آئی ایم ایف کا وفد بیل آئوٹ پیکج پر کارکردگی کا جائزہ لینے پاکستان پہنچ گیا

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا وفد 11 روز کے لیے پاکستان پہنچ گیا

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا وفد 11 روز کے لیے پاکستان پہنچ گیا

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا وفد 11 روز کے لیے گزشتہ سال جولائی میں بیل آئوٹ پیکج کے تحت دیے جانے والے 6 ارب ڈالر پر کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے پاکستان پہنچ گیا۔اخبار کی رپورٹ کے مطابق نظرثانی کے بعد اس بات کا اندازہ لگایا جائے گا کہ حکومت کو مارچ میں مارکیٹ میں اعتماد اور زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے 45 کروڑ ڈالر کی دہا جانا چاہیے یا نہیں۔ پاکستان نے جولائی سے اب تک 1 ارب 44 کروڑ ڈالر کی حاصل کیے ہیں جس میں سے 99 کروڑ 10 لاکھ ڈالر جولائی میں اور 45 کروڑ 20 لاکھ دسمبر کے مہینے میں حاصل کیے تھے۔ کل 6 ارب ڈالر میں سے پاکستان کو 2023 ء تک 1 ارب 65 کروڑ ڈالر ملنے ہیں جبکہ 4 ارب 35 کروڑ ڈالر آئی ایم ایف کو اس ہی عرصے میں واپس کرنے ہوں گے۔ نظرثانی ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب حکومت کو رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں 2.79 کھرب روپے میں سے 385 ارب روپے کے ریوینیو شارٹ فال کا سامنا ہے۔

وفاقی بجٹ 20-2019ء کے تحت حکومت نے وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے لیے سالانہ ٹیکس اکٹھا کرنے کا ہدف 55 کھرب 3 ارب روپے کا مقرر کیا تھا۔ یہ سالانہ ہدف ریونیو میں 43 فیصد تک نمو کے حساب سے طے کیا گیا تھا جبکہ درحقیقت مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں ریونیو ہدف 16.8 فیصد رہا جو حکومت کے دعوے کے مطابق 14 فیصد سے زائد مہنگائی اور 3 فیصد معاشی نمو کے سبب تھا۔

آئی ایم ایف کا وفد پاکستان میں آئندہ ہفتے تک قیام کے دوران کابینہ اراکین بشمول عبد الحفیظ شیخ، حماد اظہر، عمر ایوب خان، اسد عمر اور محمد میاں سومرو کے علاوہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور معاشی وزارتوں کے اعلی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔ ان ملاقاتوں میں بحث میں گردشی قرضوں میں کمی، ریوینیو اکٹھا کرنے، نجکاری پروگرام اور دیگر اسٹرکچرل اصلاحات کے حوالے سے چیلنجز اور کارکردگی پر توجہ دی جائے گی۔ حکومت کے لیے اس وقت سب اہم چیلنج معیشت میں ریوینیو جمع کرنے کے عمل کو اضافی اقدامات کے ذریعے تیز کرنا ہے کیونکہ ایف بی آر کے حکام نے پہلے ہی اضافی ٹیکسز کے نفاذ کی مخالفت کی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ دونوں فریقین اس بات پر تبادلہ خیال کریں گے کہ ترقی کو کم کیے بغیر مالی استحکام کو کیسے یقینی بنایا جائے،  توقع کی جا رہی ہے کہ وہ جون 2020 ء میں پیش ہونے والے آئندہ سال کے بجٹ کی تجاویز پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔

No comments.

Leave a Reply