عراق میں احتجاج کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 287 یا پھر 556 ؟ نامزد وزیر اعظم کو مظاہرین کی مہلت

ہلاکتوں کی درست تعداد کے حوالے سے انسانی حقوق کے کمیشن کے اعداد و شمار کے درمیان واضح تضاد نظر آتا ہے

ہلاکتوں کی درست تعداد کے حوالے سے انسانی حقوق کے کمیشن کے اعداد و شمار کے درمیان واضح تضاد نظر آتا ہے

بغداد ۔۔۔ نیوز ٹائم

عراق میں گذشتہ برس یکم اکتوبر سے جاری ملک گیر عوامی احتجاج اور مظاہروں میں نامعلوم مسلح عناصر یا سیکیورٹی فورسز کے زیر انتظام گروپوں کے ہاتھوں موت کی نیند سلا دیے جانے والے افراد کی تعداد سینکڑوں میں ہو چکی ہے۔ تاہم ہلاکتوں کی درست تعداد کے حوالے سے صحت کے سرکاری محکمہ جات اور انسانی حقوق کے کمیشن کے اعداد و شمار کے درمیان واضح تضاد نظر آتا ہے۔ اتوار کے روز صحت کے سرکاری اداروں کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 25 اکتوبر 2019 ء سے 31 جنوری 2020 ء کے دوران 287 شہری اور سیکیورٹی فورسز کے 5 اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس کے مقابل عراق میں انسانی حقوق کے کمیشن نے اتوار کی شام اپنے اعلان میں بتایا کہ مظاہروں کے دوران 25 اکتوبر 2019 ء سے اب تک مجموعی طور پر 556 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں 13 سیکورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔

یاد رہے کہ عراقی صدر برہم صالح (Barham Salih) نے 22 جنوری کو ڈیووس کے اقتصادی فورم میں اپنے خطاب کے دوران بتایا تھا  کہ عراق میں پرتشدد کارروائیوں کے دوران 600 سے زیادہ بے قصور مظاہرین اور متعدد سیکیورٹی اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ واضح رہے کہ عراق میں گذشتہ برس یکم اکتوبر سے بھرپور عوامی احتجاجی مظاہرے دیکھے جا رہے ہیں۔  ابتدا میں مظاہرین نے معاشی حالات کی بہتری اور بدعنوانی کے سدباب کا مطالبہ کیا تھا۔ بعد ازاں یہ سیاسی مطالبات میں تبدیل ہو گئے جن کا مقصد عوامی تحریک کی نمائندگی کرنے والی ایک خودمختار حکومت کی تشکیل اور قبل از وقت پارلیمانی انتخابات ہیں۔

 دوسری جانب عراق میں نامزد نئے وزیر اعظم محمد توفیق علاوی (Mohammed Tawfik Allawi) کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔  اتوار کے روز نئے وزیر اعظم کے خلاف مظاہروں کے موقع پر بغداد کا تحریر اسکوائر احتجاج کرنے والوں سے بھر گیا۔  مظاہرین نے محمد توفیق علاوی (Mohammed Tawfik Allawi) کو بطور وزیر اعظم قبول کرنے سے انکار کر دیا۔  اس حوالے سے نئی پیشرفت یہ ہے کہ مظاہرین کے گروپوں نے محمد توفیق علاوی (Mohammed Tawfik Allawi) کو مستعفی ہونے کے لیے چند دن کی مہلت دی ہے۔

عراق کے جنوبی صوبے ذی قار (Dhi Qar) کے مرکزی شہر ناصریہ (Nasiriyah) میں معروف سماجی کارکن علا الرکابی (Al-Raqabi) نے عوام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نئے وزیر اعظم کو کچھ عرصے کی مہلت دیں۔  اس عرصے کا مقصد یہ جاننا ہے کہ علاوی Allawi عوامی مطالبات پوری کرنے اور مظاہرین کی شرائط کو لاگو کرنے کے حوالے سے کتنے سنجیدہ ہیں۔  ان مطالبات میں سرفہرست مظاہرین کے قاتلوں کا احتساب اور قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کی تیاری ہے۔ الرکابی (Al-Raqabi)نے اتوار کی شب سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی وڈیو میں مظاہرین کے سامنے دو تجاویز پیش کیں۔  پہلی تجویز یہ کہ محمد توفیق علاوی (Mohammed Tawfik Allawi) کو براہ راست مسترد کر دیا جائے جس کے نتیجے میں معاملہ ایک بار پھر زیرو پوائنٹ پر آ جائے گا اور نامزد امیدوار کے حوالے سے پھر سے اختلاف کھڑا ہو جائے گا۔  دوسری تجویز یہ کہ نئے وزیر اعظم کو عوامی تحریک کے مطالبات پر عملدرآمد کے امتحان میں ڈال دیا جائے۔ اس کے مقابل ذی قار (Dhi Qar) صوبے کے شہر الرفاعی (Alafaya) میں اتوار کی شب مظاہرین نے محمد توفیق علاوی (Mohammed Tawfik Allawi) کو مستعفی ہونے اور نئی حکومت کی تشکیل سے معذرت کر لینے کے واسطے تین روز کی مہلت دی ہے۔

دوسری جانب بغداد میں تحریر اسکوائر پر دھرنا دینے والے مظاہرین نے اتوار کی شب ایک بیان جاری کیا۔  بیان میں سیکیورٹی حکام کی جانب سے کریک ڈائون کے علاوہ سینکڑوں کارکنان کو اغوا اور روپوش کیے جانے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کی مذمت کی گئی ہے۔ اسی طرح مظاہرین نے مقتدی الصدر (Muqtada al-Sadr) کے حامیوں کے ساتھ حالیہ تصادم کے بعد احتجاجی مقامات کی صورت حال پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ مظاہرین نے زور دیا کہ پرامن طریقے سے احتجاج اور رائے کا اظہار عوام کا حق ہے جس کی ضمانت قانون اور آئین نے بھی دی ہے۔  انہوں نے کہا کہ طاقت کے زور پر دھرنے کو ختم کرنے کا ہرگز کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ مظاہرین کا اشارہ مقتدی الصدر (Muqtada al-Sadr) کے حامیوں کی کارستانیوں کی جانب تھا۔

اس سے قبل اتوار کے روز عراقی دارالحکومت میں ہزاروں افراد نے محمد توفیق علاوی (Mohammed Tawfik Allawi) کی بطور وزیر اعظم نامزدگی کے خلاف احتجاج کیا۔ محمد توفیق علاوی (Mohammed Tawfik Allawi) کی جانب سے نئی حکومت کی تشکیل کو مسترد کرنے کے حوالے سے ملک کے کئی شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں۔ اسی دوران حلہ (Hilla)  اور دیوانیہ (Diwaniyah) شہروں میں درجنوں مظاہرین نے بینر اٹھا رکھے تھے۔ ان پر تحریر تھا کہ محمد توفیق علاوی (Mohammed Tawfik Allawi) عوام کا نہیں بلکہ ایرانی ملیشیائوں کا امیدوار ہے۔ اس موقع پر بعض مظاہرین نے راستوں کو بند بھی کر دیا۔

No comments.

Leave a Reply