پرویز مشرف کو 5 بار سزائے موت دی جائے، تفصیلی فیصلہ

سابق صدر جنرل پرویز مشرف

سابق صدر جنرل پرویز مشرف

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کے تفصیلی فیصلے میں حکم دیا ہے کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو آئین توڑنے کے 5 جرائم میں 5 بار سزائے موت دی جائے۔ جس میں 2 ججز نے سابق صدر کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ہر الزام پر انہیں علیحدہ علیحدہ سزائے موت دینے کا حکم دیا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے اس کیس کا فیصلہ 2 ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔ جس کے بعد اس کیس کا 169  صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا، جس میں جسٹس نذر اکبر کا 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔ عدالت کا تفصیلی فیصلہ جسٹس وقار سیٹھ نے تحریر کیا ہے جبکہ انہوں نے اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ دیا۔ تاہم جسٹس شاہد کریم نے سزا سے اتفاق کیا لیکن انہوں نے فیصلے میں شامل پیراگراف 66 سے اختلاف کیا،  جس میں مشرف کے سزا سے پہلے وفات پانے کی صورت میں ‘ڈی چوک پر گھسیٹ کر لانے اور 3 دن تک لٹکانے’ کا ذکر کیا گیا۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ میں جناب صدر (سربراہ بینچ) سے اختلاف کرتا ہوں کیونکہ اس کی قانون میں کوئی بنیاد نہیں اور ایسا کرنے سے اس عدالت کے لیے منفی تاثر جائے گا، میرے خیال میں یہ کافی ہے کہ مجرم کو سزائے موت دی جائے۔

فیصلے کے اہم نکات:

تفصیلی فیصلے کے مطابق جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ دیا۔

عدالتی فیصلے میں سنگین غداری کیس میں جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے اور پرویز مشرف کو بری کر دیا۔

اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پرویز مشرف کو گرفتار کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔

فیصلے کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے مشرف کو قانون کے مطابق سزا دلوانے کو یقینی بنائیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ جمع کرائے گئے دستاویزات سے واضح ہے کہ ملزم نے جرم کیا ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتے ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جاتی ہے۔

جسٹس وقار نے فیصلہ دیا کہ پھانسی سے قبل اگر مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک لایا جائے اور وہاں 3 دن تک لٹکایا جائے۔

جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔

فیصلے کے مطابق پرویز مشرف کو فرار کرانے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے۔

فیصلے میں پرویز مشرف پر 5 الزامات لگائے گئے، جن کے ثابت ہونے پر ہر الزام پر سزائے موت دینے کا حکم دیا گیا۔

عدالت نے کہا کہ سزائے موت کا فیصلہ ملزم کو مفرور قرار دینے کے بعد ان کی غیر حاضری میں سنایا۔

فیصلے کے مطابق پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 ء کو آئین پامال کیا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ خصوصی عدالت 20 نومبر 2013 ء کو قائم کی گئی اور 31 مارچ 2014 ء کوعدالت نے مشرف پر فرد جرم عائد کی۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ خصوصی عدالت نے 19 جون 2016 ء کو مشرف کو مفرور قرار دیا۔

اس فیصلے میں کہا گیا کہ خصوصی عدالت کی 6 مرتبہ تشکیلِ نو ہوئی اور یہ کیس 2013 ء میں شروع ہو کر 6 سال بعد ختم ہوا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کو ان کے حق سے بھی زیادہ شفاف ٹرائل کا موقع دیا گیا۔

عدالتی فیصلے کے مطابق استغاثہ کے شواہد کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے، عدالت ملزم کو پھانسی کی سزا سناتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اعلی عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایا ہوتا تو قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق نظریہ ضرورت کے باعث باوردی افسر نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا۔

اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ ہم نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس جرم کا ارتکاب ہوا وہ آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے جرم میں آتا ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 6 آئین کا وہ محافظ ہے جو ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدہ چیلنج کرنے والوں کا مقابلہ کرتا ہے۔

پرویز مشرف پر عائد 5 الزامات:

پہلا یہ کہ 3 نومبر 2007 ء کو راولپنڈی میں چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثت سے آپ نے غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کا حکم نامہ 2007 ء جاری کیا،  جس سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 ء کو غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر معطل کر دیا گیا اور اس کے نتیجے میں آپ آئین پر اثرانداز ہوئے  اور نتیجتاً سنگین غداری کے جرم کے مرتکب ہوئے جو سنگین غداری جرم) ایکٹ 1973 ) کے تحت قابل سزا جرم ہے۔

دوسرا یہ کہ 3 نومبر 2007 ء کو راولپنڈی میں چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثت سے آپ نے 2007 کے عبوری آئینی حکم نمبر ایک کا غیر آئینی اور غیر قانونی حکم جاری کیا  جس نے غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر صدر کو وقتاً فوقتاً اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 میں ترمیم کا اختیار دے دیا  اور آئین کے آرٹیکل 9، 10، 15، 16، 17، 19 اور 25 کے بنیادی حقوق کو معطل کر کے آپ آئین پر اثرانداز ہوئے،  نتیجتاً سنگین غداری کے جرم کے مرتکب ہوئے جو سنگین غداری (جرم) ایکٹ 1973 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔

تیسرا یہ کہ 3 نومبر 2007 ء کو راولپنڈی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی حیثیت سے آپ نے ججوں سے حلف کا آرڈر 2007 ء جاری کیا  جسے شیڈول میں غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر متعارف کرایا گیا جس کے تحت ججوں کو ایمرجنسی کے نفاذ کے اعلان کی پابندی کرنی ہے کہ وہ اسی کے مطابق اقدامات کرتے ہوئے کام سرانجام دیں گے اور اس کے نتیجے میں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سمیت اعلی عدلیہ کے متعدد ججوں کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا  لہذا آپ آئین پر اثرانداز ہوئے اور نتیجتاً سنگین غداری کے جرم کے مرتکب ہوئے جو سنگین غداری (جرم) ایکٹ 1973 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔

چوتھی بات یہ کہ 20 نومبر 2007 ء کو راولپنڈی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی حیثت سے آپ نے آئینی ترمیم آرڈر 2007  کا غیر آئینی اور غیر قانونی آرڈر5 جاری کیا  جس کے نتیجے میں آرٹیکل 175، 186اے )، 198، 218، 270(بی اور 270سی میں غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر ترمیم اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 میں آرٹیکل 270اے کا اضافہ کر کے آپ آئین پر اثرانداز ہوئے  اور نتیجتاً سنگین غداری کے جرم کے مرتکب ہوئے جو سنگین غداری (جرم) ایکٹ 1973 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔

پانچویں بات یہ کہ 14 دسمبر 2007 ء کو راولپنڈی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی حیثت سے آپ نے آئینی ترمیم آرڈر 2007 کا آرڈر 6 دوسری ترمیم کا غیر آئینی اور غیر قانونی کا حکم نامہ جاری کر کے غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین 1973 میں ترمیم کی اور آپ آئین پر اثرانداز ہوئے اور نتیجتاً سنگین غداری کے جرم کے مرتکب ہوئے جو سنگین غداری (جرم) ایکٹ 1973 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔

عدالت کا تفصیلی فیصلہ:

جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ سنایا اور کہا کہ جو ثبوت پیش کیے گئے اس میں یہ ثابت ہوا کہ ملزم نے جرم کیا۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سنگین غداری کا ٹرائل ان لوگوں کے لیے آئین کی ضرورت ہے  جو کسی بھی وجہ سے آئین کو کمزور کریں یا اسے کمزور کرنے کی کوشش کریں، لہذا یہ عدالت استغاثہ کی جانب سے ملزم کے خلاف پیش کیے گئے ناقابل تردید، ناقابل تلافی اور ناقابل اعتراض ثبوتوں کو دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ واقعی ملزم نے جرم کیا ہے اور وہ مثالی سزا کا مستحق ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ مقدمے کا سامنا کرنے والے ملزم کے عمل اور برتائو سے یہ واضح ہے کہ اس مقدمے کی شروعات سے ہی ملزم نے اس میں تاخیر، پیچھے ہٹنے اور حقیقت میں اس سے بچنے کے لیے مستقل کوشش اور ضد کی،  ساتھ ہی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ ان کی درخواست رہی کہ وہ صحت کی خرابی یا سیکیورٹی کے خطرات کی وجہ سے مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے عدالت تک نہیں پہنچ سکتے۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق اگر ایک لمحے کے لیے یہ تصور کیا جائے کہ کور کمانڈرز سمیت اعلی فوجی کمانڈ اس میں ملوث نہیں تو پھر کیوں وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 1973 کے آئین کا دفاع اور تحفظ کرنے میں ناکام رہے اور ایک وردی میں موجود شخص کو نہ روکا، اس وقت کی کورکمانڈرز کمیٹی ساتھ تمام دیگر وردی والے افسران جنہوں نے انہیں ہر وقت تحفظ فراہم کیا وہ ملزم کے عمل اور اقدام میں مکمل اور برابر کے شریک ہیں۔

عدالتی فیصلے کا پیرا نمبر 66 اسکرین شاٹ:

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور / مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے  اور اگر وہ وفات پا جاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ضروری منطقی نتیجہ کے طور پر ہم ملزم کو الزامات کے مطابق مجرم قرار دیتے ہیں، ساتھ ہی فیصلے میں کہا گیا کہ مجرم کو ہر الزام پر تب تک گردن سے لٹکایا جائے جب تک وہ مر نہیں جاتے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ ایک آمر صرف اس وقت تک اقتدار میں رہ سکتا ہے جب تک وہ اپنے عوام کی مرضی کو تہہ و بالا نہیں کرے، آئین کے ذریعے قائم کردہ حکومت اور ریاست کے دیگر اداروں کے فرائض پر قبضہ کرنا آئین کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ عدالتی فیصلے میں لکھا گیا کہ عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش جیسا کہ انہیں کام کرنے سے روکنا /  یا ان سے اضافی آئینی حلف لینا آئین کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق یقینا سزائے موت اور فیصلے کے اس حصے کی کہیں بھی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں لیکن کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے اور ملزم کو مجرم قرار دے کر ان کی غیر موجودگی میں سزائے موت سنائی گئی ہے، لہذا سزا پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق یہ انصاف کے حق میں بہتر ہو گا کہ مفرور ملزم کو فرار کرانے میں سہولیات فراہم کرنے میں اگر کوئی ملوث ہے  تو انہیں بھی قانون کے دائرے میں لایا جائے اور اگر کوئی مجرمانہ اقدامات ہیں تو ان کی بھی تحقیقات کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔

اختلافی نوٹ:

فیصلے میں جسٹس نذر اکبر نے اختلافی نوٹ تحریر کرتے ہوئے لکھا کہ انصاف و قانون کے بارے میں عاجزانہ قانونی فہم کے ساتھ میں نے اپنے بھائی وقاص احمد سیٹھ کی جانب سے لکھے گئے مجوزہ فیصلے کا انتہائی احترام کے ساتھ جائزہ لیا اور میں اپنے قابل بھائیوں کی اکثر آرا سے اختلاف کرتا ہوں۔ جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ 3 نومبر 2007 ء کو پرویز مشرف کے ایمرجنسی نافذ کرنے کے اقدام کو مذکورہ تاریخ پر آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ وکیل یہ سمجھے میں ناکام رہے کہ جب یہ جرم کیا گیا، اس وقت آئین کی منسوخی یا کسی ادارے کے اختیارات پر اثرانداز ہونے کے سوا کسی بھی فرد کے کسی بھی عمل پر آرٹیکل6 لاگو نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت آئین کی منسوخی یا کسی ادارے کے اختیارات پر اثرانداز ہونے کو ہی سنگین غداری تصور کیا جاتا تھا۔

ساتھ ہی اختلافی نوٹ میں لکھا گیا کہ 20 اپریل 2010 ء تک آئین کے آرٹیکل6 کی تعریف میں آئین کی معطلی اور عبوری معطلی کے الفاظ استعمال نہیں کیے گئے تھے اور انہیں سنگین غداری کے مبینہ جرم کے ارتکاب کے ڈھائی سال بعد 18ویں ترمیم کے ذریعے آئین میں متعارف کرایا گیا۔ اختلافی نوٹ میں جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ سال 2010 ء میں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد سنگین غداری کی تعریف اپ ڈیٹ کی گئی تھی۔ انہوں نے لکھا کہ آئین کے آرٹیکل6 میں جرم کے طور پر سنگین غداری کو بتایا گیا ہے لہذا اس کے مفہوم کو سمجھے بغیر یہ عدالت ایک شفاف فیصلہ جاری نہیں کر سکتی۔ جسٹس نذر اکبر کے مطابق اس وجہ سے استغاثہ کے دونوں قابل وکلا اور میرے دونوں قابل بھائیوں نے سنگین غداری کے الفاظ کی تعریف کے لیے آکسفورڈ ڈکشنری کے 10ویں ایڈیشن میں دیے گئے ‘سنگین غداری’ کے معنی پر انحصار کیا ہے۔

No comments.

Leave a Reply