امریکی انخلا کے بعد شامی کرد ملیشیا کے آپشن

کرد کی زیرقیادت ملیشیا کی فوج

کرد کی زیرقیادت ملیشیا کی فوج

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

صدر ٹرمپ کے اعلان کے بعد جبکہ شام کے شمالی علاقے سے امریکی فوجیوں کا انخلا شروع ہو گیا ہے، کرد اہلکار اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کرد عسکریت پسندوں کو ترک فوج کی طرف سے حملوں کے تناظر میں اپنے تحفظ کی خاطر دیگر قوتوں سے رجوع کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ کرد فوجیں ISIS کے خلاف بردآزما رہی ہیں اور اس میں انہیں امریکی اور بین الاقوامی اتحادی فوجوں کی حمایت حاصل تھی۔ کرد اہلکاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حالیہ برسوں کے دوران کرد فوجوں کو امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ کردوں کی سرکردگی میں نیم خودمختار انتظامیہ کے شعبہ امور خارجہ کے Chairman Abdul Karim Omar کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے حمایت ختم کرنے کے بعد کرد فوجوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے اور ان کا بڑا مقصد ترک فوجوں کی طرف سے حملے کو روکنا ہے۔

شام میں 2011 ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے نتیجے میں شامی فوجوں کی پسپائی کے بعد سے کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹ یعنی YPG نے ملک کے شمالی علاقے میں اپنا اختیار برقرار رکھا ہے۔ واشنگٹن کے معروف تھنک ٹینک  نیو امریکن سیکیورٹی سے وابستہ تجزیہ Nicholas Harris کا کہنا ہے  کہ امریکہ کی طرف سے شام ۔ ترک سرحد کے قریب واقع علاقے سے اپنی فوجیں واپس بلانے کے فیصلے کے بعد کرد فوجیں مشکلات کا شکار ہو گئی ہیں  اور اس بات کا امکان ہے کہ کرد فوج ایس ڈی ایف شام کے صدر بشار الاسد کو اپنی فوجیں اس علاقے میں واپس بھیجنے کی اجازت دے سکتی ہے تاکہ ترک فوج کے ممکنہ حملے کو روکا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا اقدام کردوں کے لئے کڑوی گولی نگلنے کے مترادف ہو گا اور اگر امریکہ نے ترکی کو شام پر حملہ کرنے کی ترغیب دی تو کردوں کے لئے بشار الاسد سے رجوع کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہے گا۔

 SDF داعش (ISIS) کے خلاف لڑائی میں امریکہ کی موثر شراکتدار رہی ہے تاہم امریکہ کا نیٹو اتحادی ملک ترکی اس شراکت پر معترض رہا ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ SDF فوج میں زیادہ تر اہلکار ترک علاقے سے فرار ہونے والے کرد باغی ہیں جو ترکی کی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔ گزشتہ اگست میں امریکہ اور ترکی کے درمیان کے معاہدے کے بعد ترک فوج اور شام میں کرد فوج کے درمیان ایک بفر زون تشکیل دیا گیا تھا۔ تاہم ترکی اپنی سرحد کے قریب واقع شام کے علاقے پر حملہ کر کے کردوں کو وہاں سے بے دخل کرنے کی دھمکی دیتا رہا ہے۔

وائٹ ہائوس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ترکی حملے میں جلد ہی پیش قدمی کرے گا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکہ اس کارروائی میں کوئی مدد فراہم نہیں کرے گا اور امریکی فوجوں کی طرف سے( (ISIS داعش  کی خلافت کو شکست دینے کے بعد اس علاقے میں مزید ملوث نہیں رہے گا۔ شام میں اب تک امریکہ کے فوجیوں کی 1000 کے لگ بھگ نفری موجود تھی جس نے( (ISIS داعش  کے خلاف لڑائی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ کرد فوج کے اہلکاروں نے تصدیق کی ہے کہ امریکہ نے ترکی کے ساتھ سرحدی علاقوں سے اپنی فوج واپس بلا لی ہے۔

عراقی کردستان کے شہر Erbil میں واقع صلاح الدین یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس کے پروفیسر Radwan Badenکا کہنا ہے کہ شام کے شمالی علاقے سے امریکی فوجیوں کی واپسی سے پیدا ہونے والا خلا روس پورا کر سکتا ہے۔بدینی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کا اب بھی امکان موجود ہے کہ روس شام میں بشار الاسد کی حکومت اور کردوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرے۔

No comments.

Leave a Reply