سعودی عرب میں عملی طور پر بڑے فیصلے

سعودی عرب میں عملی طور پر بڑے فیصلے

سعودی عرب میں عملی طور پر بڑے فیصلے

الریاض ۔۔۔ نیوز ٹائم

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جو اس وقت عملی طور پر بڑے فیصلے کر رہے ہیں  اب سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل کمپنی آرامکو کے حصص بھی فروخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ اس کی اطلاع تو پہلے بھی آ چکی تھی مگر باضابطہ اعلان اب کیا گیا ہے کہ آرامکو ریاض کے بازار حصص یا اسٹاک ایکسچینج کی فہرست میں اپنا اندراج کرائے گی۔ اس کے بعد جب حصص فروخت ہو جائیں گے تو غالبا یہ کمپنی حصص کے حساب سے دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن کر ابھر سکتی ہے۔ واضح رہے کہ آرامکو (ARAMCO) سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی ہے جس میں بڑے سرمایہ کار دلچسپی رکھتے ہیں، گو کہ اندازوں کے مطابق اس وقت ایک یا دو فیصد حصص فروخت کیے جائیں گے جو کمپنی کی موجودہ مالیت کے تناسب سے ہوں گے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور آزاد تخمینے لگانے والوں کا اندازہ ہے کہ آرام کو اس وقت تقریبا 300 ارب برطانوی پائونڈ کے برابر مالیت رکھتی ہے۔  سعودی ولی عہد کے یہ معاشی اقدامات ان اعلانات کے بعد سامنے آئے ہیں، جن کے تحت سعودی عرب میں سماجی تبدیلیاں بھی متعارف کرائی جا رہی ہیں۔ مثال کے طور پر اکتوبر 2019ء کے پہلے ہفتے میں اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ، اب سعودی عرب میں غیر شادی شدہ غیر ملکی جوڑے ہوٹل میں کمرہ لے سکیں گے۔

یہ قدم اٹھانے کا بظاہر مقصد تو سیاحت کو فروغ دینا ہے، مگر اس سے سعودی عرب کے بدلتے ہوئے رجحانات کا پتا چلتا ہے  اور دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ترکی میں سعودی امریکی صحافی Jamal Khashoggiکے قتل کے بعد بھی سعودی عرب ایک ایسی ریاست ہے جو تبدیلی کے راستے پر گامزن ہے۔ ایک اور اہم تبدیلی جو سعودی خواتین کے لیے خوشخبری ہے وہ یہ کہ اب وہ کسی کفیل یعنی مرد محرم کے بغیر بھی بیرون ملک سفر کر سکیں گی۔  اس سے قبل کسی سعودی خاتون کو اپنی مرضی سے اکیلے بیرون ملک سفر کی اجازت نہیں تھی۔  یہ پے درپے اقدامات اس کوشش کی ایک کڑی معلوم ہوتے ہیں جس میں شہزادہ محمد بن سلمان دنیا کو یہ باور کرا رہے ہیں  کہ سعودی عرب کوئی سخت گیر ملک نہیں ہے اور نہ ہی یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔

اب سعودی سماجی تبدیلیاں معاشی روپ میں بھی سامنے آ رہی ہیں، گو کہ آرامکو فی الوقت بیرون ملک فروخت کے لیے پیش نہیں کی جا رہی اور یہ منصوبہ ابھی سعودی حصص بازار تک ہی محدود ہے۔ سماجی تبدیلیاں تو نسبتا آسان ثابت ہوئی ہیں مگر معاشی تبدیلیاں اتنی آسان نہیں ہوں گی کیونکہ آرامکو میں سرمایہ کاری سے وابستہ خطرات بھی بڑے ہیں، مگر سیاسی اور دفاعی صورت حال کا براہ راست اثر آرامکو پر پڑتا ہے پھر اگر کمپنی نجی ملکیت میں ہو تو سرمایہ کار زیادہ مطمئن ہوتے ہیں،  جبکہ آرامکو سعودی ریاست کا ہی ایک حصہ ہے اور جب بھی ریاستی سطح پر کوئی بحران آئے گا آرامکو متاثر ہو گی۔ پھر یہ تیل کی پیداوار پر بھی ریاستی قابو میں ہے اور خود آزادانہ فیصلے نہیں کر سکتی، کیونکہ سعودی عرب اوپیک (OPEC) یعنی تیل پیدا کرنے والے ملکوں کو بین الاقوامی تنظیم کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔ اسی کے ساتھ وابستہ دفاعی خطرات ہیں، جو ستمبر میں ہونے والے حملوں کے بعد اس وقت واضح ہوئے، جب آرامکو کی تیل کی بڑی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اب آرامکو میں آنے والی تبدیلیوں کا بڑا انحصار اس کے سربراہ امین حسن الناصر پر بھی ہے جو خود ایک پیشہ ور انجینئر اور 2015ء سے آرامکو کے صدر ہیں۔  اس سے قبل وہ 25 سال سے آرامکو کے ساتھ مختلف شعبوں میں کام کرتے رہے تھے۔  انہوں نے پچھلے 30 سال میں آرامکو کو بڑے فائدے پہنچائے ہیں، خاص طور پر جدید معاشی انتظامات اور مالیاتی بہتری سے کمپنی اب ایک جدید ترین کمپنی میں شمار ہونے لگی ہے، جس کا فائدہ پوری سعودی معیشت کو ہو رہا ہے۔

یاد رہے کہ آرامکو 1933ء میں قائم کی گئی تھی، جب سعودی عرب اور کیلی فورنیا کی اسٹینڈرڈ آئل کمپنی میں تیل کی تلاش کا معاہدہ ہوا تھا۔  1973کے تیل کے بحران کے بعد سعودی عرب نے 1980ء تک پوری کمپنی کو خود خرید لیا اور امریکی ملکیت ختم ہو گئی تھی، اب تقریباً 40 برس بعد سعودی حکومت آرامکو کی ملکیت میں حصہ داری کی اجازت دے رہی ہے۔سعودی عرب اس وقت وینیزویلا کے بعد تیل کے سب سے بڑے ذخائر کا مالک ہے اور پیداوار کے اعتبار سے امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ چونکہ آرامکو ایک منافع بخش کمپنی ہے اور سال 2019ء کی پہلی ششماہی میں اس کا منافع تقریباً 47 ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا اس لیے یہ ایپل کمپنی سے دگنے سے بھی زیادہ منافع کما رہی ہے۔  واضح رہے کہ ایپل نے مذکورہ عرصے میں 21 ارب ڈالر کا منافع بتایا تھا۔ ان سماجی و معاشی تبدیلیوں کی بدولت محمد بن سلمان سعودی عرب کو 2030ء تک ایک جدید ملک بنانا چاہتے ہیں جس کی معیشت مکمل طور پر تیل پر انحصار نہ کرے اسی لیے انہوں نے شمسی توانائی کے منصوبے بھی بنانے کی کوشش کی ہے۔ اب جبکہ سعودی عرب انچاس (49) ملکوں کے لیے ویزا نرم کر چکا ہے امید کی جانی چاہئے کہ کچھ نظرکرم پاکستانیوں پر بھی ہو اور ملازمتوں کے نئے مواقع بھی بہم پہنچیں۔

No comments.

Leave a Reply