امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحقیقات: فون کال نے سب بدل دیا

امریکی صدر ٹرمپ

امریکی صدر ٹرمپ

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکہ کے ایک اعلی سفارتکار نے انکشاف کیا ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹک پارٹی کے اپنے صدارتی مدمقابل کے خلاف یوکرین میں تحقیقات کے بارے میں بات کی تھی۔  امریکی صدر ٹرمپ کے مواخذے کی تحقیقات رپبلکن پارٹی کے لیے نیا درد سر بن گئی ہیں۔ ایک اعلی سفارتکار نے اس کارروائی کے دوران انکشاف کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹک پارٹی کے اپنے صدارتی مدمقابل کے خلاف یوکرین میں تحقیقات کے بارے میں صاف طور پر بات کی تھی۔ یوکرین میں امریکہ کے قائم مقام سفیر Bill Taylor نے مواخذے کی تحقیقاتی کمیٹی کو بتایا کہ ان کے عملے میں شامل ایک اہلکار کو کہا گیا تھا کہ صدر ٹرمپ بڑی شدت سے چاہتے ہیں کہ Joe Biden کے خلاف تحقیقات کی جائیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھیں یاد نہیں کہ کبھی انھوں نے ایسی بات کی ہو۔  وہ کسی بھی قسم کی بے قاعدگی سے انکار کرتے ہیں۔ امریکی صدر پر الزام ہے کہ انھوں نے یوکرین کو دی جانے والی فوجی امداد روک لی تھی تاکہ وہ یوکرین کے نومنتخب صدر کو اس بات پر مجبور کر سکیں کہ Joe Biden کے بیٹے کے خلاف مبینہ کرپشن کے الزامات میں تحقیقات شروع کروائیں۔

صدر ٹرمپ امریکہ کے ایوان نمائندگان میں صدر کے مواخذے کے لیے کی جانے والی تحقیقات کو ایک انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں۔ Bill Taylor نے اپنے تفصیلی بیان میں کہا کہ ان کے عملے میں شامل ایک اہلکار نے صدر ٹرمپ سے فون پر ہونے والی ایک گفتگو سنی تھی جس میں Joe Biden کے بیٹے کے خلاف تحقیقات کے بارے میں صدر ٹرمپ نے پوچھا تھا۔ فون پر ہونے والی یہ گفتگو یورپی یونین میں امریکی سفیر Gordon Sondland سے ہو رہی تھی جنھوں نے ایک ریسٹورانٹ سے فون پر صدر سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یوکرین کی حکومت یہ کرنے کو تیار ہے۔ Bill Taylor کا کہنا تھا کہ صدر سے فون پر ہونے والی اس گفتگو کے بارے میں امریکی سفیر Gordon Sondlan کے عملے نے جب ان سے دریافت کیا  کہ صدر یوکرین کے بارے میں کیا سوچتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کو Joe Biden کے بارے میں تحقیقات کی زیادہ فکر ہے۔

درین اثنا مبصرین اور سابق سکیورٹی حکام نے اس طرف توجہ مبذول کرائی ہے کہ ریسٹورنٹ سے فون کرنا بڑی حد تک خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس مہینے کے شروع میں Gordon Sondland کے بارے میں جب صدر ٹرمپ سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی ایسے شخص کو شائد ہی جانتے ہوں۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا میں اس پہلی مرتبہ یہ بات سن رہا ہوں۔ صدر نے کہا کہ Bill Taylor نے جس فون کال کی بات کی ہے اس کے بارے میں انھیں کچھ یاد نہیں اور یہ ہر صورت میں بلواسط اطلاعات ہیں۔

صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحقیقات ایک ماہ سے چل رہی ہیں لیکن اس سے پہلے ہونے والی تمام تحقیقات بند کمرے میں ہوئی تھیں اور تمام رپورٹیں باہر آنے والی معلومات یا ذرائع کے اخبار نویسوں سے بات کرنے پر مبنی تھیں۔ بدھ کو ہونے والی سماعت پہلی مرتبہ کھلے عام کی گئیں جس میں امریکی عوام نے براہ راست گواہان کو سنا۔  ڈیموکریٹ اور رپبلکن جماعت کے ارکان کے پاس بھی اپنے ووٹروں کو خوش کرنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ صدر ٹرمپ اور Gordon Sondland کے درمیان براہ راست فون لائن ہونے کے بارے میں اطلاعات تھیں لیکن کوئی ایسا ثبوت موجود نہیں تھا جو صدر ٹرمپ کو اس مبینہ سودے بازی دو سے جوڑے۔ بدھ کو ہونے والی سماعت کے دوران ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی نے اعلان کیا کہ ایک نیا گواہ جمعہ کو بند کمرے کے اجلاس میں اپنا بیان قلمبند کرائے گا  اور اس کا نام David Holmes ہے جو اطلاعات کے مطابق Bill Taylor کا ایک معتمد خاص ہے۔ اگر یہ دونوں گواہان Bill Taylor کے بیان کی تصدیق کرتے ہیں تو صدر ٹرمپ کے حامیوں کا موقف کمزور پڑ جائے گا  جیسے Bill Taylor نے بیان کیا یوکرین پر دبائو ڈالا جا رہا تھا کہ وہ Joe Biden کے خلاف تحقیقات کریں۔ ڈیموکریٹ کے لیے یہ ایک اطمینان بخش پیشرفت ہے جبکہ صدر کی ٹیم کے لیے نیا درد سر بن گئے ہیں۔

سماعت میں کیا ہوا؟

بدھ کو ہونے والی سماعت یورپی امور کے امریکی اعلی سفارتکار George P. Kent کے بیان سے شروع ہوئی۔ انھوں نے کمیٹی کو بتایا کہ صدر ٹرمپ کے نجی وکیل Rudy Giuliani نے یوکرائن میں تعینات امریکی سفیر Marie Yovanovitch کو بدنام کرنے کی مہم چلائی۔ اس کے بعد Bill Taylor نے اپنے بیان میں وہ باتیں دہرائیں جو اس سے پہلے وہ بند کمرے کی سماعتوں میں کہہ چکے ہیں لیکن کھلے عام ہونے والی اس سماعت میں انھیں کچھ نئی باتیں بھی بتائیں۔ Bill Taylor پیشہ ور سفارتکار ہیں جو رپبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں جماعتوں کے صدور کے ادوار میں سفارتکار رہ چکے ہیں۔ انھوں نے یہ بات دہرائی کہ ٹرمپ انتظامیہ نے یوکرین کی فوجی امداد روکنے کی دھمکی دی تھی اگر وہ Joe Biden کے خلاف تحقیقات کرنے کا اعلان نہیں کرتے۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے Gordon Sondland اور Kurt Walker کو، جو یوکرین میں امریکہ کے خصوصی نمائندوں کی حیثیت میں خدمات انجام دے چکے ہیں، بتایا کہ اندورنی سیاست کے لیے فوجی امداد کو روکنا پاگل پن ہے۔

Adam Schiff جو ہائوس کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین ہیں وہ اس سماعت کی سربراہی کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے صدر ٹرمپ کے خلاف تحقیقات کا مقصد یہ جاننا ہے کہ کیا صدر نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے امریکہ کے اندرونی سیاسی معاملات میں دوسرے ملکوں کو دخل اندازی کی دعوت دی ہے۔ انٹیلی جنس کمیٹی میں شامل اعلی رپبلکن رکن اور صدر ٹرمپ کے شدید حمایتی Devin Nunes نے اس سماعت کو ایک ڈرامہ قرار دیا۔ رپبلکن جماعت کے ارکان کا مطالبہ ہے اس نامعلوم اہلکار کو بند کمرے کی سماعت کے لیے پیش کیا جائے جس نے یہ سارا معاملہ آشکار کیا تھا جس کی بنا پر مواخذے کی یہ سماعت شروع ہوئی ہے۔تاہم Adam Schiff نے کہا ہے کہ وہ اس شخص کی شناخت خفیہ رکھنے کے لیے جو کچھ ضروری ہے کریں گے۔

No comments.

Leave a Reply