امریکا اور چین تجارتی معاہدے کا پہلا مرحلہ طے کرنے کیلئے تیار

امریکا اور چین تجارتی جنگ کو روکنے کیلئے سخت جدوجہد کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیلئے تیار ہیں

امریکا اور چین تجارتی جنگ کو روکنے کیلئے سخت جدوجہد کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیلئے تیار ہیں

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکا اور چین تجارتی جنگ کو روکنے کیلئے سخت جدوجہد کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیلئے تیار ہیں، جو کئی ماہ کے تصادم، جس نے عالمی ترقی کو روکا ہوا تھا، کے بعد دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے مابین مفاہمت اور مصالحت کی آزمائش کا دور شروع کر رہا ہے۔ وائٹ ہائوس کی ایک تقریب میں معاہدہ کا پہلا مرحلہ باقاعدہ طور پر طے پایا یہ معاہدہ، ایسے وقت میں واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین ایک محدود سمجھوتے کا نتیجہ ہے جب دونوں ممالک کو کشیدگی میں اضافے سے معاشی اور مالی نقصان کا خدشہ ہے۔ معاہدے کے تحت امریکا کی جانب سے کچھ ٹیرف میں معمولی کمی اور مزید تادیبی اقدامات کو غیر معینہ عرصے تک روکنے کے بدلے میں چین نے مزید 200 ارب ڈالر مالیت کی امریکی اشیا کی خریداری کا وعدہ کیا، جس میں زرعی مصنوعات، کرنسی اور دانشورانہ املاک سے متعلق دیگر وعدے شامل ہیں۔ تاہم، یہ معاہدہ دو سال سے جاری تجارتی جنگ کے خاتمے کے لئے پائیدار امن سے کہیں کم ہے، جس سے دونوں ممالک کے مابین اعتماد میں کمی آئی ہے اور بحرالکاہل کے دونوں اطراف کاروبار میں خلل کا باعث بن رہی ہے۔ یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 360 ارب ڈالر کی چینی مصنوعات پر عائد ٹیرف میں وسیع چھوٹ دیتا ہے، اور ان کے معاشی ماڈل کے کلیدی پہلوئوں پر کچھ چینی مراعات حاصل کرتا ہے، جس نے سبسڈی کے استعمال سے لے کر بڑے پیمانے پر سائبر منتقلی تک امریکا کو سب سے زیادہ مایوسی کا شکار کر دیا ہے۔ دونوں طاقتوں کے مابین گہری اسٹریٹجک دشمنی کو روکنے کا بھی امکان نہیں ہے، فوجی معاملات اور فائیو جی مواصلات سے مصنوعی ذہانت تک جدید ٹیکنالوجی میں برتری کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران تیزی آئی ہے۔

واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے پالیسی تجزیہ کار علی وائن نے کہا کہ اس معاہدے پر دستخط اگرچہ خوش آئند ہیں، لیکن اس حقیقت کو رد نہیں کرتا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو مخاصمانہ نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ امریکا نے چین کے اقتصادی عروج کو اپنی قومی سلامتی اور اس کے اتحادیوں اور شراکتداروں کیلئے خطرہ قرار دیا ہے، دریں اثنا چین مقامی جدت طرازی کی تیز رفتاری اور متبادل برآمدی منڈیوں کے ناگزیر نظریہ وجود پر غور کر رہا ہے۔ یہ معاہدہ مالیاتی منڈیوں میں سرمایہ کاروں کو کچھ مہلت کی پیشکش کرے گا، جیسا کہ دونوں حکومتوں کے مابین مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے، اس وقت معاہدے کو ڈرامائی طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ تاہم، امریکی اور چینی حکام نے مذاکرات کے دوسرے مرحلے کے وقت اور امکانات کے بارے میں چند واضح اشارے دیئے ہیں، جو دونوں ممالک میں سپلائی چینز، پیداوار اور صارفین کے ساتھ کاروبار کو کچھ زیادہ یقینی بنا سکتے ہیں۔ معاہدے کے بعد چین زیادہ تیزی سے ٹیرف کے خاتمے کی امید کر رہا ہے، تاہم امریکا اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کہ چین اپنے وعدوں کا احترام کرے، مزاحمت کر رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ نومبر 2020 ء کے امریکی صدارتی انتخابات کے بعد تک مذاکرات کے دوسرے حصے پر اتفاق نہیں ہو سکتا۔

نیو جرسی میں مقیم پی جی آئی ایم فکسڈ انکم کے چیف ماہر معیشت ناتھن شیٹس (Nathan Sheets) نے کہا کہ مارکیٹ کے نقطہ نظر سے معاہدے نے کچھ اہم شکوک کا خاتمہ کر دیا ہے لیکن گہرے معاشی نقطہ نظر سے مجھے شک ہے کہ یہ کمپنیوں کے لئے دوبارہ سرمایہ کاری کے آغاز، اپنی جیبوں سے رقم نکالنے اور اخراجات شروع کرنے کیلئے کافی ہے۔وہ مزید واضح ہونے کا انتظار کریں گے۔ اس معاہدے کو ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ہی سیاسی فتح قرار دے دیا ہے جبکہ اپنے عہد صدارت اور 2016 کی صدارتی مہم کے دوران انہوں نے چین کے خلاف سخت گیر موقف اپنانے کا عہد کیا تھا۔ لیکن یہ واضح نہیں کہ دوسری مدت کیلئے صدارتی مہم کے دوران اس جوئے سے انہیں فائدہ پہنچے گا یا نہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے خود پر تنقید کا موقع دیا کہ تجارتی جنگ معاشی طور پر لاپرواہی تھی، زراعت اور مینوفیکچرنگ پر انحصار کرنے والی ریاستوں کو کچھ حد تک متاثر کر کے اگرچہ اس سے مکمل طور پر مندی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ڈیموکریٹک ناقدین کی جانب سے یہ دبائو ڈالنے کا امکان ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سب کچھ جھونکنے سے کچھ بڑی چینی مراعات حاصل ہوئیں۔ سینیٹ میں اعلی سطح کے ڈیموکریٹ رکن چارلس شمر نے کہا کہ صدر ٹرمپ آسان راستہ نکال رہے ہیں۔ وہ امریکی کاروبار، امریکی کسانوں اور آنے والے برسوں تک امریکی مزدوروں کی قیمت پر ایک کمزور، عارضی معاہدے کیلئے تصفیہ کر رہے ہیں۔ معاہدے تک تیزی سے پہنچنے سے قبل امریکا کی جانب سے اہم خیرسگالی اشارے کیے گئے تھے۔ امریکی محکمہ خزانہ نے کرنسی کے جوڑ توڑ کرنے والے کی حیثیت کو ختم کر دیا، جس کاچین کے نائب وزیر اعظم لیو ہی (Liu He) کے واشنگٹن پہنچتے ہی گزشتہ سال اگست میں کشیدگی میں اضافے کے طور پر اس نے عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔

مرکز برائے اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں سیاسی معیشت کی سینیئر فیلو اسٹیفنی سیگل (Stephanie Segal) نے کہا کہ امریکا نے بھی کشیدگی میں کمی کا رویہ اپنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ چین کی حکومت ہر سطح پر بات چیت کی راہیں دوبارہ کھولنے کی کوشش کر رہی ہے، رابطے جوابی اشارے ہیں۔ یہاں تک کہ فاکس بزنس نیٹ ورک کو ایک انٹرویو کے دوران سخت گیر امریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لائٹائزر (Robert Lighthizer) نے کہا کہ وہ معیشتوں کو الگ کرنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے بلکہ ایک ایسا اصول بنایا ہے جو دونوں ممالک کے لئے کارآمد ہو۔ انہوں نے کہا کہ لوگ تنقید کر سکتے ہیں لیکن یہ میرے لیے بالکل بھی پریشان کن نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کا ایک مقصد ہے۔ انہوں نے ہم سے اس پر سخت محنت کروائی اور ہم نے ایک بہت بڑا قدم آگے بڑھایا ہے۔

No comments.

Leave a Reply