مریم نواز کے جوڈیشل ریمانڈ میں 25 اکتوبر تک توسیع،کیپٹن صفدر کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور

مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز

مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز

لاہور ۔۔۔ نیوز ٹائم

چوہدری شوگر مل کیس میں احتساب عدالت نے مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور ان کے کزن یوسف عباس کے جوڈیشل ریمانڈ میں 25 اکتوبر تک توسیع کر دی۔ تفصیلات کے مطابق لاہور کی احتساب عدالت میں چوہدری شوگر مل کیس کی سماعت ہوئی، احتساب عدالت کے جج امیر محمد خان نے کیس کی سماعت کی۔ ذرائع کے مطابق جیل حکام کی جانب سے مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور ان کے کزن یوسف عباس کو جوڈیشل ریمانڈ مکمل ہونے پر احتساب عدالت  میں پیش کیا گیا، مریم نواز کی پیشی کے موقع پر ان کا بیٹا جنید صفدر اور پارٹی رہنما احسن اقبال، پرویز رشید، مریم اورنگزیب، سائرہ افضل تارڑ اور دیگر بھی موجود تھے۔

مسلم لیگ (ن)  کی مرکزی رہنما مریم نواز کو اپنے والد محمد نواز شریف سے ملاقات کے لئے پیرول پر رہا کرنے کے مطالبے کی قرارداد پنجاب اسمبلی میں جمع کرا دی گئی۔ رکن اسمبلی سعدیہ تیمور کی جانب سے جمع کرائی گئی قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف نے ملک کے لئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں،  نواز شریف کی صحت کی بحالی کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔  مطالبہ ہے کہ مریم نواز کو نواز شریف سے ملاقات کے لئے پیرول پر رہا کیا جائے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر نواز شریف کو کچھ ہوا تو ذمہ دار حکومت پر ہو گی۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر

دوسری جانب لاہور کی ضلعی عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کر لیا۔خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما کیپٹن (ر) صفدر کو گزشتہ روز اسلام آباد سے لاہور آتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ آج کیپٹن (ر) صفدر کو سخت سیکیورٹی میں ضلعی عدالت میں پیش کیا گیا۔ تھانہ اسلام پورہ میں ان کے خلاف درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو عوام کو حکومت کے خلاف اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ دوران سماعت کیپٹن (ر) صفدر کے وکیل فرہاد علی نے عدالت سے کہا کہ کسی کی منشا پر کسی کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا، سیکشن 16 کو لاگو کرنے سے پہلے حکومت کی ہدایت ضروری ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی نظربندی کا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا،  ڈپٹی کمشنر تحریری طور پر نظربندی کا حکم دے سکتا ہے تاہم یہاں کوئی تحریری آرڈر جاری نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے موکل کا کسی کالعدم تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے، پولیس نے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو صرف سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیا ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ اگر ویڈیو کے معاملے پر گرفتاری کی ہے تو پھر بھی پولیس کا اختیار نہیں ہے، عدالت کا وقت ختم ہونے کے بعد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو 6 بجے پیش کیا گیا یہ قانون کے منافی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف جھوٹے اور بھونڈے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ فرہاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ملک کے اندر لوگ غربت، بھوک اور ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مر رہے ہیں،  ایک لانگ مارچ نکالا جا رہا جس کی وجہ سے یہ گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف کیس فوری طور پر خارج کیا جائے۔

عدالت میں کیپٹن صفدر کا کہنا تھا کہ میری اہلیہ اور میاں نواز شریف عدالت میں پیشیاں بھگت رہے ہیں،  احتساب عدالت میں پولیس والے نے خواتین پر تشدد کیا تھا جس پر میں نے روکا تو میرے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں مجھے ضمانت ملی لیکن گزشتہ روز کسی اور کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے 24 گھنٹے حبس بے جا میں رکھا گیا اور صبح ایف آئی آر درج کی گئی، چند قوتیں میرے پیچھے ہیں، مجھے نااہل کرایا گیا اور سزا دلوائی گئی تھی۔ عدالت میں سرکاری وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو آج پولیس نے گرفتار کیا ہے، ان کے خلاف سنگین الزامات ہیں اور یہ سزا یافتہ بھی ہیں۔ سرکاری وکیل نے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی تقریر کی سی ڈی عدالت میں پیش کر دی  جس میں کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے آرمی چیف پر الزمات لگاتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے مدت ملازمت میں توسیع کے لیے مینڈیٹ چوری کروایا ہے۔ سرکاری وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا آڈیو اور ویڈیو ٹیسٹ ہونا ہے جس کے لیے 14 روز کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ تاہم عدالت نے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیپٹن ریٹائر صفدر کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔ بعد ازاں کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے ضلعی عدالت میں اپنی ضمانت کی درخواست بھی دائر کر دی جس پر عدالت نے حکومت کو 24 اکتوبر کے لیے نوٹس جاری کر دیے۔

No comments.

Leave a Reply