انڈیا کے ساتھ تجارتی جنگ کا خدشہ، ملائیشیا، کشمیر پر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا

ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد

ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد

کوالمپور ۔۔۔ نیوز ٹائم

ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے منگل کے روز کہا ہے کہ وہ انڈیا کے تاجروں کی جانب سے ملائیشیا کے پام آئل کے بائیکاٹ کے باوجود کشمیر پر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔  مہاتیر محمد نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان پام آئل کے حوالے سے تعطل تجارتی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ خیال رہے کہ ملائیشیا دنیا کا دوسرا بڑا پام آئل پیدا کرنے اور برآمد کرنے والا ملک ہے جبکہ انڈیا اس کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ مہاتیر محمد نے گذشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے حوالے سے کہا تھا کہ انڈیا نے کشمیر پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔ جبکہ انڈیا کا کہنا ہے کہ یہ ان کا اندرونی معاملہ ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے رواں سال پانچ اگست کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی  جس کے خلاف پاکستان کے ساتھ ملائیشیا اور ترکی نے آواز بلند کی تھی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ وہ ممبئی کی  Solvent Extractors‘ Association کی جانب سے بائیکاٹ کے اثرات کا جائزہ لیں گے اور پھر اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ بی بی سی نے ممبئی کی  Solvent Extractors‘ Association سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ان کی تنظیم نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا ہے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آیا انھوں نے یہ فیصلہ حکومت ہند کے کہنے پر کیا ہے تو انھوں نے اس کے جواب سے اجتناب کیا اور کہا کہ حکومت ہند کی جانب سے ملائیشیا کے موقف کے جواب میں سخت اقدام کے  پیش نظر حفظ ماتقدم کے طور پر انھوں نے یہ فیصلہ کیا ہے۔  Solvent Extractors‘ Association کے صدر Atul Chaturvedi کی جانب سے تنظیم کے اراکین کو جو ایڈوائزری جاری کی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ اپنے مفاد اور اپنے ملک کے ساتھ یکجہتی کے اظہار میں ہمیں ملائیشیا سے فی الوقت خریداری بند کر دینی چاہیے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کے ایک نمائندے نے کہا کہ اگر ملائیشیا سے تیل خریدا جاتا ہے اور حکومت ہند اس کے درآمد کے محصول میں اضافہ کر دیتی ہے تو پھر ہمارا بڑا نقصان ہو گا۔ انھوں نے بی بی سی کو اپنا ایک دوسرا بیان بھی ارسال کیا جس میں حکومت کی توجہ اس جانب دلائی گئی ہے  کہ نیپال اور بنگلہ دیش کے راستے بڑے پیمانے پر پام آئل انڈیا بھیجا جا رہا ہے جس سے ہندوستان کو ماہانہ 50 کروڑ روپے کا خسارہ ہو رہا ہے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ خسارہ اس لیے ہو رہا ہے کہ 2011 ء میں کسٹمز کا ایک سرکاری سرکولر جاری کیا گیا تھا جس کے مطابق جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک کے پانچ سب کم ترقی یافتہ ممالک کی درآمدات پر محصول بالکل نہیں لگانے کی بات کہی گئی تھی۔

دوسری جانب ہندوستان اور ملائیشیا کے تعلق سے ہم نے مسلم دنیا پر نظر رکھنے والے مبصر اور Jamia Millia Islamia یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر Mohammad Sohrab سے بات کی  تو انھوں نے کہا کہ ہندوستان اور ملائیشیا کے درمیان روایتی طور پر انتہائی دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایشیائی اور افریقی ممالک کے درمیان کسی بھی بات کو لے کر اس قدر انتہا پسندانہ پوزیشن لینا ہمارے مستقبل کے لیے فائدہ مند نہیں ہے۔ ڈاکٹر Mohammad Sohrab نے کہا کہ ملائیشیا میں ہندوستانی نژاد جو لوگ آباد ہیں انھیں برابری کے حقوق حاصل ہیں اور وہ وہاں کی انتہائی خوشحال برادری میں شامل ہیں۔  انڈیا میں مسلمانوں کو یہاں کا شہری ہونے کے باوجود اتنے مساوی حقوق حاصل نہیں ہیں جتنے ملائیشیا میں ہندوستانیوں کو حاصل ہیں۔ کشمیر کے تعلق سے مہاتیر محمد نے منگل پارلیمان کے سامنے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے دل کی بات کرتے ہیں اور ہم اس پیچھے نہیں ہٹتے یا اسے تبدیل نہیں کرتے۔ انھوں نے مزید کہا: ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں (اقوام متحدہ)  کی قرارداد کی پابندی کرنی چاہیے۔ نہیں تو پھر اقوام متحدہ کا کیا فائدہ ہے؟ اقوام متحدہ کی 1948ء کی قرارداد میں کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان متنازع علاقہ ہے اور ایک قرارداد میں تو وہاں استصواب رائے کی بات بھی کہی گئی ہے۔

Mohammad Sohrab نے کشمیر کے تعلق سے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ تاریخی ہے اور نوآبادیاتی زمانے سے ہے  جسے ہندوستان کو یا دوسرے ممالک کو انسانی حقوق، جمہوری حقوق اور قانونی فریم ورک میں دیکھنا چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ خطہ متنازع ہو سکتا ہے لیکن وہاں کے لوگ یعنی کشمیریوں کا انسانی حقوق اور جمہوری آئینی حقوق تو متنازع نہیں ہے اس کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کی خودمختاری پر کسی کو سوال نہیں ہے لیکن ہندوستان کی اپنی پالیسی کے سبب آج تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔

ہندوستان اور ملائیشیا کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کے تعلق سے انھوں نے کہا کہ وہ انڈیا کی خارجہ پالیسی کے بارے میں براہ راست تو کچھ نہیں کہہ سکتے  لیکن اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی نئی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ رہی ہے اور داخلی سطح پر جو بنیادی تبدیلیاں آ رہی ہیں وہ اسی کی غماز ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ داخلی سطح پر ہندوتوا کی پالیسی اور اکثریت پسندی کی حکومت کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ اور کہیں نہ کہیں آپ امریکہ اور اسرائیل کے گلوبل ایجنڈے کے ساتھ جا رہے ہیں جو آپ کا فیصلہ ہے۔ Mohammad Sohrab کا کہنا تھا کہ اس طرح انڈیا کی خارجہ پالیسی اس کی داخلہ پالیسی کو متاثر کر رہی ہے اور داخلہ پالیسی، خارجہ پالیسی کو متاثر کر رہی ہے۔  اور جہاں تک ملائیشیا یا ترکی پر دبائو ڈالنے کا معاملہ ہے تو یہ ہر ایک خودمختار ملک کا حق کہ وہ اپنے مفاد میں پالیسی کو اپنائے اور انڈیا بھی اپنا رہا ہے۔ انھوں نے انڈیا کی مختلف خطے کے لیے مخلتف پالیسی پر سوال کرتے ہوئے کہا: کہ اگر ترکی یا ملائیشیا نے کشمیر پر کوئی موقف اختیار کیا ہے تو ہمیں پہلے اپنے اندر دیکھنا ہو گا کہ ایسا کس طرح ہوا؟ کہیں یہ ہماری داخلی پالیسی کی ناکامی تو نہیں ہے؟ آج سے قبل ترکی نے یا پھر سعودی عرب نے تو ایسا موقف اختیار نہیں کیا تھا  اور سعودی عرب نے تو ابھی بھی کچھ نہیں کہا ہے لیکن جس طرح ہمارے یہاں داخلی سطح پر جو تبدیلی آ رہی ہے اور فرقہ وارانہ فاشزم میں اضافہ ہو رہا ہے،  انسان کے جمہوری حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے ایسے میں آنے والے دنوں میں اگر یہ سلسلہ نہیں رکا تو کوئی بھی ملک جس کے پاس دنیا کو دیکھنے کا ایک اخلاقی فریم ورک ہے وہ مداخلت کرے گا یا اپنا موقف اختیار کرے گا۔

No comments.

Leave a Reply