پانچ برس کے دوران بحیرہ روم میں کشتیاں الٹنے سے 50 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے: اقوام متحدہ کی رپورٹ

پانچ برس کے دوران بحیرہ روم میں کشتیاں الٹنے سے 50 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے: اقوام متحدہ کی رپورٹ

پانچ برس کے دوران بحیرہ روم میں کشتیاں الٹنے سے 50 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے: اقوام متحدہ کی رپورٹ

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

اقوام متحدہ کے سینئر اہلکاروں کی رپورٹ میں بحیرہ روم کو تارکین وطن کا قبرستان قرار دیا گیا ہے۔ بہتر مستبقل کی چاہ میں یورپ کا رخ کرنے والے ہزاروں افراد اس کے پانیوں میں غرق ہو چکے ہیں۔ فرانسیسی جریدے ” La France” کے مطابق گزشتہ پانچ برس کے دوران بحیرہ روم میں کشتیاں الٹنے سے 50 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ رواں برس ان ہلاکتوں کی تعداد 2000 سے زائد ہو چکی ہے۔اقوام متحدہ کے اہلکاروں نے ”الجزیرہ” کو بتایا ہے کہ یورپ جانے کے لیے ہر سال ہزاروں ایشیائی و افریقی تارکین وطن خطرناک بحری سفر کرتے ہیں۔ صرف جولائی میں بحیرہ روم می دو کشتیاں ڈوبنے سے 300 تارکین ڈوب گئے، جن میں سے امدادی اداروں نے تقریباً نصف تارکین وطن کو بچا لیا لیکن باقی ماندہ افراد جن کی گنتی نہیں کی جا سکی، ہلاک ہو گئے۔

لیبیا کے کوسٹ گارڈ ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ 300 افراد کو بحیرہ روم کے راستے یورپی ممالک کی جانب لے جانے والی دو کشتیاں ڈوبنے سے تمام افراد کی جان کو خطرات پید ہوئے۔ لیکن لیبیائی کوسٹ گارڈز کی بروقت امدادی کاوشوں سے 134 افراد کو بچا لیا گیا، تاہم باقی ماندہ افراد غرق ہو گئے۔ یوپی میڈیا کے مطابق مہاجرین کی بین الاقوامی تنظیم آئی اے او نے 2018ء میں نشاندہی کی تھی جکہ یورپ پہنچنے کے لیے سب سے خطرناک مرحلہ بحیرہ روم کا سفر ہے جس میں ہر ماہ کم از کم ایک سے 2500 ہزار پناہ گزین ڈوب کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر کے مطابق 2018ء جنوری تا اکتوبر 2019ء بحیرہ روم کے ذریعے اسپین، یونان اور اٹلی کے ساحلوں تک پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ تارکین وطن میں سے 1750 ہزار  کا تعلق افریقی ملک نائیجیریا سے تھا۔ جبکہ رواں برس اکتوبر میں بحیرہ روم پار کر کے یورپی ممالک پہنچنے کی کوشش کے دوران 2787  سے زائد افراد ہلاک ہوتے جن میں بیشتر کی لاشیں نہیں مل سکیں۔ اپنی رپورٹ  میں یو این ایچ سی آر نے مزید بتایا کہ 2018ء کے دوران بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد 2277 ریکارڈ کی گئی ہے۔ جبکہ غیر سرکاری رپورٹوں کے مطابق یہ تعداد 5000 سے کم نہیں ہو سکی۔ انٹرنیشنل مائیگرنٹس آرگنائزیشن (آئی ایم او) نے بتایا کہ 2014ء سے 2019ء کے ماہ اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم میں غرق ہونے والے مہاجرین کی تخمینی تعداد 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ آئی ایم او کے مطابق بحیرہ روم کشتیاں ڈوبنے سمیت دیگر حادثات و واقعات کے بارے میں کوئی علم نہ ہونے کی وجہ سے مرنے والے تارکین وطن کی حتمی تعداد اس سے بہت زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ انسانی المیوں کو روکنے کے لیے درجن بھر ممالک کی ٹاسک فورسز کی نگرانی سمیت سیٹلائٹس سسٹمز کا سہارا بھی لیا جا رہا ہے اور اوسطاً ہر ماہ تین سے پانچ سمندری حادثات کو روکنے میں کامیابی حاصل کی جاتی ہے جس میں  پناہ گزینوں کا نامساعد حالات میں سفری حادثات سے بچا لیا جاتا ہے۔ لیکن انسانوں کو یورپ اسمگل کرنے والی مافیا غیر محفوظ کشتیوں میں پناہ گزینوں کو صرف معمولی لائف جیکٹ پہنچا کر بحیرہ روم کے حوالے کر دیتی ہے۔

جرمن میڈیا نے بتایا ہے کہ ہر برس ہزاروں تارکین سمندری راسے یورپ میں داخلے کی کوشش میں بحیرہ روم کے ”بحری قبرستان” میں غرق ہو جاتے ہیں۔ ادھر تارکین وطن کی مدد کرنے میں مشغول عالمی ادارے ”بین الاقوامی کمیشن برائے گمشدہ افراد کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ہزاروں لواحقیقن کی جانب سے ڈیٹا جمع کرایا جا چکا ہے۔ یہ لواحقین اپنے گمشدہ اور سمندر مین ممکنہ طور پر غرق ہو جانے والے پیاروں کے کوائف جمع کرر رہے ہیں۔ ان کے ادارے کے پاس لاشون کی چہرہ شناسی کے لیے ڈیجیٹل تصاویر سمیت آلات اور اشیا کا ذخیرہ موجود ہے کہ لواحقین آ کر ان کی شناخت کر سکتے ہیں۔ ان کے ادارے کے پاس اس ضمن میں تمام تر سہولیات موجود ہیں۔ لیکن ان کو اس ضمن میں مزید فعالیت کے لیے فنڈز کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ رپورٹس کے مطابق پناہ گزینوں کی تلاش اور شناخت کے لیے کارگزار یہ عالمی ادارہ نہ صرف گمشدہ تارکین وطن اور مہاجرین کو ڈھونڈ کر ان کے اہلخانہ سے ملانے کو کوشش کرتا ہے بلکہ سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو جانے والوں شناخت کر کے ان کے لواحقین کو مطلع کرنے کا کام بھی جاری کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں ہلاک شدگان کے ڈی این اے کے نمونوں سمیت سازوسامان اور لاشوں کی ہائی ریزیولیوشن ڈیجیٹل تصاویر کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ گمشدہ مہاجرین کے لواحقین ان کی تلاش میں اکثر اٹلی اور یونان سمیت اسپین کا بھی دورہ کرتے ہیں، جہاں مقامی حکام ڈی این اے نمونوں کا جائزہ لینے کے بعد کوشش کرتے ہیں اور اس کی کوشش کے نتیجے میں بہت سے ہلاک و گمشدگان کی شناخت ہو جاتی ہے۔

No comments.

Leave a Reply