پارلیمنٹ سے استعفے، ملک گیر شٹر ڈائون ہڑتال زیر غور، رہبر کمیٹی، فضل الرحمان کا بیان ،عدالت جانے کا اعلان

جے یو آئی (ٖف) کے رہنما اور رہبر کمیٹی کے کنویز اکرم خان درانی

جے یو آئی (ٖف) کے رہنما اور رہبر کمیٹی کے کنویز اکرم خان درانی

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

وفاقی حکومت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کے آزادی مارچ کی جانب سے تشکیل دی گئی رہبر کمیٹی نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ سے استعفے، شٹر ڈائون، ہڑتال اور ملک بھر میں احتجاج زیر غور ہے۔ اسلام آباد میں رہبر کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کمیٹی کے کنوینر اکرم خان درانی نے کہا کہ اجلاس میں مختلف تجاویز زیر غور آئی ہیں اور ان تجاویز پر تمام جماعتیں تبادلہ خیال کریں گی جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے احسن اقبال، پاکستان پیلپز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما نیئر بخاری اور اے این پی کے افتخار حسین کے ہمرا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جو تجاویز سامنے آئی ہیں  ان میں استعفے کا آپشن بھی زیر غور ہے، شٹر ڈائون، ہڑتال بھی تجاویز میں شامل ہے۔ اکرم درانی کا کہنا تھا کہ کل رات کو اے پی سی میں فیصلہ ہوا تھا کہ رہبر کمیٹی مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کرے گی اسی سلسلے میں آج مفصل گفتگو ہوئی۔

رہبر کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی گفتگو پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تمام جماعتوں کا اس بات پر اتفاق ہے اور اعادہ کیا کہ آزادی مارچ کے مقاصد استعفی، نئے انتخابات، فوج کی نگرانی کے بغیر آئین کی مکمل پاسداری کو آگے بڑھایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ رہبر کمیٹی اور ہماری قیادت شروع سے ہی اپنے موقف پر قائم ہے اور اس مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے مختلف تجاویز زیر غور ہیں، تمام جماعتوں کے نمائندے ان تجاویز کو اپنی جماعتوں کے سامنے رکھ کر آگے بڑھنے کا متفقہ طریقہ کار طے کریں گی۔

اکرم درانی نے کہا کہ رہبر کمیٹی برقرار رہے گی، حکومت نے رابطے کرنے کی تجویز دی ہے اور ہم رابطہ رکھنے سے خائف نہیں  لیکن ہمارے وزیر اعظم نے کل گلگت میں جو تقریر کی اور آج بھی کہا ہے پھر حکومتی کمیٹی کے سربراہ پرویز خٹک نے کل کہا کہ استعفے پر ہم سے کوئی بات نہ کرے،  اسی طرح ان دونوں کا لب و لہجہ مناسب نہیں ہے۔ رہبر کمیٹی نے کہا کہ ہمارا تو پہلی شرط استعفی ہے، ہم سیاسی لوگ ہیں اور یہ تمام وہ جمہوری جماعتیں ہیں  جنہوں نے پوری زندگی جمہوری انداز میں تکالیف اور نقصان اٹھائی ہیں اور اپنی تحریکیں چلائی ہیں اس لیے ہم رابطے سے انکاری نہیں ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کی تقریر اور پرویز خٹک کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان دونوں کا لب و لہجہ مناسب نہیں ہے، وہ سب سے پہلے اپنا لب و لہجہ درست کر لیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر استعفے کی بات نہیں ہے اور ہم استعفی مانگ رہے ہیں جبکہ وہ کہتے ہیں کہ اس پر تو بات نہ کریں تو پھر رابطے کی کیا ضرورت پڑی لیکن ہم جمہوری لوگ ہیں اور ہم تو بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اکرم درانی نے کہا کہ آج کے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ تمام غیر جمہوری قوتوں کو خبردار کرتے ہیں کہ موجودہ صورت حال سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی اور ماورائے آئین کوئی قدم اٹھایا تو تمام سیاسی جماعتیں مل کر بھرپور مزاحمت کریں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی بقا اور سلامتی کے لیے خطرہ پیش نظر کوئی اقدام ہوا تو ہم سب نے کہا کہ وہ ملکی بقا اور سلامتی کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ تجاویز سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آگے کے لائحہ عمل کے لیے آج تجاویز پیش ہوئی ہیں جس میں زیر غور استعفے بھی ہیں،  شٹر ڈائون بھی ہے، ہائی ویز، پورے ملک کو بلاک کرنا اور اضلاع کی سطح پر 20 تاریخ کو ہر ایک وہ کام جو کسی بھی تحریک کے لیے ضروری ہوتے ہیں وہ تمام آپشن آج زیر غور آئے۔

حکومت کے ساتھ معاہدے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ہم معاہدے پر قائم ہیں، لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہیں جو منظم ہیں اور ایک ہی حکم کے پابند ہیں،  کوئی ایک پتہ نہیں گرا لیکن حکومت نے راستے میں مختلف رکاوٹیں پیدا کیں، کرم اور ہنگو کے لوگوں کو گاڑی نہیں مل رہی، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے کارکنوں کو گاڑی نہیں مل رہی لیکن جب انہوں نے احتجاج کیا تو اجازت ملی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے جو کارکن قافلے میں زخمی ہوئے تھے انہیں ہسپتالوں میں داخل نہیں کر رہے ہیں اور ہسپتال کو کہا گیا ہے ان کا علاج نہ کریں۔

قبل ازیں رہبر کمیٹی کے ترجمان نے بتایا تھا کہ آزادی مارچ سے متعلق مشاورت کے لیے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کا اجلاس جے یو آئی (ف) کے رہنما اکرم خان درانی کی رہائش گاہ پر طلب کیا گیا۔ ترجمان اکرم درانی کا کہنا تھا کہ رہبر کمیٹی کے اجلاس میں آزادی مارچ کو ڈی چوک تک لے کر جانے سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا لیکن اس حوالے سے سوال پر پریس کانفرنس میں واضح نہیں کیا گیا۔ رہبر کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر اور سید نیئر حسین بخاری، پاکستان مسلم لیگ(ن) کے احسن اقبال، امیر مقام، عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین، نیشنل پارٹی کے سینیٹر طاہر بزنجو اور دیگر شریک تھے۔

وزیر دفاع اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ پرویز خٹک

وزیر دفاع اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ پرویز خٹک

دوسری جانب حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کی مجمع کے ہاتھوں گرفتاری سے متعلق دیے گئے بیان پر عدالت جانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے  کہ وزیر اعظم کے استعفی پر کوئی بات نہیں ہو گی، اس بارے میں کوئی سوچیں بھی نہیں۔ اسلام آباد میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد حکومتی مذکراتی ٹیم کے اراکین نے پریس کانفرنس کی۔ اس موقع پر وزیر دفاع اور حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ آج کے اجلاس میں بہت سے امور پر متفقہ بات چیت ہوئی،  ہم ابھی بھی مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن یہ افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں، جس کے پیچھے ان کے مقاصد ہے،  جیسے آج کل مسئلہ کشمیر بہت گھمبیر تھا لیکن وہ پیچھے چلا گیا، اس کا فائدہ تو بھارت کو پہنچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ رہبر کمیٹی کی خواہش کے مطابق ایچ نائن میں انہیں جگہ دی گئی اور رہبر کمیٹی کے ساتھ جو معاہدہ ہوا اس کی مولانا فضل الرحمن نے توثیق کی جبکہ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے الفاظ پر قائم ہے اور معاہدے پر پیچھے نہیں ہٹے گی۔ دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ رہبر کمیٹی کے رکن اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اکرم درانی سے رابطے میں ہیں اور مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اگر ملک یا کسی چیز کو نقصان پہنچا تو یہ ذمہ داری اپوزیشن پر آئے گی کیونکہ انہوں نے معاہدہ کیا ہے، عمران خان نے انہیں کھلے دل سے آنے کی اجازت دی لیکن اگر اپوزیشن والے دھونس دھمکی دیتے ہیں اور اپنی بات پر پورا نہیں اترتے تو مطلب ہے کہ یہ زبان کے کچے ہیں۔ وزیر دفاع پرویز خٹک نے خبردار کیا ہے کہ اگر اپوزیشن نے پشاور موڑ پر طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیر اعظم ہائوس کی طرح مارچ کیا تو ذمہ دار رہبر کمیٹی ہو گی۔ بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر یہ معاہدہ نہ کرتے تو پھر آزاد ہوتے لیکن اگر کچھ ہو گا تو یہ ان کے گلے پڑے گا، اگر ہم سے کوئی غلطی ہوتی تو آپ لوگ سوال کر سکتے ہیں لیکن اگر معاہدہ وہ توڑتے ہیں تو آپ کو بتانا پڑے گا۔

حکومتی مذاکراتی ٹیم کے اراکین کی پریس میں انہوں نے کہا کہ کل جو تقریری ہوئی اس پر بہت افسوس ہوا جس میں اپوزیشن نے حکومت پر تنقید کی۔ ساتھ ہی وزیر دفاع نے کہا کہ کل کی تقریروں میں زیادہ تنقید اداروں پر کی، یہ پاکستان کے ادارے ہیں، آئی ایس پی آر نے بھی کل بیان دیا کہ جو جمہوری حکومت ہوتی ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوتے، اداروں نے ملک کو بچایا، شہادتیں اور قربانیاں دیں، علاقہ غیر کو صاف کروایا تو اگر یہ اداروں کے خلاف بولیں گے تو پاکستان میں کون کام کرے گا، لہذا انہیں ملک دشمنی نہیں کرنی چاہیے، یہ ہمارے اور ان سب کے ادارے ہیں۔ شہباز شریف کی بات کہ ادارے 10 فیصد حمایت کرتے سے متعلق حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے گریبان میں دیکھنا چاہیے تھا کہ نواز شریف اقتدار میں کیسے آئے، جنرل جیلانی سب کو یاد ہیں۔

پرویز خٹک نے کہا کہ فوج ایک غیر جانبدار ادارہ ہے اور جب ایک ادارہ غیر جانبدار ہوا تو انہیں تکلیف ہے، جس سے واضح ہے کہ یہ کسی کی پشت پناہی پر چلتے رہے،  تاہم ادارے غیر جانبدار کردار ادا کر رہے ہیں، ہم انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں، جو ادارے ہوتے ہیں چاہے فوج ہو یا بیوروکریٹس یہ سب حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں، اس کو کئی الگ نہیں کر سکتا۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کا ایک ہی مطالبہ ہے وہ استعفے کا ہے  لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ 30 سے 40 ہزار لوگ آ کر استعفی مانگنے لگ جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ پھر ملک میں جمہوریت چل ہی نہیں سکتی۔

حکومتی کمیٹی کے سربراہ نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت نہیں چاہتے اور زور زبردستی سے حکومت کو توڑنا چاہتے ہیں  جو پاکستان جیسے بڑے ملک میں کبھی نہیں ہو سکتا، یہ کوئی چھوٹا ملک نہیں ہے کہ 50 ہزار لوگ آ کر تختہ الٹ دیں، ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ کہا کہ رہبر کمیٹی کے سیاسی لوگوں کو اپنی عزت کا خیال رکھنا چاہیے اور اپنی بات پر کھڑے بھی ہونا چاہیے، دوہرا معیار رکھنا نقصان پہنچاتا ہے۔

پریس کانفرنس میں پرویز خٹک نے کہا کہ اپوزشین کی جانب سے کہا گیا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی، ہم نے بھی کہا تھا کہ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی لیکن ہم الیکشن کمیشن، اسمبلی اور عدالتوں میں گئے، جس کے بعد ہم سڑکوں پر آئے لیکن یہ لوگ تو کہیں بھی نہیں گئے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے انتخابات میں دھاندلی پر کوئی ریکارڈ بھی پیش نہیں کیا، تاہم ہم ابھی بھی تیار ہیں اگر ان کے پاس کچھ ثبوت ہے تو کمیٹی کو پیش کریں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ہم ان سے دوگنا ووٹ سے جیتے ہیں، ہم نے اپنے علاقوں میں لوگوں کے لیے کام کیا جبھی اس کے نتائج آئے ورنہ باتوں سے ایسے نتائج نہیں آتے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اپوزیشن میں چند عقل مند لوگ ہیں جو کبھی ایسا فیصلہ نہیں کریں گے جو ملک کے لیے نقصان دہ ہو۔ پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ آزادی مارچ کے شرکا کی جانب سے آگے بڑھنے کا اعلان نقصان دہ ہو گا، ہم تصادم نہیں چاہتے لیکن اگر مجبور کیا جائے تو پھر اس پر جو ہو گا وہ سب کے سامنے ہو گا۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ملک میں معیشت کا گراف بہتری کی طرف گامزن ہے تاہم ابتدائی مرحلے میں سخت نوعیت کے فیصلے لینے پڑھیں۔

مولانا فضل الرحمن کے بیان پر عدالت جانے کا فیصلہ:

اپنی گفتگو کے دوران پرویز خٹک نے بتایا کہ کور کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے جو کہا کہ عوام جا کر عمران خان سے استعفی لیں گے،  اس بیان پر ہم عدالت جا رہے ہیں کیونکہ یہ لوگوں کو اکسا رہے ہیں اور یہ بغاوت ہے۔ دوران پریس کانفرنس سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے ایک سوال کے جواب میں شہباز شریف کو مخاطب کر کے سوال اٹھایا  کہ وہ بتائیں کہ فوج نے انہیں پولیسنگ، کچہری، تعلیمی اداروں کے نظام کو ٹھیک کرنے سے روکا تھا؟

No comments.

Leave a Reply