یورپی پارلیمنٹ کا 30 جنوری کو بھارت کے متنازع قانون کے خلاف ووٹنگ کا اعلان

یورپی پارلیمنٹ کا 30 جنوری کو بھارت کے متنازع قانون کے خلاف ووٹنگ کا اعلان

یورپی پارلیمنٹ کا 30 جنوری کو بھارت کے متنازع قانون کے خلاف ووٹنگ کا اعلان

برسلز ۔۔۔ نیوز ٹائم

بھارت میں شہریت کے متنازع قانون اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف قراردادوں پر رواں بحث کے بعد 30 جنوری کو یورپی پارلیمان میں ووٹنگ ہو گی۔  یہ قراردادیں ارکان کی اکثریت نے پارلیمنٹ میں پیش کی ہیں جبکہ بھارت ان قراردادوں پر ووٹنگ رکوانے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کر رہا ہے۔ عالمی نشریاتی ادارے کے مطابق یورپی پارلیمنٹ کے اجلاس کے جاری کردہ ایجنڈے کے مطابق اجلاس 29 جنوری کو بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ہو گا اجلاس میں پارلیمنٹ کے تمام ارکان شرکت کریں گے اور 6 قراردادوں پر بحث کی جائے گی جبکہ 30 جنوری کو ووٹ ڈالیں جائیں گے۔

اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق پہلے یورپی کمیشن کے نائب صدر جوسیپ بوریل  (Josep Borrell)  بھارت کے شہریت ترمیمی ایکٹ 2019 ء پر بیان دیں گے۔ ایجنڈے میں مزید کہا گیا ہے کہ یورپی یونین، بھارت کے مقبوضہ کشمیر کے حالات پر ستمبر، 2019 ء میں بحث کر چکی ہے تاہم اس معاملے پر ووٹ نہیں ڈالے گئے تھے توقع ہے کہ اس معاملے پر بھی 30 جنوری کو ووٹنگ ہو گی۔ ایجنڈے میں کہا گیا کہ اکتوبر 2019 ء میں بھارتی حکومت نے یورپی پارلیمنٹ کے 22 رکنی وفد کو نئی دہلی اور سری نگر کے دورے کے لیے سہولت نہیں دی تھی لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس کوشش کے یورپی پارلیمنٹ پر مطلوبہ اثرات مرتب نہیں ہوئے۔

حالیہ قراردادیں جن کے الفاظ قدرے مختلف ہیں ان کی مرکزی توجہ شہریت کے قانون پر ہے 6 مختلف گروپوں کی جانب سے پیش کی جائیں گی،  جو یورپی پارلیمان کے کل 751 ارکان میں سے 626 ارکان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ قراردادوں میں بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں حکومت کے ایک درجن سے زیادہ ایسے اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے جو مبینہ طور پر بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے معاملے میں بھارت کے عالمی سطح پر وعدوں کی خلاف ورزی ہے۔ ان اقدامات میں کشمیر کی خودمختاری کے خاتمے کے بعد جموں و کشمیر میں کی گئی کارروائیاں اور شہریت کے قانون کے خلاف اترپردیش میں مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ، حراست کے دوران تشدد  اور کسی ملک کی شہریت نہ رکھنے والے افراد کا دنیا میں سب سے بڑا بحران پیدا ہونے کا امکان شامل ہے۔

دوسری جانب بھارت نے بھی جوابی اقدام کے طور پر جموں و کشمیر اور شہریت ایکٹ کے معاملے میں سخت لب و لہجہ رکھنے والی 6 قراردادیں ملک کی پارلیمان میں پیش کرنے کی تیاری کر لی ہے۔ بھارت کی وزارت برائے امور خارجہ نے یورپی یونین کی ان قراردوں پر سرکاری سطح پر تبصرے سے انکار کر دیا ہے جن کے بھارت کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ خیال رہے کہ بھارت کے نئے شہریت قوانین پر مسلمانوں کے خلاف امتیازی ہونے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ رینیو گروپ کے قانون سازوں کی جانب سے پیش کی گئی اور حمایت کردہ قرارداد میں یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک سے مقبوضہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کے فروغ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت میں کی گئی یکطرفہ تبدیلیوں کی مذمت کرتے ہوئے قرارداد کے مسودے میں کہا گیا کہ بھارت نے کبھی بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کیا جس کے تحت کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر کے مستقبل کی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے ریفرنڈم کروانے کی ضرورت ہے۔بھارت کو شہریت قانون میں متنازع ترامیم واپس لینے پر زور دیتے ہوئے قرارداد کے مسودے میں کہا گیا کہ نیا قانون نسل اور قومی بنیاد پر شہریت سے محروم رکھنے کے خاتمے سے متعلق قانون، بھارت کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرتا ہے جو انٹرنیشنل کانوننٹ آن سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس (آئی سی سی پی آر) اور دیگر انسانی حقوق کے معاہدوں میں درج ہے۔ قرارداد میں نئے شہریت قانون سے پولیس اور حکومت کے حامی گروہوں کی جانب سے تشدد کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جو بھارت اور اس کے پڑوسی ممالک کے رہائشیوں کے حقوق کی واضح خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے  بھارتی حکومت پر فوری طور پر آبادی کے مختلف حصوں سے پرامن مذاکرات میں مصروفِ عمل ہونے پر زور دیا گیا۔

قرارداد میں زور دیا گیا کہ بھارتی حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ سیکیورٹی فورسز طاقت اور ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق اقوام متحدہ کے اصولوں کی تعمیل کریں۔ قرارداد میں رواں ماہ کے آغاز میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں تشدد کے استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے یونیورسٹی کو طلبی کے لیے سی اے اے اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کے خلاف مظاہروں کا مرکزی مقام قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ پولیس نے حملہ دیکھا لیکن مشتعل ہجوم کو قابو کرنے اور گرفتار کرنے سے انکار کیا۔ قرارداد میں کہا گیا کہ بھارتی آئین کے مطابق بھارت ایک خودمختار سیکولر جمہوری ملک ہے اور اسی لیے مذہب کو شہریت کے معیار کے طور پر شامل کرنا بنیادی طور پر غیر آئینی ہے۔ قبل ازیں یورپی یونین کے ممالک کے کئی سفارتکاروں نے بھارتی حکام کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے غیر معمولی دورے کی دعوت مسترد کر دی تھی جہاں گزشتہ برس 5 اگست سے کرفیو نافذ ہے اور مواصلاتی بلیک آئوٹ ہے۔

No comments.

Leave a Reply