سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا

پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ

پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن کل تک کے لیے معطل کرتے ہوئے انہیں نوٹس جاری کر دیا ہے۔ عدالت میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے جیورسٹ فائونڈیشن کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر درخواست گزار جیورسٹ فائونڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک درخواست موصول ہوئی ہوئے، درخواست گزار اور ایڈووکیٹ آن ریکارڈ موجود ہے، اس درخواست کے ساتھ کوئی بیان حلفی بھی موجود نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ یہ درخواست آزادانہ طور پر دی گئی ہے یا بغیر دبائو کے، اس لیے ہم درخواست واپس لینے کی درخواست نہیں سنیں گے۔  عدالت نے درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 184 سی کے تحت عوامی مفاد میں اس درخواست پر سماعت کی اور اسے ازخود نوٹس میں تبدیل کر دیا۔

درخواست پر سماعت کے دوران عدالت میں اٹارنی جنرل انور منصور خان پیش ہوئے سماعت کے دوران چیف جسٹس کی جانب سے ریمارکس دیے گئے  کہ صرف صدر مملکت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کر سکتے ہیں، وزیر اعظم کو اس توسیع کا اختیار نہیں۔  جس پر عدالت میں موجود اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع صدر کی منظوری کے بعد کی گئی اور سمری کو کابینہ کی جانب سے منظور کیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پشاور ہائیکورٹ میں بھی اس طرح کی درخواست دائر ہوئی تھی جو واپس لے لی گئی تھی۔  عدالت میں اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدر نے 19 اگست کو آرمی چیف کی توسیع کی منظوری دی تو 21 اگست کو وزیر اعظم نے کیسے منظوری دے دی، سمجھ نہیں آ رہا کہ صدر کی منظوری کے بعد وزیر اعظم نے دوبارہ کیوں منظوری دی۔

اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد وزیر اعظم نے دستخط کیے جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا کابینہ اور وزیر اعظم کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ منظوری دی،  اس پر انہیں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ صدر مملکت نے کوئی منظوری نہیں دی۔ اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ حتمی منظوری تو صدر مملکت نے دینا ہوتی ہے بعد ازاں عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کر رہے ہیں، ساتھ ہی عدالت نے آرمی چیف سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ اس درخواست میں عدالت آرمی چیف کو فریق بنا رہی ہے۔ سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کا اختیار کہاں ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی توسیع کا اختیار وفاقی کابینہ کا ہے۔  جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا آرمی چیف کی توسیع کیلئے رولز میں کوئی شق موجود ہے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مدت ملازمت میں توسیع کیلئے کوئی مخصوص شق موجود نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سمری میں توسیع لکھا گیا جبکہ نوٹیفکیشن میں آرمی چیف کا دوبارہ تقرر کر دیا گیا، قواعد میں آرمی چیف کی توسیع یا دوبارہ تقرری کا اختیار نہیں، حکومت صرف ریٹائرمنٹ کو معطل کر سکتی ہے، آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ ابھی ہوئی نہیں۔  چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف نے 3 ریٹائرڈ افسران کو سزا دی، ان کی ریٹائرمنٹ معطل کر کے ان کا ٹرائل کیا گیا اور سزا دی گئی۔  جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ علاقائی سیکیورٹی کی بنیاد پر آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کی گئی، سیکورٹی کا ایشو تو ہر وقت رہتا ہے۔  چیف جسٹس نے کہا کہ سیکیورٹی کو تو صرف آرمی چیف نے نہیں بلکہ ساری فوج نے دیکھنا ہوتا ہے اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا کہ تقرری کرنے والی اتھارٹی توسیع کا اختیار بھی رکھتی ہے ریٹائرمنٹ کی معطلی تو کچھ دیر کیلئے ہو گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دستاویزات کے مطابق کابینہ کی اکثریت نے توسیع پر کوئی رائے نہیں دی، 25 رکنی کابینہ میں سے صرف 11 نے توسیع کے حق میں رائے دی، 14 ارکان نے عدم دستیابی کے باعث کوئی رائے نہیں دی،  کیا حکومت نے ارکان کی خاموشی کو ہاں سمجھ لیا؟ جمہوریت میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جنہوں نے رائے نہیں دی انہوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کابینہ ارکان کو سوچنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہتے، کابینہ کے 14 ارکان نے ابھی تک آرمی چیف کی توسیع پر ہاں نہیں کی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کابینہ میں توسیع کی کوئی وجوہات زیر بحث نہیں آئی، کیا کابینہ نے توسیع کی منظوری دیتے ہوئے اپنا ذہن استعمال کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کی توسیع کی ٹرم فکس کیسے کر سکتے ہیں، یہ اندازہ کیسے لگایا گیا کہ 3 سال تک ہنگامی حالات رہیں گے،  ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے، آرمی چیف کی مدت میں 3 سال کی توسیع کسی رول کے تحت ہوئی، وہ رول آپ نہیں دکھا رہے۔

سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے اس کیس کو عوامی اہمیت کا معاملہ قرار دیتے ہوئے درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کر دیا ۔ اٹارنی جنرل نے نوٹیفکیشن معطل نہ کرنے کی درخواست کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں ابھی وقت ہے۔ عدالت نے آرمی چیف کو فریق بناتے ہوئے ان سمیت وزارت دفاع اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ خیال رہے 25 نومبر کو جیورسٹ فائونڈیشن نے آرمی چیف کی مدت ملازت میں توسیع کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی تھی۔

یاد رہے کہ رواں سال 19 اگست کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کر دی گئی تھی۔ وزیر اعظم آفس سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے موجودہ مدت مکمل ہونے کے بعد سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید 3 سال کے لیے آرمی چیف مقرر کر دیا۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا فیصلہ علاقائی سیکیورٹی کی صورتحال کے تناظر میں کیا گیا،  آرمی چیف کو مزید 3 برس کے لیے پاک فوج کا سربراہ مقرر کرنے کے فیصلے کا مختلف سیاستدانوں اور صحافی برادری نے خیر مقدم کیا تھا، تاہم چند حلقوں کی طرف سے حکومت کے اس فیصلے پر تنقید بھی کی جا رہی تھی۔

No comments.

Leave a Reply