ملکی تاریخ کا سب سے بڑا حکومت مخالف اتحاد تشکیل

مولانا فضل الرحمان ملکی تاریخ کا سب سے بڑا حکومت مخالف اتحاد تشکیل دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں

مولانا فضل الرحمان ملکی تاریخ کا سب سے بڑا حکومت مخالف اتحاد تشکیل دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

مولانا فضل الرحمان ملکی تاریخ کا سب سے بڑا حکومت مخالف اتحاد تشکیل دینے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سمیت اپوزیشن کی 10 چھوٹی بڑی پارٹیاں Azadi March میں شریک ہوں گے۔ واضح  رہے کہ اس سے پہلے حکومت مخالف بڑے اتحادوں پاکستان نیشنل الائنس اور ایم آر ڈی (تحریک بحالی جمہوریت) میں 9,9 پارٹیاں شامل تھیں۔ پاکستان نیشنل الائنس یا قومی اتحاد، پارٹیوں کی ان تعداد کی وجہ سے 9 ستاروں کے نام سے مشہور ہوا تھا۔ جے یو آئی کے ذرائع تمام اپوزیشن پارٹیوں کو ایک پیج پر لانے میں کامیابی کو اگرچہ مولانا فضل الرحمان کی سیاسی سوجھ بوجھ اور اس حوالے سے تشکیل دی جانے والے کمیٹی کی کوششوں سے جوڑ رہے ہیں۔ تاہم اسلام آباد کے اہم حلقے اسے ”غیبی مدد” کے طور پر دیکھتے ہیں کہ سینیٹ چیئرمین کے الیکشن اور بعد ازاں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اتحاد ناکام بنانے والی طاقتیں اس اپوزیشن اتحاد کی تشکیل روکنے میں کیوں ناکام رہیں؟

ذرائع نے بتایا کہ جب حکومت مخالف تحریک کے حوالے تشکیل دی گئی Rahbar Committee کا جولائی میں پہلا اجلاس ہوا تھا تو اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان متعدد ایشوز پر اختلاف رائے تھا۔ حتی کہ Rahbar Committee کی چیئرمین شپ کے معاملے پر بھی تنازعہ پیدا ہو گیا تھا۔ کیونکہ پیپلز پارٹی اپنے سینئر رہنما اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو Rahbar Committee کا چیئرمین بنانا چاہتی تھی۔ تاہم مسلم لیگ ن اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی سپورٹ سے اکرام درانی کمیٹی کے چیئرمین بنا دیئے گئے۔ ذرائع نے بتایا کہ شروع میں اے این پی بھی مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں تحریک چلانے کے حق میں نہیں تھی۔ اسفندیار ولی نے یہاں تک کہا تھا کہ ان کی پارٹی Rahbar Committee کے فیصلوں کی پابند نہیں۔ جمعیت علمائے اسلام ف اور عوامی نیشنل پارٹی کو کٹر سیاسی حریفوں کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ لیکن اب اسی اے این پی نے نہ صرف مولانا کے Azadi March میں بھرپور شرکت کا اعلان کر دیا ہے۔ بلکہ Asfandyar Wali نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر جے یو آئی کی قیادت گرفتار ہو گئی تو وہ خود Azadi March کی قیادت کریں گے۔ مختلف پارٹیوں کے لیے تشکیل دی گئی جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی رابطہ کمیٹی کے ایک رکن نے بتایا کہ اس وقت جو 9 پارٹیاں Azadi March میں شرکت کا اعلان یا یقین دہانی کرا چکی ہیں۔ان میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، جمیعت علمائے پاکستان (نوارانی گروپ)، جمعیت اہل حدیث، عوامی نیشنل پارٹی، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، آفتاب شیرپائو کی قومی وطن پارٹی اور جمشید دستی کی عوامی راج پارٹی شامل ہے۔

جمعیت علمائے اسلام کو ملا کر اپوزیشن کی ان پارٹیوں کی تعداد 10 بنتی ہے۔ جبکہ سیاسی رابطہ کمیٹی کے رکن کے بقول حکومت کی اتحادی بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سے بھی رابطے چل رہے ہیں۔ اگر بات چیت کامیاب ہو گئی تو Azadi March کے نکلنے والے پارٹیوں کی تعداد 11 تک پہنچ جائے گی۔ یوں یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا حکومت مخالف اتحاد ہے۔

قبل ازیں پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف 1977ء میں تشکیل دیئے جانے والے پی این اے یا پاکستان قومی اتحاد میں 9 پارٹیاں، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (آج کی اے این پی)، بلوچستان نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (قیوم)، مسلم لیگ فنکشنل، نوابزادہ نصراللہ کی ڈیموکریٹک پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی شامل تھی۔ اسی طرح 1981ء میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف 9 پارٹیوں نے مل کر ایم آر ڈی کی تحریک کا آغاز کیا تھا۔  ان میں پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (خواجہ خیرالدین گروپ)، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، Tehrik-e-Istiqlal ، Awami Tehrik ، جمعیت علمائے اسلام، Mazdoor Kisan Party اور Communist Party تھی۔

مختلف اپوزیشن پارٹیوں کے اجلاس کی اندرونی کہانیوں سے واقف ذرائع نے بتایا کہ تمام پارٹیوں نے اصولی طور ” Azadi March ” میں شرکت کا فیصلہ کر لیا ہے۔ تاہم دھرنے کے معاملے پر تاحال اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ ذرائع کے بقول مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے علاوہ نیشنل پارٹی نے بھی متعدد اجلاسوں میں جمعیت علمائے اسلام کو یہ مشورہ دیا کہ وہ حکومت مخالف احتجاج کے لیے دھرنے اور لاک ڈائوں کا لفظ استعمال نہ کرے۔ کیونکہ ایک تو دھرنے کا لفظ پی ٹی آئی کی وجہ سے بدنام ہو چکا ہے۔ اور پھر یہ کہ احتجاج کے اس طریقہ کار سے متذکرہ پارٹیاں ہمیشہ اصولی اختلاف کرتی رہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق مولانا نے اس تجویز کو تسلیم کیا اور تمام پارٹیاں ذمہ داران کو بھی ہدایت کی گئی کہ حکومت مخالف احتجاج کے لیے صرف Azadi March  کا لفظ استعمال کیا جائے۔ اس کے بعد سے اگرچہ اپوزیشن پارٹیوں کے اجلاسوں میں مولانا فضل الرحمان یہ باور کرا رہے ہیں کہ وہ اسلام آباد میں دو یا تین دن بیٹھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تاہم اسلام آباد میں احتجاج کے انتظامات کرنے والی جے یو آئی کمیٹی کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ کسی پارٹی عہدیدار کو تاحال ایسی کوئی ہدایت موصول نہیں ہوئی ہے کہ احتجاج کو صرف Azadi March یا جلسے تک محدود رکھا جائے گا۔ بلکہ تمام رجسٹرڈ ورکرز کو ان کے متعلقہ صوبائی اور ضلعی پارٹی عہدیداران نے مرکزی قیادت کی جو ہدایات پہنچائی تھیں۔ وہ اب تک اس کے مطابق تیاری کر رہے ہیں۔ جس میں ہر کارکن کو اپنے ساتھ ایک بستر، چادر اور بھنے چنے سمیت دیگر خشک میوہ جات لانے کی ہدایت شامل ہے۔ یہ تیاری کم از کم ایک سے ڈیڑھ ہفتے پر مشتمل ہے۔ ان لاکھوں لوگوں کے کھانے کے لیے وہاں عارضی ہوٹل اور اسٹال لگائے جاتے ہیں۔ جبکہ عارضی بیت الخلا  اور غسل خانے قائم کر دیئے جاتے ہیں۔ جہاں وضو اور غسل کے تمام انتظامات ہوتے ہیں۔ دھرنے کے انتظامات کرنے والی کمیٹی کو بھی شرکا کے لیے اس نوعیت کے عارضی اسٹال لگانے اور عارضی باتھ روم قائم کرنے کی ہدایت ملی تھی۔  ابھی تک چونکہ پارٹی قیادت کی طرف سے کوئی نئی گائیڈ لائن نہیں ملی ہے۔لہذا پرانی ہدایت کے مطابق ہی تیاریان کی جا رہی ہیں۔ ذمہ دارا کے بقول نئی ہدایت کے آنے تک پارٹی ورکز دھرنے کی تیاری کر چکے ہیں۔ اور اب تک انہیں اس حوالے سے کوئی نیا حکم نامہ نہیں ملا ہے۔ تاہم آج مولانا فضل الرحمن اور شہباز شریف کے درمیان اہم ملاقات شیڈول ہے۔ اس ملاقات میں کیا طے پاتا ہے؟ اس بارے میں فوری طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔ ذمہ دار نے انکشاف کیا کہ یہ صرف جمعیت علمائے اسلام کا موقف نہیں ہے کہ مطالبات کے تسلیم کئے جانے تک وفاق دارالحکومت میں قیام کیا جائے۔بلکہ Hasil Bizenjo National Party اور Mahmood Khan Achakzai’s Pashtunkhwa Milli Awami Party کا بھی یہی موقف ہے۔

No comments.

Leave a Reply