کیا مولانا فضل الرحمن کی بھی جیل جانے کی باری آنے والی ہےِ، تجزیہ کاروں کا تبصرہ

جے یو آئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن

جے یو آئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن

نیوز ٹائم

ایک نجی ٹی وی کے پروگرام آپس کی بات میں میزبان منیب فاروق نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا اکتوبر سے پہلے مولانا فضل الرحمن کی جیل جانے کی باری آنے والی ہے، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا پہلا پارلیمانی سال مکمل کارکردگی عوام کے سامنے ہے لیکن تاریخ اپنے آپ کو اتنی جلدی دھرائے گی یہ کسی نے نہیں سوچا تھا ہمارا اشارہ مولانا فضل الرحمن کی اکتوبر کے مہینے میں لانگ مارچ کی دھمکی کی طرف ہے بالکل اسی طرح جس طرح گزشتہ حکومت کا ایک سال مکمل ہوتے ہی عمران خان نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا استعفی طلب کرتے ہوئے لانگ مارچ کی دھمکی دی تھی اسی لئے کچھ عناصر اس کو مکافات عمل کا نام بھی دے رہے ہیں دوسری جانب پیر کو آصف زرداری نے بھی کہہ دیا ہے کہ ان کی جماعت لانگ مارچ میں ضرور حصہ لے گی بلاول بھٹو نے تو ایک قدم آگے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ مولانا کی حکومت آ گئی تو عمران خان کا کیا بنے گا  توبہ توبہ ہمیشہ کی طرح ن لیگ کی جانب سے لانگ مارچ پر بھی ایک مبہم موقف سامنے آیا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ کیا اکتوبر سے پہلے مولانا فضل الرحمن کی جیل جانے کی باری آنے والی ہے کیونکہ عمران خان امریکا میں اس کا عندیہ پہلے ہی دے چکے ہیں۔ رہنما مسلم لیگ ن محمد زبیر نے کہا کہ تھوڑا سا دھکا دیں گے حکومت گر جائے گی، تحریک انصاف کے رہنما صداقت علی عباسی نے کہا کہ میڈیا کو کسی نے نہیں روکا ہے، سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ ہماری سیاست ایک دائرے میں گھوم رہی ہے، جے یو آئی ایف کے سینیٹر مولانا عطاء الرحمن نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام نے جو موقف دیا ہے وہ واضح موقف ہے، رہنما مسلم لیگ ن محمد زبیر نے کہا کہ فواد چوہدری کو بجائے اس پر کہ کوئی شرمندگی ہونی چاہئے کوئی شرم و حیا ہونی چاہئے۔ عرفان صدیقی کے معاملے پر اس مثال کو کہاں استعمال کیا جا رہا ہے بجائے اس کے کہ اس کو نظرانداز کیا جائے اور کہا جائے کہ ہم شرمندہ ہیں یہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔ حکومت خود فیصلہ کر لے کے وہ گرنا چاہتی ہے یا نہیں گرنا چاہتی ہمیں تو ایسا لگتا ہے کے ہم تھوڑا سا دھکا دیں گے وہ گر جائے گی۔ جہاں تک گورننس اور معیشت کا تعلق ہے معیشت بہتر نہیں ہے دو، تین مہینے اور لگیں آپ خود دیکھ لیں گے جو مرضی یہ ناکامی کے بہانے دیتے رہیں کہ پچھلی حکومت کر کے گئی تھی اتنی خراب صورتحال ہو چکی ہے کہ پائیدار نہیں ہے اور عمران خان کو یہ بتا دیا گیا ہے اب ان کے وزرا نے نئے بہانے شروع کر دیئے ہیں۔ شاہ محمود قریشی اور رزاق دائود نے کہا ہے کہ معیشت کیسے چل سکتی ہے جب یہ ہنگامے کرتے رہیں گے اور جلسے جلوس کرتے رہیں گے۔

مولانا فضل الرحمن نے جو اکتوبر کا اعلان کیا ہے ظاہر ہے ہماری جماعت میں مشاورت ہو گی اور ہم فیصلہ کریں گے اور اگر ہم اسلام آباد میں مولانا کے ساتھ گئے تو ہم کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جو پی ٹی آئی نے کیا تھا۔ پی ایس پی کا جلسہ لائیو دکھایا جا رہا ہے ہمارا نہیں کور کیا جا رہا اور کہہ رہے ہیں کے کون کرتا ہے آپ کرتے ہیں عمران خان کرتا ہے،  عمران خان کرتا ہے ہمت ہے تو دکھا دیں چلنے دیں۔

عمران خان اسلام آباد گئے تھے تو سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کیا تھا جو اس سے پہلے شیخ مجیب الرحمن نے آج تک پاکستان کی تاریخ میں کیا تھا ہم ایسا نہیں کرنے جا رہے نہ ہم پی ٹی وی پر حملہ کرنے جا رہے نہ ہم سپریم کورٹ میں شلواریں ٹانگنے جا رہے نہ ہم 126 دن سپریم کورٹ کے ججز کے لئے پچھلا والا راستہ بنا کر دیں گے کہ وہاں سے آپ جا سکتے ہیں نہ ہم آئی ایم ایف سے کہیں گے کہ ان کو پیسہ دینا بند کر دیں ہم نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بات کی ہے اور میڈیا پر شور مچایا ہے اور نہ ہی ہم مذہب کارڈ استعمال کریں گے جس طرح پی ٹی آئی نے فیض آباد دھرنے میں استعمال کیا تھا ہم عمران خان یا کسی کی حب الوطنی چیلنج نہیں کر رہے۔ طاہر القادری اب کیوں نہیں ماڈل ٹائون پر بولتے کیونکہ اب ان کی من پسند حکومت آ گئی ہے اصل مطلب حل ہو گیا ہے اور اب عمران خان بھی بھول چکے ہیں۔ رہنما تحریک انصاف صداقت علی عباسی نے کہا کہ ہماری حکومت کے ایک سال کے دوران پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی طرف سے ایک ہی پیغام آ رہا ہے کہ وہ کام کر لیں ورنہ آپ پھنس جائیں گے۔  ورنہ ہم نا اہل بھی ہیں بہت ظالم بھی ہیں فسطائیت بھی ہے سب کو بند بھی کر دیا،  عرفان صدیقی کا مسئلہ اتنا بڑا ہے کہ ہم نے ان کو ایک دن جیل میں رکھ دیا اور جو نواز شریف، شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ نے بیٹھ کر 100 آدمیوں کو سیدھی گولیاں ماری تھیں طاہر القادری کا ایک بیریئر ہٹانے کے لئے اس سے بھی بڑا یہ ظلم ہو گیا یہ ایک ہی پیغام دے رہے ہیں کے ہمارے ساتھ آئیں بیٹھیں یہ پچھلا کھیل ختم کریں آگے مل کر چلتے رہیں ۔

عمران خان امریکا گئے تو کوئی ٹی وی کیمرہ نہیں گیا لیکن عمران خان کا 40 ہزار کا مجمع دیکھ کر سارے لوگوں نے ایک دوسرے کو کٹ کر کے دکھایا۔ بلاول اور مریم 500,500  آدمیوں کی ریلیاں نکالیں گے کیا پرائیویٹ چینل کی اس میں کشش ہے کہ وہ ان کو دکھائیں میڈیا کو کس نے روکا ہے کے وہ نہ دکھائے کسی نے نہیں روکا ہے۔ ہمارا بڑا واضح موقف ہے کہ آپ کسی بھی مسئلے پر تنقید کریں مگر مذہب کارڈ کا استعمال نہ کریں اگر وہ قانون کے دائرے میں آ کر احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو کریں اگرسیاسی ایشو پر آتے ہیں تو ہم کنٹینر بھی دیں گے جوس بھی دیں گے۔ سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ ہماری سیاست ایک دائرے میں گھوم رہی ہے، کبھی مریم نواز کے منہ سے سنا ہے کہ آئیں مفاہمت کرتے ہیں انہوں نے عمران خان کو کوئی برانچ پیش کی ہو نہیں سنیں گے کبھی شہباز شریف نے کھل کر کہا ہو کہ آ جائو تمہیں نہیں چھوڑیں گے کیونکہ انہوں نے گھر سے کردار بانٹے ہوئے ہیں اپنے اپنے رول کرنے ہیں منزل ایک ہے جس طرح بلاول نے اے پی سی میں پوزیشن لیں،مسلم لیگ نے نہیں لی، مولانا فضل الرحمن تحفظ ناموس رسالت پر آ گئے ہیں ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ نواز شریف کو استعفی نہیں دینا چاہئے  جب ہمارے سیاستدان پھنس جاتے ہیں اپوزیشن میں آتے ہیں اس وقت اصغر خان آ جاتا ہے کبھی نوابزادہ نصر اللہ خان آ جاتا ہے کبھی مولانا فضل الرحمن آ جاتا ہے اور ان کے کندھوں پر رکھتے ہیں اور نکل جاتے ہیں۔

جے یو آئی ایف کے سینیٹر مولانا عطا الرحمن نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام نے جو موقف دیا ہے وہ واضح موقف ہے کہ ہم دوسری سیاسی جماعتو ں کی مشاورت کے بعد تاریخ کا اعلان کریں گے اب تک ہم نے جتنے بھی ملین مارچ کئے ہیں ان کا اختتام کیا ہے۔ جہاں تک ہمارا مطالعہ ہے کہ ملک کے کسی طبقے کے لئے یہ حکومت اہل ثابت نہیں ہوئی ہے نہ معاشی طور پر یہ اپنی اہلیت دکھا سکی ہے نہ سیاسی طور پر اہلیت دکھا سکی ہے نہ مذہبی طور پر اہلیت دکھا سکی ہے ہر طبقے کو نقصان ہوا ہے نیازی نے امریکا جا کر تسلیم کر لیا ہے کے آسیہ کو انہوں نے چھڑوایا ہے اور بھیجا ہے۔

No comments.

Leave a Reply