عراق میں ایک بار پھر 16 برس بعد شدید احتجاج

عراق کا حالیہ بحران بھی ماضی قریب کے بحرانوں کا سلسلہ ہے۔

عراق کا حالیہ بحران بھی ماضی قریب کے بحرانوں کا سلسلہ ہے۔

نیوز ٹائم

عراق ایک بار پھر 16 برس بعد شدید احتجاج اور بڑے مظاہروں کی زد میں آ گیا ہے لگ بھگ ایک ماہ کا عرصہ ہو چکا ملک کے طول و عرض ہنگاموں اور حکومت مخالف احتجاج کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔  ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذرائع کے مطابق جاری مظاہروں میں سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں تقریباً  500 شہری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔  آئی اے نے احتجاج کیا ہے کہ سیکیورٹی اہلکار مظاہرین پر جو ربڑ کی گولیاں چلا رہے ہیں وہ عام ربڑ کی گولی سے 10 گنا زیادہ طاقتور ہے جو فوجی جنگ میں بھی استعمال کرتے ہیں، اس کے علاوہ آنسو گیس کے بے شمار گولے پھینکے گئے اور نشانہ بنا کر عوام پر فائرنگ کی گئی، جس پر شیعہ رہنما Ayatollah Ali Sistani نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت دو ہفتوں کے اندر ان پیشہ ور نشانیوں کا پتہ لگائے اور انہیں گرفتار کیا جائے جو نشانہ بنا کر مظاہرین کو ٹارگٹ کر رہے تھے۔

عراق کا حالیہ بحران:

اکتوبر کا مہینہ عراق کے عوام کے لئے بہت بھاری گزرا۔  عوام کا احتجاج اور غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں شدید بے روز گاری، مہنگائی اور کرپشن ہے۔  موسم گرما میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ الگ، یہ حکومت کی نااہل ہے۔  عوامی نمائندوں کا دعوی ہے کہ ایران ملکی سیاست میں مداخلت کر رہا ہے اور اس کا اثر بڑھ رہا ہے۔ حکومت عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے ملک کی اشرافیہ کو خوش کرنے پر مامور ہو چکی ہے۔  بے روزگاری کا عفریت پورے معاشرے کو نگل رہا ہے۔  بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 17 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔  ملک کے 4 کروڑ عوام روزانہ 2 ڈالر پر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں اور سالانہ فی کس آمدنی نچلی سطح پر آ چکی ہے۔ عوام حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔  ان کا کہنا ہے کہ حکومت نااہل ہے اور کابینہ میں شامل وزرا بدترین کرپشن میں ملوث ہیں۔  عراق کے صدر برہام صالح نے کہا کہ وہ وزیر اعظم عادل مہدی کو عہدے سے سبکدوش کرنے کے لئے تیار ہیں۔  اس کے بعد جلد نئی پارلیمان لے آئیں گے اور عوامی مطالبات بھی پورے ہوں گے، مگر عراقی عوام بھپرے ہوئے ہیں وہ اس طرح کے وعدے اور مصنوعی اعلانات برداشت کرتے کرتے تنگ آ چکے ہیں۔ اب وہ ملک میں حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ عراق دنیا میں تیل پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے، اس کے علاوہ دیگر قیمتی معدنیات سے بھی مالا مال ہے۔  عراق کی اشرافیہ انتہائی دولت مند ہے اور ان کی دولت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جبکہ عوام الناس غریب سے غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ بغداد کے التحریر اسکوائر پر عوام کا ہجوم حکومت کے خلاف مسلسل نعرے لگا رہا ہے، مظاہرے ہو رہے ہیں۔  حکومت وعدے کر رہی ہے۔  اس تناظر میں عراق کے مقبول سیاسی شیعہ رہنما مقتدر الصدر نے کہا کہ حکومت نے اگر جلد ہی کوئی فیصلہ نہیں کیا اور عوام کے مطالبات تسلیم نہیں کئے تو وہ اپنے ساتھیوں سے پارلیمان چھوڑ دینے کو کہیں گے۔  الصدر کا نچلے طبقہ میں بہت زیادہ اثر ہے۔ وہ معروف شیعہ ملیشیا کے کمانڈر بھی ہیں جو عراق میں فلاحی کاموں کی وجہ سے بھی ایک شہرت رکھتی ہے۔

عراق میں 60 فیصد شیعہ مسلک، 40 فیصد سنی مسلک سے وابستہ لوگ آباد ہیں۔ ان میں 78 فیصد عرب، 15 فیصد کرد اور باقی دیگر لسانی اور نسلی دھڑے ہیں۔  عراق کی تاریخ 11 ہزار سال سے زائد عرصے سے پرانی ہے۔  دنیا کے اہم تہذیب یافتہ خطوں میں شمار ہوتا ہے۔  عظیم تہذیبوں اور حکومتوں نے یہاں جنم لیا، عروج پایا، پھر زوال پذیر ہو گئیں۔  اسلامی تاریخ میں Banu Abbas کے دور میں بغداد دنیا کا خوبصورت ترین اور امیر ترین شہر کہلاتا تھا۔  دنیا کی عظیم علمی، ادبی، سائنسی ہستیاں یہاں علم کے چراغ روشن کر کے دنیا کے اندھیرے مٹا رہی تھیں۔  اس کو رنگوں، روشنیوں اور خوشبوئوں کا شہر بھی کہا جاتا تھا۔ 17ویں اور 18ویں صدی میں یورپی نوآباد کاروں نے مشرق وسطی سمیت دنیا کے دیگر خطوں کو بھی تباہ کیا۔  مشرق وسطی کی سلطنتوں کو فرانس اور برطانیہ نے نئے نقشوں میں بانٹ دیا اور یہاں کی تمام قدرتی دولت پر قبضہ کر کے اس کا بھرپور استعمال کیا، تب سے مشرق وسطی پسماندگی، خستہ حالی اور بدنظمی کا شکار رہا۔  فرانسیسی اور برطانوی نوآبادکاروں نے ایک بڑا ظلم یہ کیا کہ سلطان صلاح الدین کرد کی بہادری کا بدلہ لینے اور اس کا یروشلم فتح کرنے کے جرم میں کردستان کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔  کردستان کی ریاست جو زیادہ تر پہاڑی سلسلوں پر پھیلی ہوئی تھی، اس کا ایک حصہ ترکی، دوسرا عراق، تیسرا شام اور چوتھا حصہ ایران کے پاس آ گیا۔  آج غیور اور بہادر کرد عوام چار حصوں میں تقسیم ہیں۔

سال 2006ء میں عراق میں نیا دستور بنایا گیا، جس کے تحت مجلس النواب کا قیام عمل میں آیا۔ اس عراقی پارلیمان میں اراکین کی تعداد 329 رکھی گئی۔  عراق کی سالانہ فی کس آمدنی 4000 ڈالر ہے۔  تین دہائیوں پر محیط جنگوں، دہشت گردی، لوٹ مار اور خانہ جنگی نے عراق کی معیشت، معاشرت، انفرااسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچایا۔  صدر صدام حسین کے دور میں عراق خوشحال ملک شمار ہوتا تھا۔ بجلی، پانی، صحت عامہ اور تعلیم کے شعبے مستحکم تھے۔  2008میں عراقی حکومت نے امریکا سے وسیع تر معاہدہ کیا جس کے تحت امریکا، عراق کے تمام شعبوں کی ترقی کے لئے جدید ٹیکنالوجی فراہم کرے گا۔ امریکا نئی صدی کے پہلے عشرے میں ٹریڈ ٹاورز کے سانحے سے گزرا۔  القاعدہ اور امریکا کی سرد اور گرم جھڑپیں 90ء کے عشرے میں جاری ہو گئیں تھیں۔  امریکا اور اس کے اتحادی مشرق وسطی میں اس وقت کے عراقی صدر، صدام حسین اور شام میں صدر Hafiz Assad کو اپنا شدید نظریاتی حریف تصور کرتے تھے اور ان کی حکومتوں کا خاتمہ چاہتے تھے۔  بعد ازاں مغرب نے اس فہرست میں صدر Muammar Gaddafi کا نام بھی شامل کر لیا تھا۔  امریکا جارج بش دوئم کی حکومت میں ایک نیو کونز گروپ تشکیل پایا۔  اس قدامت اور شدت پسند گروپ میں صدر Bush ، برطانوی وزیر اعظم Tony Blair ، امریکی فوجی سربراہ، Colin Powell اور وزیر خارجہ Condoleezza Rice شامل تھے،  انہوں نے صدر صدام کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا کہ، صدام جوہری ہتھیار بنانے کی تیاری کر رہے ہیں، ساتھ ہی عراق میں کیمیاوی ہتھیار بھی جمع کر رہے ہیں۔

اس پروپیگنڈے کے پس منظر میں صدر صدام کی حکومت کو خطہ کے امن اور عالمی امن کے لئے خطرہ کہنا شروع کیا اور عراق سے جنگ کی تیاری کا ماحول بننا شروع ہوا۔ اس ضمن میں سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے امریکی حکومت کو خبردار کیا کہ عراق سے جنگ امریکا اور خطے کے دیگر ممالک کو بھاری پڑے گی۔  اس کے مستقبل میں بہت ہی برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔  ویٹی کن سے پوپ جان پال نے بھی عراق سے جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا۔  امریکی کانگریس کے 209 اراکین میں سے 125 اراکین نے جنگ کی شدت سے مخالفت کی۔  فرانس اور جرمنی کے وزرا خارجہ نے بھی عراق سے جنگ کو خطرناک نتائج کا حامل فیصلہ قرار دیا۔

2003میں امریکا اور برطانیہ نے پوری شدت سے عراق پر حملہ کر دیا۔  اس جنگ کو امریکا نے آپریشن عراق کی آزادی کا عنوان دیا۔  اس جنگ میں امریکی صدر بش اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا کردار عالمی تنقید کا نشانہ بنتا رہا، مگر New kansas یہودی دانشوروں کا نظریہ ہے جس میں وہ مشرقی وسطی میں اسرائیل کا دفاع  اور خطے میں امریکی سیاسی اثرات اور رسوخ میں اضافے کو اہمیت دینا ہے۔  2002میں ٹریڈ ٹاورز پر حملے کے بعد سے یہ پروپیگنڈہ شروع کیا کہ عراق، ایران اور شمالی کوریا تین شیطانی ریاستیں ہیں جن سے پوری دنیا کو خطرہ ہے  اور اب امریکا ٹریڈ ٹاورز پر حملے جیسے دوسرے واقعہ کا انتظار نہیں کر سکتا۔

سابق امریکی صد،ر بش کے New kansas میں نائب صدر Dick Cheney ، وزیر دفاع Donald Rumsfeld ، وزیر خارجہ Condoleezza Rice ، فوجی سربراہ Colin Powell اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر شامل تھے، جو صدر جارج بش کے نظریہ کی بھرپور حمایت کر رہے تھے۔  ایک اطلاع کے مطابق ان میں زیادہ تر تیل کی کمپنیوں کے مالک شیئر ہولڈرز تھے۔  ٹونی بلیئر کی تیل کی کمپنی تھی۔  2003میں امریکا اور برطانیہ نے عراق پر بھرپور حملہ کیا۔  پورے ملک میں جنگ کے شعلے بھڑکا دیئے۔  صدر صدام کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا، بعدازاں انہیں گرفتار کر کے اذیتیں دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

عراق میں اربوں ڈالر کا تیل اسمگل اور ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم کیا گیا۔  عراق کی سیاست، معیشت، معاشرت تباہ کر دی گئی۔ ملک کو مذہبی، نسلی، لسانی، مسلکی اور انارکی دلدل میں دھکیل دیا گیا۔  عراق میں القاعدہ مضبوط ہوئی۔  ابو غریب کے قیدیوں نے جیل توڑ کر فرار حاصل کی، ان میں سے بیشتر نے دولت اسلامیہ عراق شام یا داعش (ISIS) قائم کی  اور دہشت گردی کا ایک طویل، خوفناک سلسلہ مشرقی وسطی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں پھیلا۔  صدر صدام پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ تمام غلط ثابت ہوئے۔  ٹونی بلیئر نے معافی مانگی اور قبول کیا کہ عراق کے پاس کیمیاوی ہتھیار نہیں تھے۔  امریکی عوام کو پتہ چلا کہ صدر صدام حسین اور لیبیا کے صدر معمر قذافی کو منظر سے ہٹا کر مغرب نے بڑی غلطی کی ان کی وجہ سے مشرق وسطی میں طاقت کا جو توازن قائم تھا وہ ختم ہو گیا اور دہشت گرد سر چڑھ کر کارروائیاں کرنے لگے۔

No comments.

Leave a Reply