شمالی کوریا کا امریکا کے ساتھ جوہری معاملے پر مذکرات سے انکار

اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے سفیر کِم سانگ

اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے سفیر کِم سانگ

یو این ۔۔۔ نیوز ٹائم

شمالی کوریا اور امریکا کے درمیں حالیہ مہینوں کے دوران تنائو میں کمی آئی تھی مگر تازہ اطلاعات کے مطابق شمالی کوریا نے امریکا کے ساتھ اپنے متنازع جوہری پروگرام پر مزید بات چیت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے سفیر Kim Sung نے ہفتے کے روز زور دے کر کہا کہ جوہری تخفیف اسلحہ سے متعلق امریکا سے مزید کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ طویل مذاکرات کی کوئی ضرورت نہیں۔ گذشتہ دو سال سے امریکا اور شمالی کوریا کے درمیان پیانگ یانگ کے متنازع ایٹمی پروگرام پر بات چیت ہوتی رہی ہے۔  امریکا کی طرف سے شمالی کوریا کے معاملے میں مزید لچک نہ دکھانے کی دھمکی کے بعد شمالی کوریا نے اپنے جوہری تنازع کو مذاکرات کی میز سے نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی مذاکرات کی کوششوں کو غیر معمولی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ Kim Sung نے ایک بیان میں کہا کہ امریکا کی جانب سے مستقل اور ٹھوس بات چیت کی کوشش اس کے اندرونی سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور وقت بچانے کی ایک چال ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہمیں ابھی امریکا کے ساتھ طویل بات چیت کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکا جوہری تخفیف اسلحہ کو مذاکرات کی میز سے پہلے ہی خارج کر چکا ہے۔

شمالی کوریا کی طرف سے امریکا پر پابندیوں میں نرمی سے متعلق دی گئی مہلت ختم ہونے سے قبل دونوں ملکوں میں کیشدگی تشویش کا باعث ہے۔  امریکا نے پیانگ یانگ کو یکطرفہ طور پر جوہری ہتھیار تلف کرنے پر زور دیا جبکہ دوسری طرف پیانگ یانگ، واشنگٹن سے پہلے پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے متنبہ کیا ہے کہ وہ جوہری سرگرمیاں پھر سے شروع کر سکتے ہیں۔  ان کے اس بیان سے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ پیانگ یانگ 2017ء سے معطل جوہری پروگرام اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل تجربات دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما جون 2018 ء سے اب تک 3 بار ملاقات کر چکے ہیں، لیکن اس بات چیت میں بہت کم پیشرفت ہوئی ہے۔ حالیہ دنوں میں دونوں طرف سے سخت بیانات کا تبادلہ ہوا ہے جس نے مذکرات کی مساعی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

No comments.

Leave a Reply