ایران پر حملہ روکنے والا بل امریکی پارلیمنٹ میں منظور

امریکی صدر کو کانگریس کی منظوری کے بغیر ایران پر حملہ کرنے سے روکا جائے گا

امریکی صدر کو کانگریس کی منظوری کے بغیر ایران پر حملہ کرنے سے روکا جائے گا

نیوز ٹائم

ٹرمپ ایران کو دبائو میں لانے کی جو کوششیں کر رہے تھے، وہ امریکی کانگریس کے اعلان کے ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔ امریکی کانگریس نے نیشنل ڈیفنس اتھارٹی ایکٹ کی منظوری دے دی ہے، اس میں کی گئی ترمیم ٹرمپ انتظامیہ کو ایران کے خلاف براہ راست جنگ میں جانے سے روکے گی۔ بھارتی خبر رساں ایجنسی کے مطابق بل میں ترمیم سے امریکی صدر کو کانگریس کی منظوری کے بغیر ایران پر حملہ کرنے سے روکا جائے گا۔ امریکی ایوان نمایندگان نے این ڈی اے ترمیم شدہ بل کو 197 کے مقابلے میں 220 ووٹوں سے منظور کیا۔ خارجہ امور کی ایوان کمیٹی کے چیئرمین کانگریسی Eliot L. Engel نے ووٹنگ سے پہلے کہا، اگر صدر جنگ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے ان کو کانگریس کے پاس جانا ہو گا۔ آئین کانگریس کو جنگ کے اعلان کا اختیار دیتا ہے صدر کو نہیں۔ سینیٹ نے اس سیکیورٹی بل کی جون میں منظوری دی تھی۔ وائٹ ہائوس نے اس بات کے اشارے دیے ہیں کہ صدر ٹرمپ اس بل کو ویٹو کر دیں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال امریکا کے جوہری معاہدے کے ہٹنے کے بعد سے امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔

دریں اثنا چین نے ایران کے خلاف امریکا کی غیر قانونی اور یکطرفہ پابندیوں کی شدید مخالفت کی ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان Geng Shuang نے صحافیوں سے کہا کہ چین نے کئی بار زور دیا ہے کہ ایران سمیت بین الاقوامی برادری کے ساتھ چین کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں ہیں، ایران کے ساتھ چین کے تعلقات منطقی اور قانونی ہیں  جن کا احترام کیا جانا چاہیے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا چین خلیج فارس اور Strait of Hormuz کے تحفظ کے لیے امریکی اتحاد میں شامل ہو گا؟ ترجمان نے کہا ایک نظریاتی جواب کے طور پر (فارس) خلیج کے علاقے بین الاقوامی توانائی کی فراہمی، عالمی سیکیورٹی اور استحکام کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے کہا ہمیں امید ہے کہ متعلقہ فریق امن و امان قائم اور تحمل برتیں گے کشیدگی کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے اور مشترکہ طور پر اس علاقے میں امن و استحکام برقرار رکھیں گے۔

مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں لاکھ کمزوریاں سہی ایک بات ان کی قابل قدر ہے کہ پسماندہ ملکوں کے مقابلے میں قانون اور انصاف (جزوی طور پر) بہتر ہے جس کی وجہ سے عوام کے ساتھ نا انصافیوں کا احتمال کم ہوتا ہے سیاسی شعبے میں بھی بدعنوانیوں کی وہ صورتحال نہیں جو پسماندہ ملکوں میں دیکھی جاتی ہے، امریکا کے صدر کو طاقتور ترین صدر کہا جاتا ہے لیکن بعض اہم معاملوں میں اس کے اختیارات بھی محدود ہیں یا مشروط ہیں۔ امریکا کے صدر ٹرمپ ایک جذباتی ہی نہیں بلکہ متضاد شخصیت کے مالک صدر ہیں اسے ہم سپر پاور کی دھاندلی ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک طاقتور ہی نہیں انتہائی ظالم ملک کے مقابلے میں ایران جیسے چھوٹے ملک کو ان ہتھیاروں سے محروم رکھنا چاہتا ہے جو اس کے دفاع کے لیے ضروری ہیں۔ کیا سپر پاور کی اخلاقی حیثیت اس قسم کے اقدامات سے مجروح نہیں ہوتی۔ اب دنیا کو طاقتور اور کمزور کی تفریق سے باہر آنا چاہیے، سیاسی اور سماجی مساوات کی طرف آنا چاہیے۔

دنیا کے ملکوں نے اقوام متحدہ کے نام سے جو ادارہ بنا رکھا ہے اس کی حیثیت مردہ گھوڑے جیسی ہے اگر اقوام متحدہ کو طاقتور اور بااختیار ادارہ بنایا جائے تو اس کے دو فائدے ہو سکتے ہیں، ایک تو بین الاقوامی تنازعات میں اقوام متحدہ ایک بامعنی کردار ادا کر سکتی ہے  دوسرے بڑی طاقتوں کی اجارہ داری سے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ کیا بڑی طاقتوں کی یہ ذمے داری نہیں کہ وہ اس حوالے سے کردار ادا کریں۔ امریکا کی سیاست یہ ہے کہ اس نے مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے تضادات کو سامنے رکھ کر عربوں کو خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات وغیرہ کو ایران سے الگ کر کے ایران کو علاقے میں تنہا بنانے کی کوشش کی۔ یہ سیاست نہیں بلکہ سازش ہے جس کا مقصد خطے کے واحد اسرائیل مخالف ملک کو بے دست و پا کرنا ہے۔ امریکی صدر نے بڑی منصوبہ بندی سے مشرق وسطیٰ میں میدان اپنی مرضی کے مطابق سجایا ہے اور علاقے میں جس ملک کا چاہیں گھیرا تنگ کر سکتے ہیں یہ ایک دھاندلی بھی ہے اور سیاسی بددیانتی بھی ہے جس کو روکا جانا چاہیے۔

امریکی کانگریس نے ٹرمپ پرکانگریس کی منظوری کے خلاف جنگ کے اقدام پر پابندی لگا دی ہے ظاہر ہے کانگریس کو اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا ہو گا کہ ٹرمپ، ایران پر ازخود حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا میں اس قسم کے واقعات ماضی میں ہوتے رہے ہیں۔ دنیا کے امن کا کسی ایک ملک کو چوہدری نہیں بنایا جا سکتا یہ ہماری دنیا کی بدقسمتی ہے کہ ٹرمپ جیسے جنگجو کو دنیا پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ دنیا میں اور بھی بڑی طاقتیں ہیں لیکن ان میں اس قدر خود سری نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں جنگوں کا کلچر عام ہے۔ اس حوالے سے یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ دنیا کے عوام دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہیں، امریکا اور اسرائیل جنگوں کے کلچر میں دلچسپی رکھتے ہیں۔  یہ بات بالکل درست ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی ہونی چاہیے لیکن اگر اس میں امتیاز برتا گیا تو متعلقہ فریق ٹرمپ کی بات کیوں سنیں گے اگر ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی لگانا ہو تو بلاامتیاز لگائی جانی چاہیے۔

ٹرمپ پر امریکی کانگریس نے اجازت لینے کی پابندی ایران نے یا دنیا کے کسی ملک نے نہیں لگائی بلکہ امریکی کانگریس نے لگائی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کانگریس اس حوالے سے ٹرمپ پر ٹرسٹ نہیں کرتی یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ دنیا کی سپر پاور کے حکمران پر عدم اعتماد کی بات ہے۔ اگر بات یہی ہے تو باعث شرم ہے اصل مسئلہ ایران کے تیل کا ہے تیل کی فروخت پر پابندی لگا کر امریکا نے ایران کی معیشت کے حالات میں مشکلات پیدا کر دی ہے۔ امریکا کی غلامی سے آزادی چاہنے والوں کے ساتھ امریکا کا رویہ کس قدر غیر انسانی اور وحشیانہ ہوتا ہے قدم قدم پر اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ امریکی پابندیوں سے ایران کی معیشت تباہ ہو گئی ہے اگر امریکا کو ڈر ہے کہ ایران، اسرائیل پر حملہ کرے گا تو اس کا حل یہ ہے کہ امریکا دونوں ملکوں میں مذاکرات کرا کر پرامن طریقے سے اس کا حل نکالنے کی کوشش کرے۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا میں جتنی جنگیں ہوئیں وہ سب بڑی طاقتوں کی مجرمانہ سیاست کا نتیجہ تھیں۔ ایران، امریکا سے ہر متنازعہ مسئلہ پر مذاکرات چاہتا ہے لیکن یہ مذاکرات انڈر پریشر نہ ہوں بلکہ دو برابر کے ملکوں کے درمیان ہوں۔ ایران کو گھیرنے اور تنہا کرنے کے لیے امریکا جیسے جمہوریت پسند ملک نے مشرق وسطی کے ملکوں میں پھوٹ ڈالی اور ان ملکوں سے دوستانہ بلکہ سرپرستانہ تعلقات قائم کیے، اگر امریکا دنیا میں جمہوری نظام چاہتا ہے تو شخصی حکومتوں کی اسے حمایت ترک کرنی چاہیے ایک طرف وہ جمہوریت کا چیمپئن بنا بیٹھا ہے دوسری طرف بادشاہوں اور امیروں کا سرپرست اور نگہبان بنا بیٹھا ہے کیا ان دوغلی پالیسیوں سے مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو سکتا ہے۔

No comments.

Leave a Reply