اگر مہاتما گاندھی زندہ ہوتے

بھارتی عدالت نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کو جائز قرار دے دیا ہے

بھارتی عدالت نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کو جائز قرار دے دیا ہے

نیوز ٹائم

9 نومبر 1989ء کو دیوارِ برلن گرائی گئی اور 30 سال بعد اسی روز حکومت پاکستان نے مذہبی روا داری کے تحت کرتارپور راہداری کا افتتاح کر کے نفرتوں کی دیواریں منہدم کرنے کی کوشش کی مگر اسی روز ہی بھارتی سپریم کورٹ نے ایودھیا کیس کا فیصلہ سنا کر یہ کوشش ناکام بنا دی۔  بھارتی عدالت نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کو جائز قرار دے دیا ہے  اور سابق چیف جسٹس Markandey Katju نے اس فیصلے سے متعلق محض یہ کہنے پر اکتفا کیا ہے کہ جب آپ کے پاس کہنے کو کوئی اچھی بات نہ ہو تو خاموش رہنا چاہئے۔

بھارتی چیف جسٹس Ranjan Gogoi کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ دیا ہے کہ متنازع جگہ پر رام مندر ہی بنے گا  جبکہ مسلم فریق کو ایودھیا میں کسی نمایاں جگہ پر مسجد کی تعمیر کے لئے پانچ ایکڑ زمین دے دی جائے۔ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے عہد میں ایودھیا کے مقام پر بابری مسجد تعمیر کی گئی جس کے متعلق ہندو تنظیموں کا دعوی ہے کہ یہ ان کے Shri Ram Janmabhoomi ہے اور یہاں مندر کو گرا کر مسجد تعمیر کی گئی۔  بھارتی سپریم کورٹ میں مقدمے کی سماعت کے دوران محکمہ آثار قدیمہ نے بابری مسجد کی جگہ کسی مندر کی باقیات کے ثبوت تو پیش کئے  مگر یہ دعوی نہیں کیا گیا کہ مغل دور میں مندر کو گرا کر مسجد تعمیر کی گئی۔  یہ بات بھی حتمی نہیں کہ جس مندر کے آثار دریافت ہوئے وہ ہندو دھرم کا ہی مندر تھا۔  ہندو انتہاپسند تنظیموں نے 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد پر دھاوا بول کر اسے شہید کر دیا مگر اس جھگڑے کا آغاز قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی ہو گیا تھا۔

1949میں 22 اور 23 دسمبر کی درمیانی شب اس تنازعہ کے مرکزی کردار Mahanirvani Akhara والے Baba Abhiram Das  نے بابری مسجد سے بھگوان رام کی مورتی برآمد کرنے کا دعوی کیا اور پھر فسادات کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بھارتی مصنفین Krishna Jha اور Dharinder Jha کی کتاب Ayodhya The Dark Night میں بیان کی گئی تفصیل کے مطابق بابری مسجد سے بھگوان رام کی مورتی برآمد ہونے کا معجزہ ایک سوچ سمجھا منصوبہ تھا جسے ضلعی انتظامیہ کی ملی بھگت سے انجام تک پہنچایا گیا۔ اس کتاب کے مطابق جعلسازی سے بھگوان رام کی مورتی برآمد کرنے میں وہی لوگ ملوث تھے جنہوں نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا۔ 22 اور 23 دسمبر کی درمیانی شب یہ لوگ جمع ہوئے اور مسجد کے Mozan Mohammad Ismail کو مارپیٹ کر بھگا دیا گیا اور مسجد میں بھگوان رام کی مورتی لا کر رکھ دی گئی۔ جب صبح ہوئی تو مسجد سے اذان کے بجائے Ramlila کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ دھرم اور راج نیتی کا منجن بیچنے کے لئے دہکائی گئی نفرتوں کی چنگاریاں سلگتی رہیں اور مسلسل ہوا دیئے جانے کے بعد تب بھڑک اٹھیں جب Shri Ram Janmabhoomi تحریک شروع ہو گئی۔

بی جے پی کے رہنما Lal Krishna Advani نے اپنی سیاست چمکانے کے لئے جلتی پر تیل پھینکنے کا کام کیا اور گجرات کے Somnath Temple سے From temple to Ram Rath Yatra نکل پڑے۔ Lal Krishna Advani کی اس یاترا سے اتر پردیش میں بھونچال آ گیا۔ اس دوران وشوا ہندو پریشد کے Kalyan Singh نے بابری مسجد جا کر build a canopy کرنے کی اجازت طلب کی اور حلف نامہ جمع کروایا کہ ان کی build a canopy کے نتیجے میں مسجد کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے گا اور Seawak Mosque کی حفاظت کریں گے، بھارتی سپریم کورٹ نے اس یقین دہانی پر وشوا ہندو پریشد کو علامتی build a canopy کی اجازت دے دی۔ اس build a canopy کے درپردہ مقاصد کچھ اور تھے، منصوبہ بندی کے مطابق پانچ دسمبر 1992ء کو جنونیوں نے بابری مسجد گرانے کے ارادے ظاہر کر دیئے مگر انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی اور پھر 6 دسمبر کو یہ مناظر پوری دنیا نے دیکھے کہ build a canopy کے نام پر آنے والے بلوائیوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا۔ اس روز بابری مسجد کے مینار ہی نہیں گرے، بھارتی جمہوریت اور سیکولرازم کی عمارت بھی زمین بوس ہو گئی۔ بی جے پی کے رہنمائوں نے مجرمانہ کردار ادا کرتے ہوئے بلوائیوں کی پشت پناہی کی۔ اس سانحہ پر کئی انکوائری کمیشن اور کمیٹیاں بنیں۔

سپریم کورٹ نے Lal Krishna Advani اور Manohar Joshi کے خلاف مقدمات چلانے کا حکم بھی دیا لیکن سانحہ بابری مسجد کے حقیقی کرداروں کو سزا نہ ہو سکی۔ دیدہ دلیری کا یہ عالم رہا کہ وشوا ہندو پریشد کئی سال تک 6 دسمبر کو شوریا دِوس یعنی بہادری کے دن کے طور پر فخریہ انداز میں مناتی رہی۔ اس جھگڑے کو حل کرنے کے لئے مصالحت اور قانونی کارروائی سمیت تمام ممکنہ آپشنز پر غور ہوا۔ الہ آباد ہائیکورٹ نے طویل سماعت کے بعد 30 ستمبر 2010ء کو فیصلہ سنایا کہ متنازع زمین کو تین حصوں میں تقسیم کر کے تینوں فریقین کو دے دیا جائے۔  ایک حصہ Lila Temple کی تعمیر کیلئے ہندو مہاسبھا کو دے دیا جائے، دوسرا حصہ مسجد کی غرض سے مسلم سنی وقف بورڈ کے حوالے کر دیا جائے جبکہ تیسرا حصہ Baba Abhiram Das  کے Mahanirvani Akhara کو دے دیا جائے۔ اس فیصلے کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تو چیف جسٹس Ranjan Gogoi کی سربراہی میں بنچ تشکیل دیا گیا۔

بھارتی عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ 1949ء میں بابری مسجد میں بھگوان رام کی مورتی رکھنا عبادت گاہ کی بے حرمتی کے مترادف تھا،  یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ بابری مسجد سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کا عمل اور پھر 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد گرانے کا اقدام غیر قانونی اور غیر منصفانہ تھا، یہ بھی لکھا ہے کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ بابری مسجد کسی مندر کو گرا کر بنائی گئی مگر پھر بھی رام مندر کی تعمیر کو جائز قرار دے دیا گیا ہے اور مسلمانوں کو محض متبادل زمین دینے پر اکتفا کیا گیا ہے۔  خیال آتا ہے کہ مہاتما گاندھی زندہ ہوتے تو بھارتی سپریم کورٹ کی اس ناانصافی کے خلاف احتجاج کرتے، یہ مطالبہ لے کر مرن بھرت رکھتے کہ بابری مسجد کی جگہ مسلمانوں کو دے دی جائے۔ ممکن ہے کوئی ہندو انتہاپسند انہیں قتل کر دیتا مگر ثنات عقل کے آثار تو دکھائی دیتے۔

No comments.

Leave a Reply