نیو گنی کا قبیلہ سالانہ تقریبات مردوں کے ساتھ مناتا ہے

نیو گنی کا قبیلہ سالانہ تقریبات مردوں کے ساتھ مناتا ہے

نیو گنی کا قبیلہ سالانہ تقریبات مردوں کے ساتھ مناتا ہے

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

انڈونیشیا کے قریب بحرا لکاہل میں واقع ملک نیوگنی (New Guinea) کے دورہ افتادہ جنگلوں میں آج بھی دنیا کے دو عجیب و غریب قبائل آباد ہے۔ نیوگنی کو گرین لینڈ کے بعد دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ شمار کیا جاتا ہے۔ یہاں کوروائی نام کا ایک ایسا قبیلہ رہتا ہے، جو انسانوں کا گوشت کھاتا ہے۔ جبکہ ”انگا” نامی قبیلے میں زمانہ قدیم سے مردوں کے اجسام کو حنوط کر کے مختلف مقامات پر سجایا جاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ البیان کے مطابق 4 ہزار نفوس پر مشتمل کوروائی قبیلہ جدید دنیا کی نظروں سے بہت دور گھنے جنگلوں میں رہتا ہے۔ یہ قبیلہ ہمیشہ ”کھا کھوا” نامی بلا کے خوف میں مبتلا رہتا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ”کھاکھوا” جب کسی شخص کو نشانہ بناتا ہے تو اس کے اندر سے کھانا شروع کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے متاثرہ شخص بہت جلد موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر اس بلا کا نشانہ بننے والا شخص اپنی موت کے وقت کسی شخص کا نام لے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ بلا کا نام بتا رہا ہے اور یوں بتائے گئے شخص کو ”کھا کھوا” قرار دے دیا جاتا ہے۔ سارا قبیلہ اس بات پر متفق ہوتا ہے کہ ”کھا کھوا” کو ہلاک کر دیا جائے، تاکہ وہ کسی اور شخص کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ اس لئے ایک خاص پرندے کی ہڈی سے تیار کردہ تیر کا وار کر کے ”کھا کھوا” قرار دیے گئے شخص کو ہلاک کر دیا جاتا ہے اور پھر اس کے اعضا کاٹ کر اس کا گوست تیار کیا جاتا ہے۔ اس گوشت کو ایک خصوصی تقریب میں پکا کر سارا قبیلہ کھاتا ہے۔ ہلاک کئے گئے شخص کی ہڈیاں، بالوں اور نازک اعضا کے سوا ہر چیز کھا لی جاتی ہے اور اس کی کھوپڑی ہلاک کرنے والے کو سونپ دی جاتی ہے۔ اس قبیلے میں کسی بچے کو بھی ”کھا کھوا” قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں بچے کے بلوغت تک پہنچنے کا انتظار کیا جاتا ہے، جس کے بعد اسے قتل کر کے اس کا گوشت کھا لیا جاتا ہے۔ نیوگنی کے علاقے ”بابوا” کے جنگلات میں آباد ”انگا” نامی قبیلے میں زمانہ قدیم سے مردوں کی تجہیز و تدفین اور حنوط کے حوالے سے ایک عجیب و غریب روایت چلی آ رہی ہے، جسے مقامی لوگ مردوں کو آگ کی تپش دینا یا آگ لگانا، یا مردوں کو آگ سے سلگانے کا نام دیتے ہیں۔ مقامی رسوم و رواج کے مطابق کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کی میت کو خاص قسم کے لال مسالے لگا کر آگ کی تپش دی جاتی ہے۔ آگ میں پک کر مردے کا جسم ”ممی” بن جاتا ہے۔ اس کے بعد لاش کو پہاڑوں کے درمیان کسی گرم مقام پر رکھا جاتا ہے۔ ان لاشوں کو دیکھنے والوں کو ابتدا یوں محسوس ہوتا ہے جیسے لال تلے ہوئے اجسام ہوں اور جب ان اجسام کو حسب روایت پہاڑوں پر رکھا جاتا ہے تو انتہائی خوفناک منظر ہوتا ہے۔ تاہم مقامی قبیلہ ”انگا” کے لیے چونکہ یہ ایک مذہبی و روایتی طریقہ کار ہے، اس لیے وہ اسے مردوں کی تدفین کا بہترین طریقہ قرار دیتے ہیں۔ ”وائس” ایک مشہور ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ نے انگا قبیلے کے رسوم رواج کے حوالے سے ایک ریسرچ کی ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق مردوں کی تجہیز و تدفین کا یہ عمل انتہائی احتیاط اور مقامی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے مقامی رواج کے تحت کیا جاتا ہے، جسے مردوں کے لیے اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس عمل کے لیے مخصوص افراد ہوتے ہیں۔ کسی بھی مردے کی تجہیز کیلیے انہیں خصوصی طور پر بلایا جاتا ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق ابتدائی طور پر مردوں کے دونوں ہاتھ کہنیوں سے اور پائوں کو دونوں ٹخنوں سے باندھا جاتا ہے۔ اس کے بعد مردے کے پورے جسم پر مخصوص تیل ڈالا جاتا ہے اور پھر ایک مخصوص درخت کی لکڑی جس میں خوشبو ہوتی ہے جس کو جلا کر میت کو دھونی دی جاتی ہے۔ اس دوران چونکہ مردے پر تیل بھی ڈالا جا چکا ہوتا ہے، اس لیے دھونی دیتے وقت مردے کے بدن سے جب تیل کا اخراج ہوتا ہے، تو اس تیل کو انتہائی بابرکت سمجھا جاتا ہے اور اسے مردے کے قریبی لواحقین پر چھڑکا جاتا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق اس طرح کرنے سے مردہ شخص کی قوت اور طاقت ان کے عزیز و اقارب میں منتقل ہو جاتی ہے۔ جو تیل بچ جاتا ہے، اسے محفوظ کر کے رکھا جاتا ہے۔ دھونی دینے کے بعد مردے کے جسم سے صرف تیل ہی نہیں بہتا، بلکہ مردے کے جسم سے خارج ہونے والے دیگر سائل مادے بھی اسی تیل میں شامل ہوتے ہیں۔ مردے کی آنکھوں، منہ اور ناک کو دھاگے سے سی دیا جاتا ہے، تاکہ تیل جم کے اندر داخل نہ ہو سکے۔ اس کا مقصد جسم کو تعفن سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ مقامی قبیلے کے نزدیک کسی بھی ”مومی” کو برسوں محفوظ رکھنے کے لیے یہ طریقہ کار سب سے بہترین ہے۔ مقامی رواج کے تحت میت کے پائوں اور ہتھیلیوں کی جلد کو کاٹ کر اس کی بیوہ کو پیش کیا جاتا ہے اور وہ حسب روایت اس جلد کو پکا کر یا کچا کھا جاتی ہے۔ اس کے بعد زمین میں ایک گڑھا کھود کر اس مٰں آگ لگائی جاتی ہے۔ جب وہ گڑھا لال سرخ ہو جائے تو مردے کو اس میں ڈالا جاتا ہے تاکہ آگ سلگائی کی رسم مکمل ہو اور جب مردے کو مکمل طورپر آگ کی تپش دی جاتی ہے تو پھر اسے مٹی اور گیرو ریڈ نامی دھات سے مکمل طور پر ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ انگا قبیلے کے مطابق اس طرح ڈھانپنے سے میت کا جسم بیرونی اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے اور تعفن بھی نہیں پھیلتا۔ یاد رہے کہ مذکورہ قبائلی روایت کے مطابق تمام مردوں کے لیے تجہیز و تدفین کی یہی طریقہ مروج ہے۔ خواہ مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا۔ مذکورہ عمل کے بعد میت کا جسم تدفین کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ اس کی تدفین زمین میںنہیں، بلکہ اسے لکڑیوں سے بنی ایک خاص قسم کی چار پائی پر رکھا جاتا ہے۔ پھر میت کو چارپائی سمیت ”موروبی” کے بلند و بالا پہاڑوں پر رکھ دیا جاتا ہے۔ موروبی کے پہاڑوں پر آج سے 200 سال قدیم مردوں کے جثے بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ پہاڑ مقامی قبیلے کے لیے قبرستان کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسری ایک عجیب و غریب روایت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ انگا قبیلے کے افراد اپنی کسی بھی مذہبی تقریب یا سالانہ تقریبات کے موقع پر حنوط زدہ لاشوں کو پہاڑی سے نچے لے آتے ہیں۔ ان کے خیال میں مردوں کو بھی ان تقریبات میںشامل کرنا ضروری ہے۔ تاہم تقریب ختم ہونے کے بعد انہیں واپس پہاڑ پر رکھ دیا جاتا ہے۔ یہاں پر یہ واضح کرتے چلیں کہ یہ قبیلہ جتنی حیثیت عام مردوں کو دیتا ہے، اس سے کہیں زیادہ ان مردوں کو حیثیت دی جاتی ہے۔ جو جنگوں میںمارے جاتے ہیں۔ اس لیے ”انگا” قبیلے کے بہادر افراد کو مرنے کے بعد خاص اہتمام و احترام کے ساتھ حنوط کیا جاتا ہے۔ مقامی لوگ انہیں مرنے کے بعد علاقے کا محاذ تصور کرتے ہیں۔ انجسیے مردوں کو مخصوص مقامات پر رکھا جاتا ہے۔ مقامی قبیلے کے عقیدے کے مطابق یہ مردے ان مقامات کی حفاظت کرتے ہیں۔ ویب سائٹ کے مطابق جنگ عظیم دوم کے موقع رپ اس قبیلے کا یک جنگجو جاپانیوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ انگا قبیلے کا کہنا ہے کہ یہ لاش پورے علاقے کی حفاطت کرتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ انگا قبیلہ عرصہ دراز سے مردوں کو مذکورہ طریقے کے تحت حنوط کرتا آ رہا ہے۔ اس قبیلے کے بہت سے لوگ اسے مسترد بھی کر چکے ہیں۔ تاہم 1975 ء میں نیو گنی نے فرانس سے آزادی سے حاصل کرنے کے بعد اس طریقے سے مردوں کے حنوط لگانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ جس کے بعد انگا قبیلے کے بعض لوگ مسیحی طریقہ کار کے مطابق مردوں کی تدفین کرتے ہیں۔ تاہم آج بھی اس قبیلے کے اکثر افراد مذکورہ طریقے کے مطابق مردوں کو حنوط کرنے کے قدیم رواج پر سختی سے کار بند ہیں۔

No comments.

Leave a Reply