پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس: 24 اکتوبر سے روزانہ سماعت کا فیصلہ

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی 24 اکتوبر سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا فیصلہ کر لیا۔جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آئندہ سماعت سے قبل تمام فریقین کو تحریری طور پر اپنے اعتراضات جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔ مقدمے کی سماعت پر پرویز مشرف کے وکیل رضا بشیر حاضر نہیں ہو سکے تاہم ان کے حوالے سے ایک درخواست جمع کرائی گئی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے سماعت پر غیر حاضر ہوا۔ درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ رضا بشیر میو ہسپتال لاہور میں ڈینگی کے باعث زیر علاج ہیں جس پر عدالت نے درخواست منظور کر لی۔

اس سے قبل رواں برس ستمبر میں ہونے والی گزشتہ سماعت پر خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں 8 اکتوبر سے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کا فیصلہ کیا تھا۔ جسٹس طاہرہ صفدر کی ریٹائرمنٹ کے بعد وفاقی حکومت نے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ سے کیس کی سماعت مکمل کرنے کی درخواست کی تھی۔ 25 ستمبر کو ہونے والی سماعت میں خصوصی عدالت کی ہدایت پر وزارت قانون کی جانب سے مقرر کیے گئے  وکیل دفاع رضا بشیر ایڈووکیٹ نے کیس میں دلائل کے لیے ہدایت حاصل کرنے کے لیے سابق صدر پرویز مشرف سے ملاقات کے لیے درخواست دائر کی تھی۔ تاہم عدالت نے اس درخواست پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملزم کو پہلے ہی پاکستان پینل کوڈ (سی آر پی سی) کے سیکشن 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا ہوا ہے۔ خیال رہے کہ عدالت کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر کو مفرور ملزم کی نمائندگی کرنے سے روک دیا تھا  اور ایڈووکیٹ رضا بشیر طویل عرصے سے چلنے والے اس مقدمے کو ختم کرنے میں اپنی خدمات دے رہے ہیں۔

غداری کیس کا پس منظر:

خیال رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے آئین شکنی پر سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی  جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013ء کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو 24 دسمبر 2013 ء کو طلب کیا تھا۔ یہ درخواست پرویز مشرف پر آرمی چیف کی حیثیت سے 3 نومبر 2007 ء کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر دائر کی گئی تھی۔ اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 ء میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو پروسیکیوشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کر دیا تھا۔

فروری 2014 ء میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 ء کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے۔ مارچ 2014 ء میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پروسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔ عدالت نے 8 مارچ 2016 ء کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔ بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔ تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کر سکی تھی  جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال 2018 ء کے آغاز میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھیں  اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے،  جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے مئی میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کر دیا تھا۔ بعد ازاں 11 جون 2018 ء کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

No comments.

Leave a Reply