نیتن یاہو نے اسرائیل کے اداروں میں تصادم کا راستہ کھول دیا

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو

کراچی ۔۔۔ نیوز ٹائم

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے خلاف ملکی اٹارنی جنرل Avichai Mandelblit نے فرد جرم عائد کر دی ہے اور کہا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف بدعنوانیوں کے سنگین الزامات اور ناقابل تردید ثبوت و شواہد موجود ہیں، جن کا فیصلہ اب عدالتی نظام کرے گا۔ صف اول کے اسرائیلی جریدے ”ہارٹز” نیے ایک رپورٹ میں قانونی ماہرین اور اٹارنی آفس کے حوالے سے لکھا ہے کہ کرپشن کیسوں میں اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف قانونی شکنجہ مضبوط ہو چکا ہے۔ اس کیس میں نہ صرف نیتن یاہو کا سیاسی مستقبل تباہ ہو سکتا ہے بلکہ ان کو جیل میں قید بھی ہو سکتی ہے۔ اسرئیلی سیاسی ماہرین کے مطابق اسرائیل کا سیاسی نظام پیچیدہ بحران کی شکل اختیار کر گیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ وزیر اعظم نیتن یاہو پر کرپشن الزامات کی فرد جرم عائد کیا جانا ہے۔ اٹارنی جنرل کی جانب سے الزامات عائد کئے جانے سے ایک روز قبل ہی Netanyahu کے بعد وزیر اعظم کے ایک اور امیدوار Benny Gantz نے حکومت تشکیل دینے سے معذوری ظاہر کر دی تھی، جس کے اگلے روز اٹارنی جنرل نے نیتن یاہو کے خلاف فرد جرم عائدب کی ہے۔ لیکن دوسری جانب نیتن یاہو نے اپنے خلاف رشوت، فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے تین مختلف مقدمات قائم ہونے کے باوجود اقتدار میں رہنے اور استعفیٰ نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ پولیس پراسیکیوٹر سمیت تفتیش کاروں کو سازشی قرار دینے والے اسرائیلی وزیر اعظم نے خود پر کرپشن کے الزامات کو اپنی حکومت کے خلاف بغاوت کی ایک کوشش قرار دیا اور تمام حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا اظہار کیا۔

واضح رہے کہ اسرائیل میں پہلی مرتبہ ایسا منظر نامہ دیکھا گیا ہے کہ کسی وزیر اعظم پر نہ صرف کرپشن کے الزامات عائد کئے گئے ہیں بلکہ اس پر فرد جرم بھی عائد کی گئی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ کرپشن کیسز کی فرد جرم سے قبل وزیر اعظم نیتن یاہو کو کہا گیا تھا کہ ان کے خلاف الزامات سنگین ہیں اور اس ضمن میں تمام تر ثبوت و شواہد اور گواہان بھی موجود ہیں۔ اس لئے وہ مستعفیٰ ہو جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ لیکن نیتن یاہو نے مستعفیٰ ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی اہیمت رکھتی ہے کہ انہیں اپنی سیاسی جماعت ”لیکوڈ پارٹی” کے اندرونی حلقے کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ عالمی نیوز ایجنسیوں کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نے سیاسی مخالفین کو جھوٹا قرار دیا  اور کہا ہے کہ میں جھوٹ کو جیتنے نہیں دو گا۔

واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم کی بیوی Sara Netanyahu کو بھی کرپشن کیب الزامات میں معطل سزا اور جرمانہ کیا جا چکا ہے۔ عدالتی فیصلوں میں کہا گیا ہے کہ Sara Netanyahu نے لاکھوں Shekels  (اسرائیلی کرنسی) کا کھانا غیر قانونی طور پر منگوا کر کھایا گیا، حالانکہ وہ اس کا استحقاق نہیں رکھتی تھیں۔ ”یروشلم پوسٹ” نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ نیتن یاہو پر الزام ہے کہ موصوف نے متمول کاروباری شخصیات اور تاجروں سے قیمتی تحائف اور نقد رقوم کے عطیات قبول کئے۔ جبکہ میڈیا میں مثبت کوریج حاصل کرنے کی خاطر متعدد افراد اور ہائی پروفائل لوگوں کو غیر قانونی طور پر نوازا۔ اپنی دھواں دھار تقریر میں اسرائیلی وزیر اعظم نے ملکی عدلیہ، پولس اور دیگر تفتیشی افسران پر خود کو سازش کا ہدف بنانے کا الزام عائد کیا۔ موصوف نے تفتیش کاروں پر گواہوں کو جھوٹ بولنے کے لیے اکسانے اور بھاری رشوت دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ نیتن یاہو نے مزید کہا ہے کہ اس سازش میں شریک تفتیش کار سچ کی تلاش کے بجاے میرے پیچھے لگے ہوئے تھے۔  مشتعل اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے تحت ان تمام مخالفین کے خلاف انکوائری کی بھی دھمکی دی۔

دوسری جانب اسرئیلی تجزیہ نگار Chemi Shalev کا کہنا ہے کہ یہ ایک بڑا دلچسپ منظرنامہ ہے جس میں ایک جانب اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف قانون کا شکنجہ کسا جا رہا ہے تو دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بھی کانگریس میں مواخذیب کی تحریک پر کام ہو رہا ہے۔ دونوں اعلیٰ شخصیات بظاہر مشکلات کے گرداب میں پھنسی دکھائی دیتی ہیں۔ اسرئیلی اٹارنی جنرل Avichai Mandelblit نے کہا ہے کہ انہوں نے فرم جرم کی شکل میں وزیر اعظم نتین یاہو کے خلاف یہ فیصلہ بھاری دل کے ساتھ کیا ہے۔ مگر اس سے یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ اسرئیل میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل آفس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف رشوت ستانی، دھوکا دہی اور اعتماد شکنی کے جرائم کے ارتکاب پر عدالتی کارروائی شروع کی جائے۔ اس اعلان کے حوالے سے اٹارنی جنرل Avichai Mandelblit نے واضح کیا کہ انہوں نے یہ فیصلہ بھاری دل سے کیا۔ نیتن یاہو کے خلاف موجود قانونی شہادتیں مضبوط ہیں، جس کی بنیاد پر ان کے خلاف عدالتی کارروائی کا باقاعدہ آغاز کیا جائے گا۔ وزیر اعظم سے مخالفین اور تفتیش کاروں پر جوابیب الزامات اور تنقید کے جواب میں اسرائیلی اٹارنی نے کہا کہ قانونی کی دنیا میں سیاسی الزامات نہیں بلکہ حقائق اور ثبوت و شواہد اہیمت رکھتے ہیں۔

ادھر حکمراں جماعت لیکوڈ پارٹی کے ایک سینئر رہنما Avigdor نے بھی کہا ہے کہ اگلے انتخابات سے قبل پارٹی کی نئی قیادت کے  لیے انتخابات کرائے جائیں گے۔ کیونکہ اب پارٹی میں رہنمائوں کی بڑی تعداد نیتن یاہو کو ناپسند کرتی ہے۔ ادھر پارلیمانی نشوتوں کے حساب سے اسرئیلی کی سب بڑے جماعت ”بلیو اینڈ وائٹ پارٹی” کے رہنما Benny Gantz  نے کہا ہے نیتن یاہو کے پاس اخلاقی جواز نہیں رہا کہ وہ قوم کی تقدیر کے فیصلے کریں اور وزیر اعظم کے منصب پر بدستور براجمان رہیں۔

ادھر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے سینکڑوں حامی ان کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر جمع ہو کر مقدمات قائم کیے جانے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اسرائیلی اٹارنی آفس نے ایک بیان میں واضح کیا تھا کہ وہ اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف درج تین کرمنل مقدمات کیس نمبر 1000، کیس نمبر 2000 اور کیس نمبر 4000 کے سلسلے میں نیتن یاہو پر فرد جرم عائد کی جا چکی ہے۔ ان کیسز کی حتمی سماعتیں گزشتہ ماہ ہوئی ہیں، جس کے تحت کیس نمبر 1000 سے منسلک مقدمے میں نیتن یاہو پر فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا الزام عائدب کیا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے کئی پیش قیمت تحائف وصول کئے اور اس کے بدلے ایک دولت مند دوست پر مہربانیاں فرمائیں۔ کیس نمبر 2000 کے تحت درج مقدمے میں بھی نیتن یاہو پر فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے الزامات ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مثبت کوریج کے بدلے میں ایک بڑے اخبار کے پبلشر کے ساتھ معاہدہ کیا۔ اس کیس میں اسرائیلی وزیر اعظم پر مذکورہ پبلشر کو رشوت دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ کیس نمبر 4000 نیتن یاہو کے خلاف سب سے سنگین کیس تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ اس میں نیتن یاہو پر رشوت کا بھی الزام ہے، جس کی تفصیلات کے تحت نیتن یاہو نے ایسے ریگولیٹری فیصلوں کو فروغ دیا جن سے ایک اہم ٹیلی کام کمپنی کو رعایتیں دی گئیں۔ جبکہ اس کے بدلے میں انہیں کمپنی کی ایک ویب سائٹ سے اپنے حق میں مثبت نیوز کوریج حاصل ہوئی۔ اٹارنی جنرل آفس اور انکوائری کمیٹی کا الزام ہے کہ یہ سب کچھ ٹیلی کام کمپنی کا کنٹرول رکھنے والے شیئر ہولڈر کے ساتھ معاہدے کے تحت کیا گیا۔

واضح رہے کہ بدعنوانی کیسوں کا حوالہ سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا مستقبل غیر واضح ہے۔ کیونکہ قانونی اعتبار سے جب تک انہیں مجرم ثابت نہیں کر دیا جاتا تب تک وہ بے گناہ ہیں اور اس وقت ان کے وزارت  عظمی پر برقرار رہنے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔ مگر دوسری جانب میڈیا نمائندوں اور صحافیوں کے مطابق سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا وزیر اعظم عدالت میں اپنا دفاع کرنے کے ساتھ ریاستی امور بھی چلا پائیں گے؟ اس سلسلے میں اسرائیلی میڈیا نے بتایا ہے کہ کچھ غیر سرکاری تنظیمیں اسرائیلی سپریم کورٹ میں نتین یاہو کو استعفے پر مجبور کرنے کے لیے درخواست دائر کر سکتی ہیں۔ کیونکہ اس سے قبل عدالت عظمی یہ فیصلہ بھی دے چکی ہے کہ اگر کابینہ کے کسی وزیر  پر جرم کا الزام عائد ہو تو اس کو خود اپنا دفتر اور ذمہ داریاں چھوڑ دینی چائیں ورنہ انہیں ہٹا دینا چاہیے۔

No comments.

Leave a Reply