امارات لیبیا میں بھی اسلام پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں ملوث نکلا

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان Jen psaki نے بیرونی فوجی مداخلت کی مذمت

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان Jen psaki نے بیرونی فوجی مداخلت کی مذمت

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

اسلامی تحریکوں کے اثرات سے اپنے اقتدار کو لاحق خطرات کو روکنے کے لیے لیبیا کے تنازع میں متحدہ امارات بھی کود پڑا ہے۔ امریکہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ نے ایک ہفتہ قبل لیبیا میں باغی گروپ کے ٹھکانوں پر دو بارکی گئی بمباری میں متحدہ عرب امارات اور مصر ملوث کو قرار دیتے ہوئے بیرونی مداخلت کی مذمت کی ہے۔ پانچوں ممالک کے مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ عرب امارات کے طیاروں نے بمباری کے لیے مصری اڈے استعمال کئے۔ عرب ملکوں کو اس مداخلت سے تقسیم بڑھے گی اور لیبیا کے جمہوریت کے سفر کو دھچکہ پہنچے گا۔ مصر نے امریکی الزام کی تردید کر دی ہے، جب کے یو اے ای نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ بی بی سی کے مطابق عرب خطے میں اسلامی تحریکوں و مطلق العنان حکمرانوں میں نیا محاذ جنگ کھل گیا ہے۔ قطر کی حکومت لیبیا میں اسلامی تنظیموں کو سرمایہ اور اسلحہ دے رہی ہے، جب کہ مصر، امارات اور سعودی عرب ان اسلامی تحریکوں کا پھیلائو روکنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ طرابلس کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر باغی حکومت کے حامی فوجیوں سے ایک ماہ تک جاری رہنے والے جنگ کے بعد حال ہی میں قابض ہو چکے ہیں۔ ایک اعلیٰ امریکی عہدے دار کا کہنا ہے کہ لیبیا میں اسلامی عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر عرب امارات کے حملوں نے امریکہ کو حیران کر دیا ہے۔ امریکہ کو حملے بارے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ حملے کے لیے معاہدے کے برعکس امریکی اسلحہ استعمال کیا گیا ہو گا۔ برطانوی اخبار گارجین کے مطابق امارات اور مصر کے لیبیا میں حملوں کے بعد طویل پراکسی وار چھڑنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، جس میں حکومتی فوج کی پشت پناہی امارات اور مصر کر رہے ہوں گے، جب کہ اپوزیشن کے مسلم انتہا پسند گروپوں کو قطر کے علاوہ ایک اور خلیجی ملک کی حمایت حاصل ہو گی۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان Jen psaki نے بیرونی فوجی مداخلت کی مذمت کی ہے۔ لیبیا کی حکومت بھی کسی قسم کی بیرونی مداخلت کی خواہاں نہیں لگتی، لیکن لیبیا کے وزیر ثقافت کا کہنا ہے کہ عالمی برادری لیبیا کی حکومت کو مزید اخلاقی اور لاجسٹک تعاون  فراہم کرے اور اسے مضبوط کرے۔ اب تک نصف طرابلس اور نصف بن غازی تباہ ہو چکا ہے۔ عالمی برادری کس چیز کا انتظار کر رہی ہے۔ ہماری حکومت طرابلس سے مشرقی تبروک منتقل ہو چکی ہے۔ بندرگاہیں اور ایئر پورٹس باغیوں کے قبضے میں ہیں۔ ان کے پاس ہمارے سے زیادہ جدید اسلحہ اور وسائل ہیں۔

No comments.

Leave a Reply