوں پر قبضہ کر لیا۔

قطر اور ایران وہ ممالک ہیں جنہوں نے 1990ء کی دہائی سے لے کر 2014 ء تک Omar al-Bashir کی سب سے زیادہ حمایت کی اور دونوں ممالک کے سابق سوڈانی صدر کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات رہے۔ بعد ازاں Omar al-Bashir نے بین الاقوامی عدالت کو مطلوب ملزم کے طور پر اپنے بچائو کے لیے اپنی پالیسیوں اور خارجہ تعلقات میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔ اس واسطے انہوں نے سعودی عرب، امارات اور امریکا کے قریب آنے کی کوشش کی۔ اس موقع پر Omar al-Bashir نے متعدد دہشت گردوں کو حوالے کیا اور سوڈان کے اندر ایران کی سرگرمیوں کو کم کرنے کا عہد کرتے ہوئے اس کے عسکری کیمپوں کو بند کر دیا۔ Omar al-Bashir یمن میں عرب اتحاد میں شمولیت پر بھی آمادہ ہو گئے۔ اس پیشرفت نے سوڈان کے لیے بیرونی امداد کا دروازہ کھول دیا اور اسے اربوں ڈالر موصول ہوئے۔ Omar al-Bashir نے اپنے دفتر کے سربراہ Osman al-Hussein کو سوڈان کے امارات اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے امور کا ذمے دار بنایا۔ Osman al-Hussein پر الزام تھا کہ وہ سوڈانی صدر کی عقل پر جادوئی گرفت رکھتے تھے۔

علی عثمان طہ:

ایک باخبر سوڈانی ذریعے کے مطابق خلیجی ممالک سوڈان کے اندر تبدیلی میں فریق نہیں بنے۔ سال 2017 ء کے موسم گرما میں قطر کے ساتھ سفارتی بحران نے جنم لیا، امارات، سعودی عرب اور بحرین نے دوحہ کے ساتھ تعلقات منقطع کر لیے۔  اس صورت حال نے Omar al-Bashir کو مشکل میں ڈال دیا کیونکہ قطر تقریباً 15 برسوں تک Omar al-Bashir کی حکومت اور سوڈان میں اسلام پسندوں کا مرکزی سپورٹر رہا تھا۔ سوڈان میں سخت گیر جماعت سے تعلق رکھنے والے حلیفوں نے Omar al-Bashir پر دبائو ڈالا تھا کہ قطر کے ساتھ تعلقات برقرار رکھے جائیں۔

مارچ 2018 ء میں سوڈان اور قطر کے درمیان بحر احمر پر واقع سواکن کی سوڈانی بندرگاہ کی ترقی سے متعلق معاہدہ طے پایا۔  4 ارب کی سرمایہ کاری کے اس منصوبے کے نتیجے میں بندرگاہ کو ترکی کے ایک فوجی اڈے میں تبدیل کرنا تھا۔ اس امر نے مصر اور سعودی عرب کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔

اکتوبر 2018 ء میں سوڈان اقتصادی بحران کے گڑھے میں گرتا نظر آیا جب روٹی، ایندھن اور کرنسی کی قلت پیدا ہو گئی۔ ذرائع کے مطابق اس موقع پر امارات اور سعودی عرب نے البشیر کی مالی سپورٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ انہوں نے اسلام پسندوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ سوڈان میں مظاہروں میں شدت آنے کے بعد Omar al-Bashir نے Qatar  Sheikh Tamim bin Hamad Al Thani کے ساتھ بات چیت کے لیے دوحہ کا دورہ کیا۔  Omar al-Bashir کے مقرب ایک عہدے دار کے مطابق امیر قطر نے مظاہرے رکوانے کے لیے Omar al-Bashir کو ایک ارب ڈالر کی پیشکش کی تھی۔  تاہم مذکورہ ذریعے کے مطابق Omar al-Bashir کو خالی ہاتھ وطن لوٹنا پڑا۔ امیر قطر نے انکشاف کیا کہ مخصوص حلقوں کی جانب سے اپنی رائے تبدیل کرنے کے لیے دبائو کا سامنا ہے۔ دوسری جانب پس پردہ Omar al-Bashir کو معزول کرنے کی سازش پروان چڑھ رہی تھی۔  اس حوالے سے سوڈانی انٹیلی جنس کے سربراہ Salah Gosh نے جنوری 2019 ء میں اچانک خرطوم کی کوبر جیل کا دورہ کیا اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی 8 شخصیات سے ملاقات کی۔ Salah Gosh نے جیل کے قیدیوں سے مطالبہ کیا کہ سوڈان میں ایک نئے سیاسی نظام کی خاطر منصوبے کی تائید کریں۔

صلاح قوش:

انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ صلاح قوش

انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ صلاح قوش

بعد ازاں رہا ہونے والے ایک اپوزیشن لیڈر نے بتایا کہ اس وقت کے بعد سے جیل کے اندر کی صورت حال بہتر ہو گئی اور قیدیوں کو مفت سگریٹس، ٹیلی وژن سیٹس اور چبانے کے لیے تمباکو جیسی اشیا حاصل ہو گئیں۔ Salah Gosh نے رواں سال فروری کے وسط میں صدر Omar al-Bashir کو رخصت ہونے کے لیے باعزت راستے کی تجویز پیش کی۔ Salah Gosh نے 22 فروری کو ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ Omar al-Bashir نیشنل کانگریس پارٹی کی صدارت سے سبکدوش ہو جائیں گے اور 2020 ء میں اپنے انتخاب کے لیے کوشش نہیں کریں گی۔ تاہم بشیر نے اس کے کچھ دیر بعد ٹیلی وژن پر اپنے خطاب میں پارٹی کی سربراہی سے مستعفی ہونے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی  اور اسی روز پارٹی کے ارکان سے کہا کہ صلاح قوش نے مبالغے سے کام لیا۔ رواں سال 6 اپریل کو جب احتجاج کنندگان نے صدارتی محل کے قریب وزارت دفاع کی عمارت کے باہر دھرنے کا انعقاد کیا  تو Salah Gosh کی قیادت میں سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ادارے نے انہیں روکنے کے واسطے کچھ نہیں کیا۔Salah Gosh نے وزیر دفاع، فوج کے چیف آف اسٹاف اور پولیس کے سربراہ سمیت سینئر عہدے داران کے ساتھ رابطوں کا سلسلہ جاری رکھا۔  یہ تمام لوگ اس امر پر متفق ہو گئے کہ البشیر کی حکمرانی ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ سوڈان میں اس وقت حکمراں عبوری عسکری کونسل کے ترجمان نے باور کرایا کہ Salah Gosh نے اس پیشرفت میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس طرح 11 اپریل کی صبح ابتدائی گھنٹوں میں Omar al-Bashir کو اقتدار سے معزول کر دیا گیا۔

No comments.

Leave a Reply