بارہ اکتوبر 1999ء کی اصل کہانی

چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل مشرف نے 12 اکتوبر، 99ء کو وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ دھڑن کر دیا تھا

چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل مشرف نے 12 اکتوبر، 99ء کو وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ دھڑن کر دیا تھا

نیوز ٹائم

سابق سیکرٹری دفاع جنرل (ر) افتخار، سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی برطرفی اور جنرل ضیاء الدین بٹ کی بحیثیت آرمی چیف کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لئے وزارت دفاع جا رہے تھے  کہ انہیں فون آیا کہ وہاں نہ جائیں فوج آ گئی ہے آپ جنرل عزیز کے پاس تشریف لے آئیں۔ وہ وہاں پہنچے تو کہا گیا کہ آپ یہاں بیٹھیں جب تک ضابطہ کی کارروائی مکمل نہیں ہو جاتی یعنی وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی حکومت کا خاتمہ۔ یہ انکشافات ایک عینی شاہد نے کئے جو نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھی رہے۔  دیکھا جائے تو قانونی طور پر نہ مشرف برطرف ہوئے نہ ضیاء الدین چیف بنے۔  کچھ دیر بعد جنرل افتخار کو گھر سے فون آیا کہ فوج نے گھیرا ہوا ہے۔ انہوں نے شکایت کی تو جواب آیا پریشان نہ ہوں ابھی واپس چلی جائے گی۔ اس کے بعد انہیں گھر جانے کی اجازت مل گئی۔ ایک بات جو ان تمام واقعات کے عینی شاہد نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتائی کہ میاں صاحب پہلے خود سمری لے کر صدر کے پاس گئے  جس پر لکھا تھا   ” President May See” اور جواب میں صدر نے لکھا “I have seen” اس کے بعد جنرل افتخار سے میاں صاحب نے کہا کہ آپ اس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیں۔ عینی شاہد نے کہا کہ میاں صاحب شہباز صاحب برابر والے کمرے میں ہیں آپ ان سے بھی مشورہ کر لیں۔  جواب ملا اب فیصلہ ہو چکا ہے مشوروں کا وقت نکل گیا۔ تاہم انہوں نے اس تاثر کو رد کر دیا کہ مشرف کو بٹھانے کی فوری وجہ اس وقت کوئٹہ کے کور کمانڈر جنرل طارق پرویز بنے۔  میرا نہیں خیال کہ یہ بات درست ہے کیونکہ ان کی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ میاں صاحب شہباز شریف اور جنرل مشرف کی رائے ونڈ ملاقات میں ہو گیا تھا۔ گو کہ جنرل صاحب وہاں تعزیت کے لئے گئے تھے مگر بات چیت کے دوران شہباز صاحب نے جنرل صاحب سے درخواست کی کہ طارق والی بات کر لیں۔

میاں صاحب نے پوچھا کیا ہوا۔ سر، میں چاہتا ہوں طارق کو ریٹائر کر دیا جائے اس کی کچھ سرگرمیاں ادارے کے لئے نقصان دہ ہیں۔ جواب آیا مجھے کوئی اعتراض نہیں، آپ سمری بھیج دیں۔ غالباً 9 اکتوبر کو فیصلہ ہو گیا تھا کہ جنرل طارق 13 اکتوبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ اسی دن ایک خبر ان کی وزیر اعظم سے ملاقات کی چھپ گئی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ملاقات ہوئی نہیں تھی۔ البتہ وزیر اعظم کو ملاقات کی درخواست ملی تھی۔ وزیر اعظم نے خبر پر ناراضگی کا اظہار کیا اور ISPR کو ہدایت کی کہ اس کی فوری تردید جاری کی جائے۔ 12اکتوبر کی صبح ان کی پہلی ملاقات سابق وفاقی وزیر اور جنرل طارق کے بھائی نادر پرویز سے ہوئی۔  نادر نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ طارق کل ریٹائر ہو رہا ہے۔ اگر ہو سکے تو آج اس سے مل لیں آپ کے پاس درخواست پڑی ہوئی ہے۔  جنرل مشرف جو اس دن سری لنکا میں تھے، نے جانے سے پہلے وزیر اعظم سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنی اہلیہ کو بھی لے جانا چاہتے ہیں۔میاں صاحب نے کہا کیوں نہیں۔

دوسری طرف جنرل مشرف کے ایک قریبی ساتھی جو اس وقت فوج میں اہم عہدے پر فائز تھے، نے کولمبو جانے سے پہلے اپنے کچھ قریبی ساتھیوں جن میں جنرل محمود، جنرل عزیز، جنرل خالد مقبول اور غالبا جنرل عثمانی کو اعتماد میں لے لیا تھا کہ اگر وزیر اعظم کی طرف سے کوئی اعلان ہو تو انہوں نے کیا کرنا ہے۔ دوسری طرف ISI کے سابق چیف جنرل ضیاء الدین کو اندازہ نہیں تھا کہ فوج مشرف کے ساتھ کھڑی ہے۔ کم سے کم اس دن جو ہوا اس سے تو یہی لگتا ہے۔ جب PTV پر اعلان ہوا تو شہباز اور چوہدری نثار حیران تھے کہ میاں صاحب نے یہ کیا کر دیا اور وہ بھی بغیر مشاورت کے۔ میاں صاحب کو جب یہ پتا چلا کہ فوج کی اعلی قیادت نے فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا ہے تو انہوں نے ضیاء الدین سے کہا کہ آپ کی کمان اور اتھارٹی کدھر ہے۔  ان کی حکومت مشرف کا جہاز کراچی میں لینڈ کرنے سے پہلے ہی ختم ہو گئی تھی۔ جنرل مشرف کا تقرر شہباز اور چوہدری نثار علی خان کی سفارش پر ہوا تھا جنہوں نے مری میں ملاقات کے بعد میاں صاحب کو مثبت رپورٹ دی کہ یہ جنرل علی قلی خان کے مقابلے میں بہتر بھی ہے اور کمزور بھی۔ یہ وہی غلطی ثابت ہوئی جو بھٹو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کے تقرر کے موقع پر کی تھی مگر تقرر کے چند ماہ بعد ہی کچھ ملاقاتوں سے میاں صاحب کو اندازہ ہو گیا کہ ویسا نہیں ہے جیسا وہ سمجھ رہے تھے۔ کارگل ہوا تو میاں صاحب کو بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا فون آیا میاں صاحب جو اس وقت کراچی میں تھے جنرل مشرف کو فون کیا اور پوچھا کارگل میں کیا ہوا ہے۔ مشرف صاحب نے کہا کہ آپ اسلام آباد آئیں گے تو میں مکمل رپورٹ پیش کر دوں گا۔  دو دن بعد راولپنڈی میں آرمی چیف نے اپنی ٹیم کے ساتھ وزیر اعظم کو مکمل بریفنگ دی۔ میاں صاحب خوش بھی ہوئے اور دعا بھی کروائی مگر جاتے وقت مشرف صاحب سے کہہ گئے کہ مجھے اعتماد میں لینا چاہئے تھا۔

جنرل مشرف نے 12 اکتوبر، 99ء کراچی پہنچتے ہی اپنی اس ٹیم سے بریفنگ لی جس کو وہ پہلے، الرٹ کر گئے تھے۔ اب فیصلہ یہ کرنا تھا کہ مارشل لا لگانا ہے یا کچھ اور۔ رات کو تقریر کا وقت ہوا تو وہاں موجود پی ٹی وی کے افسر اطہر وقار عظیم نے ان سے پوچھا کہ سر، قومی ترانہ تو صرف صدر یا وزیر اعظم کی تقریر سے پہلے ہوتا ہے اور آپ تو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے زور نہیں دیا اور پہلی تقریر بغیر قومی ترانہ کے ہوئی۔  دوسرے روز انہوں نے جناب شریف الدین پیرزادہ کو طلب کیا اور مشورہ لیا کہ کیا کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا مارشل لا لگا دیں گے تو دنیا سے ردعمل آئے گا۔ ابھی تو آپ چیف ایگزیکٹو کا عہدہ لیں پھر عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔ اس بات کو 20 سال ہو گئے۔  میاں صاحب کل بھی جیل میں تھے اور آج بھی۔  مشرف صاحب کل بھی باہر تھے اور آج بھی۔ جمہوریت اور آمریت میں بس اتنا ہی فرق ہے۔

No comments.

Leave a Reply