صدر حسن روحانی کی جانب سے مستعفی ہونے کی دھمکی پر فوج نے یوکرین کا طیارہ مار گرانے کا اعتراف کیا

نو جنوری کو ایران نے حادثے میں تباہ ہونے والے یوکرین کے مسافر طیارے کے حوالے سے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ

نو جنوری کو ایران نے حادثے میں تباہ ہونے والے یوکرین کے مسافر طیارے کے حوالے سے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ ایران کے صدر حسن روحانی کی جانب سے مستعفی ہونے کی دھمکی پر فوج نے یوکرین کا طیارہ مار گرانے کا اعتراف کیا ورنہ وہ اس معاملے کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 7 جنوری کو ایران نے امریکی فورسز پر بیلسٹک میزائلز داغے تھے، جس پر ایران، امریکا کی جانب سے جوابی حملے کے لیے ہائی الرٹ پر تھا اور ایرانی فوج کی جانب سے مزید میزائل داغے جانے کی دھمکی دی گئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق پاسدارانِ انقلاب کے افسر نے تہران کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے قریب ایک نامعلوم طیارہ دیکھا اور ان کے پاس فیصلہ کرنے کے لیے چند سیکنڈز تھے۔ عہدیدار نے طیارے کو مار گرانے کی اجازت کے لیے کمانڈ سینٹر تک رسائی کی کوشش کی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا لہذا انہوں نے ایک اینٹی ایئر کرافٹ میزائل داغا اور پھر دوسرا جس کے نتیجے میں یوکرینی طیارہ گر کر تباہ ہو گیا اور اس میں سوار 176 افراد ہلاک ہو گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ طیارہ مار گرانے کے چند منٹ بعد پاسداران انقلاب کے اعلی کمانڈرز کو احساس ہو گیا تھا کہ انہوں نے کیا کر دیا اور اس وقت انہوں نے واقعے کو چھپانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس میں مزید بتایا گیا کہ پاسدارانِ انقلاب نے ایران کے صدر حسن روحانی کو بھی حقیقت بتانے سے انکار کر دیا تھا جن کی حکومت عوامی سطح پر طیارہ مار گرانے کے بیانات کو مسترد کر رہی تھی۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق جب پاسداران انقلاب نے حسن روحانی کو یوکرینی طیارہ گرانے سے آگاہ کیا تو ایرانی صدر نے الٹی میٹم دیا کہ ذمہ داری قبول کریں یا وہ استعفی دے دیں گے۔ یوکرینی طیارہ مار گرائے جانے کے واقعے کے 72 گھنٹوں کے اندر ہی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے مداخلت کی اور حکومت کو سنگین غلطی سے آگاہ کرنے کا حکم دیا۔ رپورٹ کے مطابق 7 جنوری کو ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کی جوابی کارروائی کی تیاری کر رہا تھا لیکن حکومت نے تہران ایئر پورٹ سے سویلین کمرشل فلائٹس کو لینڈ کرنے اور اڑان بھرنے کی اجازت دے رکھی تھی۔ پاسداران انقلاب کی ایرو اسپیس فورس کے جنرل امیر علی حاجی زادہ  (Amir Ali Hajizadeh) نے کہا تھا کہ ان کے یونٹس نے تہران میں موجود حکام کا ایران کی فضائی حدود بند کرنے اور تمام پروازوں کو گرائونڈ کرنے کا کہا تھا۔ تاہم ایرانی حکام کو خدشہ تھا کہ ایسا کرنے سے افراتفری پھیل جائے گی کہ امریکا کے ساتھ جنگ قریب تھی۔ 8 جنوری کو تحقیقاتی کمیٹی نے کہا تھا کہ انسانی غلطی کہ وجہ سے طیارہ مار گرایا تھا، اس دوران آیت اللہ خامنہ ای کو آگاہ کیا گیا تھا لیکن صدر دیگر منتخب حکام اور عوام کو آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ایرانی حکام نے بتایا کہ 9 جنوری کو حسن روحانی نے ملٹری کمانڈرز کو کئی مرتبہ فون کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہیں دیا گیا،  ان کی حکومت کے اراکین نے فوج سے رابطے کی کوشش کی اور انہیں بتایا گیا کہ طیارہ مار گرانے کے الزامات جھوٹے ہیں، ایران کی سول ایوی ایشن ایجنسی کو بھی یہی بتایا گیا تھا۔ 10 جنوری کی صبح حکومتی ترجمان علی ربیعی (Ali Rabiei) نے ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ ایران کی جانب سے طیارہ مار گرانے کا الزام ایک بڑا جھوٹ ہے۔ اسی روز کئی گھنٹوں بعد ایران کے اعلی فوجی کمانڈروں نے ایک نجی اجلاس طلب کیا اور حسن روحانی کو سچ بتایا۔ ایرانی صدر کے قریبی عہدیداران کے مطابق حسن روحانی برہم تھے اور انہوں نے فوری طور پر یہ المناک غلطی کے اعتراف اور نتائج قبول کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم فوجی حکام نے انکار کیا اور کہا کہ اس سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہو گا لیکن حسن روحانی نے استعفی دینے کی دھمکی دی تھی۔ جس کے بعد 11 جنوری کو صبح 7 بجے ایران کی فوج نے بیان جاری کیا تھا کہ ایران نے انسانی غلطی کی وجہ سے یوکرین کا طیارہ مار گرایا تھا۔

ایرانی کمانڈر کی ہلاکت:

واضح رہے کہ 3 جنوری کو امریکا کے ڈرون حملے میں ایران کی القدس فورس کے سربراہ اور انتہائی اہم کمانڈر قاسم سلیمانی مارے گئے تھے ان کے ساتھ عراقی ملیشیا کمانڈر ابو مہدی المہندس  (Abu Mahdi al-Muhandis) بھی حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد مشرق وسطی میں کشیدگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ جس کے بعد 8 جنوری کو ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں عراق میں امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے 2 فوجی اڈوں پر 15 بیلسٹک میزائل داغے تھے اور 80 امریکی ہلاک کرنے کا دعوی بھی کیا تھا۔ جس کے کچھ گھنٹے بعد اسی روز تہران کے امام خمینی (Imam Khomeini)  ایئر پورٹ سے اڑان بھرنے والا یوکرین کا مسافر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار تمام 176 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یوکرینی وزیر اعظم نے طیارے میں 176 افراد سوار ہونے کی تصدیق کی تھی جس میں 167 مسافر اور عملے کے 9 اراکین شامل تھے۔ یوکرینی وزیر خارجہ نے بتایا تھا کہ طیارے میں 82 ایرانی، 63 کینیڈین، سویڈش، 4 افغان، 3 جرمن اور 3 برطانوی شہری جبکہ عملے کے 9 ارکان اور 2 مسافروں سمیت 11 یوکرینی شہری سوار تھے۔

یوکرینی طیارے سے متعلق ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ:

9 جنوری کو ایران نے حادثے میں تباہ ہونے والے یوکرین کے مسافر طیارے کے حوالے سے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ دوران سفر مسافر طیارے میں آگ بھڑک جانے کے بعد مدد کے لیے ایک ریڈیو کال بھی نہیں کی گئی جبکہ طیارے نے ایئر پورٹ کے لیے واپس جانے کی کوشش کی تھی۔ ایرانی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ تہران کے امام خمینی بین الاقوامی ہوائی اڈے سے پرواز کے کچھ ہی منٹ کے بعد یوکرین انٹرنیشنل ایئرلائن کے بوئنگ 737 میں اچانک ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی تھی اور وہ گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ خیال رہے کہ حادثے کے بعد عالمی رہنمائوں نے طیارہ حادثے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایران پر طیارے کی تباہی کا الزام عائد کیا تھا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو  (Justin Trudeau) نے دعویٰ کیا تھا کہ ہمارے پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ طیارہ ایران کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سے تباہ ہوا جبکہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن اور ان کے آسٹریلین ہم منصب اسکاٹ موریسن  (Scott Morrison) نے بھی اسی طرح کے بیانات دیے تھے۔ علاوہ ازیں 9 جنوری کو نیو یارک ٹائمز نے ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی، جس میں ایران میں یوکرینی طیارے پر میزائل فائر کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا، ساتھ ہی انہوں نے اس ویڈیو کی تصدیق کا بھی دعوی کیا تھا۔ بعدازاں ایران نے تباہ ہونے والے یوکرین کے طیارے کی تحقیقات میں بوئنگ اور یوکرین دونوں کو شرکت کی دعوت دی تھی۔

No comments.

Leave a Reply