عدالت نے برطانوی پارلیمنٹ معطل کرنے کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے دیا، غیر ملکی طلبہ کو دو سال تک ملازمت کی اجازت

برطانیہ میں غیر ملکی طلبہ کو  دو سال تک ملازمت کی اجازت

برطانیہ میں غیر ملکی طلبہ کو دو سال تک ملازمت کی اجازت

لندن ۔۔۔ نیوز ٹائم

برطانیہ کی حکومت نے بعد از بریگزٹ (یورپی یونین سے علیحدگی) امیگریشن پالیسی کا اعلان کر دیا جس کے تحت غیر ملکی طلبہ کو گریجویشن مکمل کرنے کے بعد 2 سال تک ملازمت کی اجازت ہو گی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سیکریٹری تجارت اینڈریا لیڈسن نے کہا  کہ مذکورہ تبدیلی کا مقصد دنیا بھر سے شاندار تعلیمی کارکردگی کے حامل طلبہ کی پذیرائی اور یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد برطانیہ کی ترجیحات کی ایک علامت ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یورپی یونین سے طلبہ کی آزادانہ آمدورفت کے بجائے،  برطانیہ غیر ملکی طلبہ کی موجودگی سے فائدہ اٹھائے گا اور یقیناً یہ ہمارے لیے خوش آئند ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی میں غیر ملکی طلبہ کی تعداد میں 2030ء تک 30 فیصد اضافہ چاہتی ہے جو کم از کم 6 لاکھ بنتے ہیں۔لیڈسن نے کہا کہ گریجویشن کے بعد 2 سال تک ملازمت کرنے سے طلبہ کی ڈگری کی اہمیت بڑھے گی۔

اسکاٹ لینڈ کی سپریم سول کورٹ نے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی جانب سے پارلیمنٹ معطل کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا

اسکاٹ لینڈ کی سپریم سول کورٹ نے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی جانب سے پارلیمنٹ معطل کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا

اسکاٹ لینڈ کی سپریم سول کورٹ نے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی جانب سے پارلیمنٹ معطل کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا جو برطانوی حکومت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے  اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے 78 قانون سازوں نے بورس جانسن کی جانب سے ملکہ الزبتھ دوئم کو Brexit پر غور کرنے کے لیے پارلیمنٹ معطل کرنے کی درخواست دینے کو غیر قانونی قرار دینے سے متعلق عدالت میں اپیل کی تھی۔ تاہم 4 ستمبر کو سیشن کورٹ کے جج Lord Doherty, نے بورس جانسن کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دینے کی اپیل مسترد کر دی تھی  اور کہا تھا کہ یہ فیصلہ سیاستدان کرتے ہیں عدالتیں نہیں کرتیں۔ 2 روز قبل اسکاٹ لینڈ میں واقع سول سپریم کورٹ کے انر ہائوس کے 3 ججز نے Lord Doherty, کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ دوران سماعت جج Lord Carloway نے بتایا کہ  ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم بورس جانسن کی جانب سے ملکہ الزبتھ دوئم کو پارلیمنٹ معطلی کی درخواست کرنا غیر قانونی ہے اور پارلیمنٹ معطل کرنا بھی غیر قانونی ہے۔ اس حوالے سے بورس جانسن کی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے سے مایوس ہوئے ہیں اور سپریم کورٹ میں اس کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ برطانوی حکومت کو مضبوط قانونی لائحہ عمل پیش کرنے کی ضرورت ہے،  ایسا کرنے کے لیے پارلیمنٹ معطل کرنا قانونی اور ضروری راستہ ہے۔ گزشتہ ہفتے لندن کی ہائی کورٹ میں پارلیمنٹ معطل کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔ برطانوی حکومت نے عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی جو 17 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کی گئی ہے۔ تاہم اس دوران عدالت کی جانب سے معطلی کو غیر قانونی قرار دینے کے باوجود برطانوی پارلیمنٹ معطل رہے گی۔بورس جانسن کا کہنا ہے کہ 14 اکتوبر تک پارلیمنٹ معطل کرنے کا فیصلہ حکومت کو آئندہ کا نیا لائحہ عمل تیار کرنے کے تناظر میں معمول کا اقدام ہے۔

دوسری جانب ناقدین بورس جانسن کے اس اقدام کو 31 اکتوبر کو یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے منصوبے پر اپوزیشن کو خاموش کروانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں  کیونکہ برطانوی وزیر اعظم برسلز کی جانب سے Brexit کی شرائط پر متفق نہیں ہیں۔ بورس جانسن کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں  لیکن برطانیہ کو کسی معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے الگ ہو جانا چاہیے تاہم ارکان پارلیمنٹ کو خدشہ ہے کہ بے قاعدہ علیحدگی سے بڑے پیمانے پر تباہی ہو گی۔ 6 ستمبر کو برطانیہ کے ایوانِ بالا نے وزیر اعظم بورس جانسن کو Brexit میں تاخیر کرنے پر مجبور کرنے کے لیے قانون کو حتمی منظوری تھی۔ اس قانون کے مطابق اگر برطانوی وزیر اعظم یورپی یونین کے ساتھ بریگزٹ معاہدہ کرنے میں ناکام ہو گئے  تو یورپی یونین سے برطانیہ کے اخراج کی حالیہ حتمی مدت 31 اکتوبر سے آگے بڑھا دی جائے گی۔ تاہم باقاعدہ حکم جاری ہونے کے بعد اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی نے وزیر اعظم سے ارکان اسمبلی کو واپس آنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

Brexit ترجمان Keir Starmer نے کہا تھا کہ  میں وزیر اعظم پر زور دیتا ہے کہ فوری طور پر پارلیمنٹ دوبارہ طلب کی جائے  تاکہ اس فیصلے پر بحث کی جائے اور آئندہ لائحہ عمل طے کیا جائے۔ تاہم حکومتی ذرائع نے بتایا کہ کیس کا فیصلہ ہونے تک کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا۔ مختلف جماعتوں کے ارکان پارلیمنٹ نے آج دارالعوام کے باہر احتجاج کیا اور کہا کہ وہ اپنی نشستیں واپس لینے کے لیے تیار ہیں۔ خیال رہے کہ اگست کے اواخر میں برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوئم نے یورپی یونین سے علیحدگی (Brexit) کے معاملے پر وزیر اعظم بورس جونسن کی درخواست پر پارلیمنٹ معطل کرنے کی منظوری دی تھی۔

بورس جونسن بطور وزیر اعظم:

واضح رہے کہ بورس جونسن نے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ  ہم ملک کو متحرک کرنے جا رہے ہیں، ہم 31 اکتوبر تک یورپی یونین سے علیحدہ ہو جائیں گے اور اس سلسلے میں ہم ایک تمام مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے۔ بورس جانسن نے کہا تھا کہ ہم بہتر تعلیم، بہتر انفراسٹرکچر، مزید پولیس کے ذریعے خوداعتمادی کے فقدان اور منفی تاثر کا خاتمہ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اس حیرت انگیز ملک کو متحد کرنے جا رہے ہیں اور ہم اسے مزید آگے لے کر جائیں گے۔ یاد رہے کہ سابق برطانوی وزیر اعظم Theresa May نے 24 مئی کو انتہائی جذباتی انداز میں اعلان کیا تھا  کہ وہ 7 جون کو وزیر اعظم اور حکمراں جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی رہنما کے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گی اور 7 جون کو انہوں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

No comments.

Leave a Reply