پیپلز پارٹی کے لیے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی گرفتاری سب سے بھاری ہو گی

نیب نے مراد علی شاہ کو 24 ستمبر کو طلب کر رکھا  ہے

نیب نے مراد علی شاہ کو 24 ستمبر کو طلب کر رکھا ہے

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

آصف زرداری سے لے کر خورشید شاہ تک پیپلز پارٹی کی ٹاپ لیڈرشپ نیب کے شکنجے میں جا چکی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی ممکنہ گرفتاری پارٹی کے لیے سب سے بھاری ثابت ہو گی۔ کیونکہ اس گرفتاری کی صورت میں ہی صوبے میں سیاسی تبدیلی کا خطرہ ہے۔ جس کے لیے حکومت پچھلے ایک برس سے زور لگا رہی ہے۔ ”امت” نے 21 اگست 2019ء کی اشعت میں صفحہ 3 پر وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور خورشید شاہ کی گرفتاری نزدیک آنے کی رپورٹ دی تھی۔ خورشید شاہ اب گرفتار ہو چکے ہیں۔ جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مراد علی شاہ کے خلاف ٹھٹھہ شوگر ملز، سندھ کی بیمار صنعتوں کی بحالی کے نام پر اومنی گروپ کو 16 ارب روپے کی ادائیگی اور سندھ میں 6 چھوٹے بجلی گھروں کو سبسڈی کی مد میں خطیر رقم دینے کی تحقیقات میں اہم شواہد حاصل کئے جا چکے ہیں۔ جس کے بعد نیب کی مجاز اتھارٹی سے ان کی گرفتاری کی اجازت لی جا چکی ہے۔ منگل کے روز نیب نے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو کراچی بیورو میں پیش ہونے کی ہدایت کی تھی۔ اس سلسلے میں نیب راولپنڈی کی خصوصی ٹیم کراچی پہنچی تھی۔ تاہم مراد علی شاہ بعض مصروفیات کو جواز بنا کر ٹیم کے روبرو پیش نہیں ہوئے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس پیشی پر مراد علی شاہ کو اپنی گرفتاری کا خدشہ تھا۔ اس لئے دانستہ انہوں نے پیش ہونے سے گریز کیا۔ تاہم ذرائع کے بقول وزیر اعلیٰ کو یہ پیغام پہنچا دیا گیا ہے کہ وہ نیب کے روبرو پیش کو یقینی بنائیں۔ کیونکہ مناسب نہیں ہو گا کہ انہیں گاڑی روک کر راستے میں گرفتار کیا جائے۔لہذا وہ اس ممکنہ بدمزگی سے بچیں۔

ذرائع کے مطابق اس انتباہ نما مشورے کے بعد مراد علی شاہ نے نیب کے سامنے پیش ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انہیں 24 ستمبر کو نیب نے طلب کیا ہے۔ ساتھ ہی وزیر اعلیٰ کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنے ہمراہ دائودو اور ٹھٹھہ شوگر ملز کا تمام ریکارڈ بھی لے کر آئیں۔ مراد علی شاہ پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے بطور صوبائی وزیر خزانہ ان شوگر ملوں کو انتہائی ارزاں قیمت میں فروخت کیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 24 ستمبر کی پیشی کے موقع پر مراد علی شاہ کی گرفتاری خارج ازامکان نہیں۔ تاہم خورشید شاہ کی تازہ گرفتاری کے فوری اثرات کم کرنے کے لیے اس مجوزہ گرفتاری میں اب کچھ مزید تاخیر پر غور کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہ تاخیر زیادہ طوالت اختیار نہیں کرے گی کہ اس کی تیاری پہلے سے ہی کی جا چکی ہے۔

اسلام آباد کے حکومتی حلقوں میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ی ممکنہ گرفتاری اس لئے پیپلز پارٹی پر سب سے بھاری ثابت ہو گی کہ اس صورت میں پارٹی کو نیا قائد ایوان منتخب کرانا پڑے گا۔ نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب  کے موقع پر پیپلز پارٹی کے ناراض ارکان خاموشی سے غائب ہو سکتے ہیں یا اپوزیشن کی بنچوں پر بیٹھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے بعض رہنما کھلے عام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے 20 سے 22 ارکان صوبائی اسسمبلی ان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق چونکہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لیے خفیہ رائے شماری نہیں ہوتی بلکہ حامی ارکان ایک طرف  اور مخالف ارکان دوسری طرف جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ لہذا یہ ممکن نہیں کہ ہارس ٹریڈنگ کی صورت میں پارٹی سے غداری کرنے والے منظر عام پر نہ آ سکیں۔ اور یہ ایکشن پارٹی سربراہ الیکشن کمیشن کے ذریعے لے سکتا ہے۔ تاہم یہ ایک طویل پراسس ہے۔ نئے قائد ایوان کے انتخاب کے موقع پر ہارس ٹریڈنگ ہوتی بھی ہے تو وزیر اعلیٰ منتخب ہو جائے گا۔ اس میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ جبکہ بغاوت کرنے والے ارکان کو نااہل کرانا بعد کی بات ہے۔

ذرائع کے مطابق اس ممکنہ صورتحال میں صوبے میں جو سیاسی بحران پیدا ہو گا۔ اس سے سندھ میں گورنر راج کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ اگرچہ حکومت ایک سے زائد بار گورنر راج کی خبروں کو مسترد کر چکی ہے۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ تھا کہ یہ آپشن اب  بھی زندہ ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی ممکنہ گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے بارے میں الیکشن  کمیشن پاکستان کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کو کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی گرفتاری کی صورت میں بھی سسٹم چلتا رہے گا۔ اور صوبائی اسمبلی برقرار رہے گی۔ تاہم پارٹی کے سربراہ کو لیڈر آف دی ہائوس مقرر کرنا پڑے گا۔ پھر نئے وزیر اعلیٰ کا ازسرنو انتخاب ہو گا۔ کنور دلشاد کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے۔ لہذا پی پی کو اپنا نیا وزیر اعلیٰ منتخب کرانے میں بظاہر دشواری نہیں ہو گی۔ لیکن موجودہ سیاسی سیناریو میں یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر ہارس ٹریڈنگ کر کے پی پی کی اکثریت ختم کر دی جائے۔ کنور دلشاد نے اس بات کی تصدیق کی کہ 18ویں ترمیم کے تحت اگرچہ پارٹی پالیسی سے ہٹ کر ووٹ دینے والے رکن کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن قائد ایوان کے انتخاب کے موقع پر اگر پیپلز پارٹی کے بعد ارکان پارٹی پالیسی سے ہٹ کر مخالف امیدوار کو ووٹ دینے ہیں تو پھر بھی وزیر اعلیٰ منتخب ہو جائے گا۔ اس کے بعد ہی بغاوت کرنے والے ارکان کے خلاف پارٹی سربراہ الیکشن کمیشن سے رجوع کر سکتا ہے۔ اور پھر نااہلی کا عمل کئی ماہ چلے گا۔ اپنی بعض معلومات کی روشنی میں کنور دلشاد کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی گرفتاری کے بعد سندھ میں گورنر راج بھی لگ سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی گرفتاری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی انتشار کا جواز بنا کر حکومت گورنر کے ذریعے صوبائی اسمبلی کو تین ماہ تک معطل کر سکتی ہے۔ اور کہہ سکتی ہے کہ اس تین ماہ کے دوران سندھ اسمبلی میں نئے قائد ایوان کو تقرر کیا جائے۔ اس میں کوئی آئینی رکاوٹ نہیں۔

سندھ میں سیاسی تبدیلی کی سب سے بڑی حامی گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) میں شامل پارٹیاں شامل ہیں۔ جی ڈی اے کے ذرائع نے صوبے میں پیپلز پارٹی حکومت ختم کرنے سے متعلق جن شرائط کا دعویٰ کیا تھا۔ وہ ایک ایک کر کے پوری ہو رہی ہیں۔ صوبے میں تبدیلی کے خواہشمندوں کو واضح طور پر کہا گیا تھا کہ جب تک آصف زرداری، فریال تالپور اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ  گرفتار نہیں ہوتے۔ یہ منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اب ان شخصیات میں سے صرف وزیر اعلیٰ سندھ آزاد ہیں۔  جی ڈی اے شام تمام پارٹیاں سمجھتی ہیں کہ کراچی اور حیدرآباد کی بربادی میں ایم کیو ایم کا ہتھ ہے۔ لہذا ان دونوں شہروں کے لیے بنائی جانے والی کمیٹی کا سربراہ ایم کیو ایم سے لینا کسی صورت میں قابل قبول نہیں۔ ذرائع کے بقول اس طرح سندھ میں تبدیلی کے خواہش مندوں کو یہ پیغام بھی پہنچا دیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت کراچی کو مرکزی حکومت کے زیر کنٹرول لینے کے عمل کو بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

No comments.

Leave a Reply