اقتدار اور اختیار پر براجمان رہنے کے لیے اردگان کا طریقہ کار کیا ہے؟

معروف خاتون لکھاری حنا لوسینڈا سمتھ نے اردگان رائزنگ: دی بیٹل فار دی سول آف ترکی کے نام سے کتاب  تحریر کر چکی ہیں

معروف خاتون لکھاری حنا لوسینڈا سمتھ نے اردگان رائزنگ: دی بیٹل فار دی سول آف ترکی کے نام سے کتاب تحریر کر چکی ہیں

نیوز ٹائم

بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال جنم لیتا ہو گا کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کی جانب سے مسلسل انتخابات کے اجرا کی وجہ کیا ہے۔ اردگان کی جماعت اپنی انتخابی مہم کے لیے ریاست کے وسائل چوری کرتی ہے اور مقامی حریفوں کو ڈراتی دھمکاتی ہے۔ اردگان کے خاندان کے لوگ اور حلیف شخصیات کے ہاتھوں میں ترکی کے زیادہ تر ٹی وی چینلوں کا کنٹرول ہے۔ انہیں صحافت میں بھی کمزور سی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ الیکشن سیزن کے دوران پولنگ کے دن سے پہلے تک اردگان کو اپنے حریفوں کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ایئر ٹائم ملتا ہے۔

ان تمام امور کا انکشاف برطانوی اخبار The Times میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کیا گیا ہے۔ یہ مضمون Hannah Lucinda Smith نے لکھا ہے۔ معروف خاتون لکھاری Erdogan Rising: The Battle for the Soul of Turkey کے نام سے کتاب بھی تحریر کر چکی ہیں۔ مضمون میں Hannah Lucinda Smith کا کہنا ہے کہ یہاں تک کہ جب اردگان کی جیت نہیں ہوتی تب بھی وہ ایسے راستے اپناتے ہیں جس سے لگتا ہے کہ انہیں شکست نہیں ہوئی۔  سرکاری خبر رساں ایجنسی ”اناضول” کی یہ روش رہی ہے کہ وہ پہلے اردگان کی حمایت کے حامل علاقوں کے انتخابی نتائج پیش کرتی ہے تاکہ ایسا نظر آئے کہ وہ میدان مار چکے ہیں۔ اکثر مرتبہ ووٹوں کی مکمل گنتی سے پہلے ہی ان کی جیت کا اعلان کر دیا جاتا ہے اور ان کے حامی اور سپورٹرز جشن کے لیے سڑکوں پر آ جاتے ہیں۔

Hannah Lucinda Smith کے مضمون کے مطابق اردگان کو جمہوریت کی یہ مصنوعی نمائش دکھانے کا نشے کی حد تک جنون ہے۔ Hannah Lucinda Smith نے 6 سال قبل ترکی منتقل ہونے کے بعد سے وہاں منعقد ہونے والے انتخابات اور ریفرینڈم کے 7 ادوار کی بطور رپورٹر کوریج کی۔ اردگان کی انتخابی مہم لوگوں کے جم غفیر کے بیچ اپنا راستہ طے کرتی ہے۔ اس دوران اسٹیج پر نمودار ہونے والے اردگان انتہائی مسرت کے جذبات کے حامل نظر آتے ہیں۔ اسلامی دنیا کی قربانیاں اور مغرب پر منافقت کا الزام اردگان کے خطاب کے مرغوب ترین موضوعات ہیں۔

البتہ اردگان کی اپنی منافقت اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب وہ قوم کے ارادے پر لبیک کہنے کا دعوی کرتے ہیں جبکہ اسی دوران وہ بہت دور اپنے محل کی دیواروں کے اندر خود کو محفوظ کیے ہوتے ہیں۔ اردگان نے تطہیر اور آئینی اصلاحات کے ذریعے واقعتاً ملک کی ایگزیکٹو اتھارٹی، سیکورٹی فورسز اور عدلیہ پر اپنی گرفت مضبوط بنا لی ہے۔ اردگان نے اپنے اختیارات کو ملک کے حالات بہتر بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ گزشتہ دہائی کے دوران قرضوں کا زیادہ تر حصہ تعلیم یا صنعتی سیکٹر کو جدید بنانے پر خرچ کرنے کے بجائے تعمیراتی منصوبوں میں جھونک دیا گیا۔ اگرچہ ترک لیرہ کی قدر میں کمی واقع ہوئی تاہم اردگان کی جانب سے شرح سود کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرنے کا اصرار جاری ہے۔ اس امر نے غذائی اشیا اور ایندھن کی قیمتیں بڑھا دیں۔

مشرق وسطیٰ کے امور میں مداخلت کی پالیسی کے نتیجے میں 36 لاکھ شامی پناہ گزینوں کا سیلاب ترکی میں امڈ آیا۔ بہت سے ترکوں کے لیے یہ نہایت حساس معاملہ تھا جو کہ روزی، روٹی کے لیے ہاتھ، پائوں مارنے میں مصروف ہیں۔ اردگان کی جیت کا مارجن ہمشیہ معمولی رہا اور اب یہ تناسب تیزی کے ساتھ گر رہا ہے۔ رواں سال 31 مارچ کی رات اردگان کے حوالے سے کسی قیامت سے کم نہ تھی۔ اس روز بلدیاتی انتخابات کے نتائج اردگان کی گرتی مقبولیت کے لیے ایک ریفرینڈم ثابت ہوئے اور ان کی جماعت بڑے شہروں سمیت ملک بھر میں بہت سی نشستیں کھو بیٹھی۔ اردگان کے تصور میں بھی نہ تھا کہ بلدیاتی انتخابات میں انہیں اس کاری ضرب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یقینا اردگان مطلق العنانی کے روایتی طریقوں کے علاوہ استبدادیت کے خود ساختہ ذرائع بھی بروئے کار لاتے ہیں۔ مبصرین کے نزدیک ایک سمت کے حامل انتخابی کھیل کے ذریعے جمہوریت کے پردے میں آمریت پوری طرح نافذ کی جا رہی ہوتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں اردگان کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔  اس چیز کا اظہار ان کے شدید ردعمل سے بھی ہوا۔  اس طرح 2023 ء میں مقررہ آئندہ انتخابات میں اپوزیشن کی جیت کے امکانات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔

اس وقت اردگان کے سامنے جو آپشن ہیں ان میں جمہوریت کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھنا یا پھر غیر منصفانہ آمر کے طور پر حکمرانی کرنا شامل ہے۔  اردگان کے حالیہ اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دوسرے آپشن کی جانب مائل ہیں۔ البتہ ایک تیسرا آپشن یہ ہے کہ وہ دل کی خوشی کے ساتھ اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں تاہم اردگان یہ باور کرا چکے ہیں کہ وہ اس اقدام پر آمادہ نہیں ہوں گے۔

مضمون نگار Hannah Lucinda Smith نے خبردار کیا ہے کہ اردگان کا خطرہ ترکی تک محدود نہیں بلکہ یہ یقیناً ایک وبائی مرض کی طرح یورپ کے دیگر ممالک میں پھیل رہا ہے۔ اردگان  ترکی میں جس راہ پر گامزن ہیں وہ یورپ میں ان عوامیت پسندوں پر اثر انداز ہو گی جو ترکی کے صدر کو مسابقتی استبداد میں ایک معلم اور رول ماڈل کے طور پر دیکھتے ہیں۔

No comments.

Leave a Reply