پاپوا نیو گنی کا صوبہ بوگن وِل میں آزادی کے لیے ریفرینڈم

پاپوا نیو گنی کا صوبہ بوگن وِل میں ووٹنگ 23 نومبر اور 7 دسمبر کو ہو گی

پاپوا نیو گنی کا صوبہ بوگن وِل میں ووٹنگ 23 نومبر اور 7 دسمبر کو ہو گی

پورٹ مورسبی ۔۔۔ نیوز ٹائم

پاپوا نیو گنی کا صوبہ بوگن وِل میں آزادی کے لیے ریفرینڈم ہونے والا ہے اور اگر توقعات کے مطابق ووٹ ڈالے گئے تو بوگن وِل دنیا کا نیا ملک بن سکتا ہے۔ اس جزیرے کی تاریخ میں نوآبادیاتی نظام کے دوران استحصال، آزادی کی کوششیں اور 9 سالہ جنگ پھر آہستہ آہستہ امن کے عمل سے گزرنا شامل ہے۔ ہفتے کو یہاں ایک نئی تاریخ رقم ہو گی جب 2 لاکھ 70 ہزار افراد ووٹ ڈالیں گے کہ آیا وہ وسیع تر خودمختاری چاہتے ہیں یا پھر آزادی۔ مبصرین کا اندازہ ہے کہ تین چوتھائی افراد آزادی کے لیے ووٹ ڈالیں گے لیکن پولنگ صرف پہلا قدم ہے۔

آزادی کیوں؟:

اس جزیرے کا نام 18ویں صدی میں آنے والے فرانسیسی مہم جو کے نام پر رکھا گیا اور یہ 19ویں صدی کے آخر میں جرمن نیو گنی نامی ایک جرمن کالونی کا حصہ بن گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران آسٹریلیا نے اس کا کنٹرول حاصل کیا تھا جو کہ 1975ء تک رہا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران کچھ عرصے کے لیے یہ جاپان کے زیر کنٹرول بھی رہا۔ بوگن وِل کی موجودہ آبادی 3 لاکھ ہے اور نوآبادیاتی دور میں اس کی حیثیت ایک فوجی چوکی کی رہی۔ جرمنی نے وہاں پہلا انتظامی سینٹر حکمرانی کے 21 سال بعد 1905ء میں قائم کیا۔ ریفرینڈم کے حوالے سے سامنے آنے والی دستاویزات کے مطابق بوگن وِل کے وسطی اور شمالی پہاڑی علاقوں کا جنگ عظیم دوئم کے بعد بھی چرچوں یا نوآبادیاتی حکمرانوں سے رابطہ نہیں تھا۔

پاپوا نیو گنی کو 1975ء میں آزادی ملی اور بوگن وِل اس کا صوبہ بنا اگرچہ اس فیصلے کو زیادہ حمایت حاصل نہیں تھی۔ حقیقتاً پاپوا نیو گنی بننے سے تھوڑا پہلے بھی بوگن وِل میں آزادی کی قرارداد منظور ہوئی تھی  اور یہ رپبلک آف دی نارتھ سولومنز بنانے کی کوشش تھی تاہم اسے آسٹریلیا اور پاپوا نیو گنی دونوں نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ آزادی کی قرارداد کی ناکامی کے بعد عدم اطمینان کی صورتحال برقرار رہی اور 1988ء میں علحیدگی کے لیے 9 برسوں پر محیط ایک جنگ شروع ہو گئی۔  اندازوں کے مطابق اس جنگ میں 4 سے 20 ہزار تک افراد مارے گئے۔  یہ جنگ 1997ء میں بین الاقوامی ثالثی کے بعد ختم ہوئی۔

اس کے نتیجے میں بوگن وِل امن معاہدہ ہوا۔

پھر 2005 ء میں وہاں خودمختار بوگن وِل حکومت قائم ہوئی اور یہ وعدہ کیا گیا کہ آزادی کے لیے وہاں غیر مشروط ریفرینڈم کروایا جائے گا۔ تو اب وہاں کیا آپشنز ہیں؟ اب لوگوں کے پاس ووٹ کے ذریعے دو آپشن ہیں زیادہ خودمختاری یا پھر آزادی۔ توقعات یہ ہیں کہ صوبے کے لوگ آزادی کے حق میں ووٹ ڈالیں گے اور تین ممکنات ہیں:  لوگ زیادہ خودمختاری کے لیے ووٹ دیں اور آزادی کے لیے نہ دیں۔  اس صورت میں وہ پاپوا نیو گنی کا حصہ رہے گا۔ آزادی کے لیے ڈالے گئے ووٹوں کو پاپوا نیو گنی تسلیم کرے اور ایک آزاد ملک بننے کا عمل شروع کیا جائے۔ اگر لوگوں نے آزادی کے لیے ووٹ ڈالے اور پاپوا نیو گنی نے نتیجہ تسلیم نہ کیا یا اس جانب مزید اقدامات میں تعطل پیدا کرنے کی کوشش کی تو اس میں ہو سکتا ہے کہ نیا بحران اور تنازع پیدا ہو۔ ووٹنگ 23 نومبر اور 7 دسمبر کو ہو گی اور دسمبر کے آخر تک نتائج آنے کا امکان ہے۔ ریفرینڈم کمیشن کی سربراہی سابق آئرش وزیر اعظم برٹائی اہرن کر رہے ہیں جنھوں نے 1998ء میں شمالی آئرلینڈ میں گڈ فرائیڈے معاہدے میں کردار ادا کیا تھا جو کہ وہاں امن کے عمل کا حصہ تھا۔

پاپوا نیو گنی کا کیا کہنا ہے؟

مرکزی حکومت نے اس سے پہلے ریفرنڈم کے لیے فنڈنگ کو روک دیا تھا کیونکہ اس کی ترجیح تھی کہ بوگن وِل اس کا حصہ ہی رہے۔ اکتوبر میں نئے وزیر اعظم جیمز ماریپ نے وعدہ کیا تھا کہ ووٹ غیر مشروط ہو گا اور نتائج پر پاپوا نیو گنی اور بوگن وِل کی حکومتیں غور کریں گی۔ تو کیا پھر پی این جی چاہتا ہے کہ بوگن وِل اس کے ساتھ رہے؟ بوگن وِل قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے۔  اگرچہ جنگ کی وجہ سے کانسی اور سونے کی کانوں کی کھدائی کو نقصان پہنچا تھا۔  اس سے پہلے یہ صوبہ ملک کا سب سے امیر صوبہ تھا۔ ایک پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ بوگن وِل کے علاوہ پی این جی میں 20 اور صوبے ہیں اور پھر وہ بھی زیادہ خودمختاری کے لیے یا علیحدگی کے لیے مطالبہ کر سکتے ہیں۔

کیا بوگن وِل آزادی کے لیے تیار ہے؟

اگر تو یہ ایک نیا ملک بنتا ہے تو یہ بہت چھوٹا ہو گا جس کا رقبہ صرف 10 ہزار مربع کلومیٹر ہو گا جو کہ قبرص سے تھوڑا بڑا اور لبنان سے تھوڑا چھوٹا ہو گا۔ اسی طرح یہ دنیا کی سب سے کم آبادی والے ممالک میں شامل ہو گا جس کی آبادی بحرالکاہل میں اپنے ہمسائے وینواتو سے کم اور باربڈوس سے تھوڑا زیادہ ہو گی۔ آسٹریلیا اس کا قریب ترین امیر ہمسایہ ہے، بوگن وِل کا سب سے بڑآ ڈونر ہے اور جنگ بندی میں ثالثی کا کردار بھی ادا کر چکا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ چین نے تو وہاں سرمایہ کاری کے مواقعوں پر تحقیق کے لیے پہلے ہی ایک وفد بھیج دیا ہے جس میں ایک پورٹ بنانے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ بیجنگ نے حال ہی میں بحرالکاہل کے جزائر سے تعلقات بڑھائے ہیں اور سولومن جزائر اور کریباتی سے سفارتی تعلقات بھی قائم کیے ہیں۔امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان نے ریفرنڈم کے لیے مالی مدد بھی فراہم کی ہے۔

No comments.

Leave a Reply